Saturday 30 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,90



*اسلام  اور خانقاہی  نظام *
(گزشتہ سے پیوستہ قسط نمبر90)
سلطان باہو:
ضلع جھنگ کے شہر شور کوٹ میں سلطان باہو کا مشہور دربار ہے،ان کے مریدوں کا عقیدہ ہے کہ حق باہو کا نام ہی لے لیں 'بس فوری جنت مل جاتی ہے،اور یہ کہ اللہ تعالی تو لوگوں کو بخشنے کیلئے حق باہو (کا مرید اور ان سے نسبت والا ہونے)کا بہانہ ڈهونڈتا ہے .....چنانچہ میں  (امیر حمزہ) نے اس دربار کو بهی دیکهنے کا پروگرام بنا لیا.اور یہاں کی معلومات کیلئے شاہ کوٹ شہر سے محمد ارشد صاحب کو اپنے ہمراہ لیا-ارشد صاحب آبائی طور پر گدی کے مرید رہے ہیں اور وہ سالہا سال تک یہاں حاضری دیتے رہے ہیں -پهر اللہ نے انهیں توفیق دی اور توحید کی نعمت سے ان کے دامن کو بهر دیا-ہم کل چار ساتهی تهے -رات شور کوٹ میں گزارنے کے بعد صبح ہم تهانا گڑھ مہارجا کے راستے اس دربار پر پہنچے-
اس دربار پر محرم کے پہلے دس دن عرس لگتا ہے ملک بهر سے لاکهوں لوگ یہاں شرکت کرتے ہیں-وہ یہاں کیا کرنے آتے ہیں اس کی ادنی سی جهلک ہم آپ کو دکهائے دیتے ہیں.....محض اس لیے کہ جنهیں اللہ تعالی نے توحید جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے ،اللہ کی محبت میں ان کی غیرت جاگے کہ پاکستان میں بول و براز ' ننگ درنگ اور نہایت ہی کمزور مخلوق کے خاکی مجسمے کس طرح اللہ تعالی کے مد مقابل بن کر اپنے آپ کی پوجا کروا رہے ہیں.اور سادہ لوح عوام جاہلوں کی طرح اس فانی عاجز مخلوق کی پوجا کرنے میں مگن ہیں،اور اللہ تعالی کا بے پنہا اور خصوصی شکر بجا لائیں وہ مبارک لوگ  جن کو اللہ تعالی نے توحید کی عظیم و جلیل نعمت کی سعادت جاویدسے نوازا ہے......
مزاروں اور آستانوں پر دین کے نام پر ہونے والے یہ خرافاتی  مناظر قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اہل توحید محض روایتی طریقوں کو ہی نہ اپنائے رہیں بلکہ قرآن کی دعوت کے اس انقلابی طریق کار کو بهی اپنائیں کہ جس سے اللہ کی یہ مخلوق زندہ اور مردہ بندوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی بجائے اپنے پیدا کرنے والے پروردگار 'احسن الخالقین کے حضور سر جکائیں-اور وہ لوگ بهی جان جائیں جو ایک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو چهوڑ کر  بے بس مخلوق کے در پر جهکتے ہیں.
دربارکے ارد گرد:جیسا کہ دیگر درباروں کے باہر بازار لگے ہوتے ہیں ایسے ہی اس دربار کے باہر بھی بازار لگاہواتھا ۔جہاں نذریں چڑھانے کیلئے چادریں ،ہاتھوں میں پہننے کیلئے کڑے ،برکت کیلئے سجادد نشینوں کی تصویریں ،پمفلٹ،کھانے پینے   اورخریدنے کیلئے دیگر اشیاء موجود  تھیں ، ایک پمفلٹ خرید کر ہم آگے چل دیے ،یہاں ایک کنواں ہے جس پر ٹیوب ویل لگا یا جا  رہا تھا اور نہانے کی جگہ بنی ہوئی تھی جو پرانے غسل خانوں پر مشتمل تھی،اس کنویں کو 'حضوری کھوئی'کہا جاتا ہے۔لوگ یہاں اس نیت سے نہاتے ہیں کہ یہاں نہانے سے دنیا کے سب دکھ درد دُور ہو جاتے  ہیں ۔ذرا آگے چلے تو ارشد صاحب بتلانے لگے ۔کہ یہ جو مکانا ت ہیں ،یہاں زائرین ٹھہرتے ہیں ۔ہم بھی یہاں کئی کئی ہفتے ٹھہرا کرتے تھے ۔اس کے ساتھ ہی ایک مزار ہے جس کا نام 'بابا پیر جمے شاہ 'ہے۔اس  کے بارے میں مشہور ہے کہ آندھیاں اسی کے حکم سے چلتی ہیں ۔اس کے بعد ایک قبرستان  ہے جہاں ایک جگہ چار  چارپانچ پانچ من کے وزنی پھتر پڑے ہیں ۔ان پَھتروں کے بارے مشہور ہے کہ حضرت سلطان باہوصاحب بچپن میں ان پھتروں سے فٹ بال کا کھیل کھیلتے تھے اور اوپر پھینک کر کیچ بھی کیا کرتے تھے!یہ کچھ بیرونی مناظر دیکھنے کے بعد ہم دربار کے بیرونی مرکزی دروازے پر آپہنچے۔
