Wednesday 13 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,78


اسلام اور خانقاہی نظام

شاہ دولہ کے چوہے
شاہ  دولہ کے چوہے پاکستان کے ہر شہر میں بهیک مانگتے ہوئے دیکهے جا سکتے ہیں لیکن ہم اختصار کے ساتھ ایک واقعہ پیش خدمت کرتے ہیں...
۔گلبرگ لاہور کی مین بولیوارڈ Main Boulivard ایک شاندار سڑک ہے۔ روشنیوں کا ایک سیلاب ہے جو شام سے رات گئے تک اس شاہراہ کو سیراب کرتا رہتا ہے۔ گاڑیاں کچھ دیر کے لیےسرخ سگنل پر کھڑی ہوتی ہیں،اتنے میں45/50برس کی ایک عورت نے ایک ہاتھ سے ایک شاہ دولے کے چوہے کا بازو پکڑا ہوا ہے اور دوسرے ہاتھ میں شاہ دولہ کی ایک چوہی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ان کو لیکر کاروں کی طرف جا رہی تھی۔ چوہے کا ہاتھ اس نے چھوڑ دیا جو کاروں کی طرف بڑھ گیا اور بھیک مانگنے لگا جبکہ چوہی کو پکڑے بھیک مانگنی شروع کر دی۔ سبز رنگ کے چوغے پہنے چھوٹے سر والے بچے جن میں سے بیشتر ذہنی معذور اور گونگے بھی ہوتے ہیں ان