گستاخ دروازہ:اس دروازے کے ارد گرد سنگ مر مر پر بہت کچھ لکھا ہوا تھا،مگر اس کے اوپر تین ناموں کو جس ترتیب کے ساتھ لکھا گیا تھا اس میں گستاخی کا ایسا گھٹیا انداز تھا کہ اسے وہی شخص محسوس کر سکتا جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ سچی محبت ہو اور اللہ کے رسول ﷺکی مبارک زندگی کا طرز عمل ہر وقت اس کا رہنما ہو ۔۔۔تو اس دروازے پر ایک لائن میں دائیں طرف 'حق باہو'لکھا ہوا تھا ،اس کے بعد یعنی درمیان میں 'یا اللہ 'اور آخر پر بائیں طرف 'یا محمد 'لکھا ہوا تھا ،،،اس گستاخی کو دیکھ کر آپ ﷺکے نامہ مبارک کا وہ نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا جس کا مضمون بخاری شریف کتاب بدءالوحی الیٰ رسول ﷺ میں موجود ہے۔یہ خط آج اصل شکل میں بھی موجود ہے اور اس کی نقلیں گھر گھر موجود ہیں،اس خط پر جو اللہ کے رسول ﷺنے شاہ روم ہر قل کو لکھا تھا۔اسے اسلام کی دعوت دی تھی،تو اس کے آخر پر آپﷺ نے جو مُہر لگائی تھی تو وہ مہر اسی ترتیب کے ساتھ آج بھی اس خط پر موجود ہے،اسی طرح سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سنت کی پیروی کرتے ہوئے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو جو دستاویز لکھ کر دی تو اس میں بھی یہی انداز تھا ،ترتیب اس طرح ہے:انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی (تو مجھے بحرین کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا )اور ایک دستاویز لکھ کر دی اور اس  پر مہر ثبت کی۔مُہر میں تین سطریں نقش تھیں ۔ایک سطر میں لفظ 'محمد 'دوسری میں سطر میں لفظ'رسول ' اور تیسری سطر میں لفظ'اللہ'(کا نقش تھا)(بخاری:5878)یعنی' محمد رسول اللہ 'لکھتے وقت سب سے اوپر 'اللہ 'کا عالی نام ہے ،اس کے نیچے مقام رسالت یعنی 'رسول 'کا مبارک لفظ ہے اور اس سے نیچے یعنی آخر میں آپ ﷺکا اپنا اسم گرامی 'محمد 'ہے،یہ نقشہ اس طرح ہے:اللہ ۔رسول ۔محمد ،کیسا با ادب انداز ہے یہ حقیقت کا آئینہ دار طرز عمل ہے یہ کہ جسے  رسول اللہ ﷺ نے اپنایا اور اپنی امت کو اللہ کی عظمت کا سبق سکھلایا،مگر ۔۔۔۔۔آہ!اس درباری دروازے پر ایک امتی کا نام دائیں طرف اور اس کے بائیں طرف خاتم المرسلین کا نام لکھ دیا گیا ۔اور اس دروازے سے لوگوں نے ایسے ایسے عجیب وغریب اور توحید شکن عقائد وابستہ کر رکھے ہیں کہ جسے ایک موحد پڑھ کر کانپ جا ئے ،
گستاخ دروازے پت تثلیثی فلسفہ:توحید کا عقیدہ بالکل سادہ ہے ،جس کے مطابق نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے،مگر یہ صاف سادہ اور بالکل صحیح    عقیدہ اس وقت لوگوں کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے،جب وہ اپنے عقیدے اور مذہب کو ایک فلسفہ بنا لیتے ہیں ۔عیسائیوں نے ایسا ہی کیا ،انھوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا ،اب بیٹا باپ کے جسم کا حصہ ہوتا ہے ،وہ باپ کی نسل سے ہوتا اور اس میں باپ کی خصوصیت موجود ہوتی ہیں ۔چنانچہ بیٹا بھی رب بن گیا ،اب عیسیٰ ؑکی ماں حضرت مریم ؑرہ گئی تھیں ،سوال پیدا ہواہے کہ آخر سیدنا عیسیٰ ؑ  جنھیں اللہ وحدہ لا شریک لہ کا بیٹا بنایا گیا ہے،انھوں نے جنم لیا تو حضرت مریم ؑ کے بطن ہی سے لیا ہے تو حضرت مریم ؑ کا کیا مقام ٹھہرا ؟چنانچہ عیسائیوں نے انھیں بھی اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں حصہ دار بنا دیا اور یوں انھوں نے تین رب بنا ڈالے ۔مگر تین کہنے کے باوجود وہ یہ بھی کہتے تھے کہ رب ایک ہے اور یہ کہ ایک میں تین ہیں اور تین میں ایک۔۔۔۔اب فلسفہ کسی کی سمجھ میں کیا خاک آئے گا ،اسے تو خود بنانے والے سمجھنے سے قاصر ہیں ،کسی کو  وہ کیا سمجھائیں گے ،چنانچہ ایسا ہی فلسفہ اس دربار کے گستاخانہ دروازے پر دکھائی دیا،ملاحظہ فرمایے !
 "ھو                 ھو                               الحق                         ھو.....یا                                   باھو                     حق .....حق                                 ھو                          اللہ                             ھو "
اب 'ھو 'کی تکرار پر مشتمل فلسفے کو سمجھنے کیلئے میں نے اس کتاب کو کھو لا جس کا نام 'سوانح  حیات حضرت سخی سلطان باھو 'ہے،اور اسی دربار سے میں نے اسے خریدا،اس کتاب کے باب دوم کی فصل اول میں لفظ 'باھو'کی تشریح یوں مرقوم ہے:لفظ باھو کے معنی (ساتھ اللہ جل  شانہ کے)جو آپ اول ،آخر،ظاہر،باطن ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہیں ۔یہاں حضرت کا نام اس طرح تحریر کیا گیا ہے:'حضرت شیخ سلطان باھو فنا فی اللہ  بقا فی ہو  '
یعنی یہ حضرت نہ صرف یہ کہ اول و آخر اللہ  کے ساتھ ہیں بلکہ یہ اللہ ہی میں فنا ہو گئے ہیں  اور اللہ ہی وہ باقی  ہیں ۔۔۔تو جب وہ اللہ ہی میں مل گئے تو پھر وہ اللہ ہی ھو گئے،
(نعوذ باللہ )
عیسائیوں  نے اللہ کے پیغمبر عیسیٰ ؑکو اللہ میں شامل کرنے  کا شرکیہ فلسفہ گھڑا تو اللہ  نے قرآن میں ان کے اس فعل کو کفر کہا!اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوٓا اِنَّ اللّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّآ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ ،ترجمہ ،یقیناًلوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں ایک ہے ،حالانکہ ایک معبود کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے(المائدہ :73)یعنی  جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ ؑ کو اللہ میں داخل کیا اسی طرح سلطان باھو کو بھی' ھو ھو '  کی تکرار کے ساتھ اللہ میں داخل کر دیا گیا ۔'حق باھو سچ باھو 'کے نعروں کے ساتھ سلطان باھو کو اپنا معبود ماننے میں بھی کوئی شک نہیں چھوڑا ،حتیٰ کہ جس طرح کم و بیش اللہ کے نناوے (99)نام ہیں ،اسی   طرح  سلطان باھو کے نناوے نام گنوائے  گئے  ہیں ،پھر جس طرح رب تعالیٰ کا ذاتی نام 'اللہ'ہے ،اسی طرح حضرت سلطان  کا  ذاتی نام 'باھو'بتلایا گیا ہے،اور اس سے  بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ آپ کا صفاتی نام 'حق'ہے۔پھر سوانح حیات حضرت سخی سلطان  باھو  ہی کے صفحہ پچیس   پر یوں لکھا ہوا ہے:(ان دونوں  ناموں ) کو ملا کر 'حق  باھو 'بلند آواز سے پڑھنے کا وظیفہ بھی   نہایت مجرب  ہے ،جو ایک دو نہیں لاکھوں طالبوں کا آزمایا ہوا ہے،
اب اللہ کا فرمان ملاحظہ کیجئے کہ' حق ھو 'کو ن ہے؟
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ وَاَنَّ اللّهَ هُوَ الْعَلِىُّ الْكَبِيْرُ ،ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ 'حق ھو'اللہ ہی ہے اور وہ سب باطل ہیں  جنھیں اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں اور بے شک اللہ ہی کبریائی اور بڑائی والا ہے(الحج:62)غرض یہ دروازہ تو گستاخ تھا ہی مگر جب ہم نے اس کی ڈیوڑی(برآمدہ)میں قدم رکھا  تو وہ دروازے سے کہیں بڑھ کر گستاخ دکھائی دی۔وہاں گستاخیاں  تو بہت ساری تھیں مگر ایک گستاخی  ایسی تھی کہ جس کے سامنے باقی سب گستاخیاں ہیچ تھیں ۔وہ ایک شعر کی شکل میں کچھ یوں تھی!' ہم غریبوں کے لیے وہ تھے پناہ دو جہاں ۔اس جہاں میں اب ہمارا آسرا کوئی نہیں '
یہ شعر کہ جس میں اللہ مالک الملک کی مکمل طور پر نفی کر دی گئی ہے،یہ معبود سجادہ نشین کے بڑے بھائی سلطان کے بارے  میں ہے جو اپنی سجادہ نشینی کے دن پورے کر کے درباری زبان میں پردہ فرماچکے ہیں اور قرآنی زبان میں مر گیا ہے،
جاری ہے ۔۔۔۔۔

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...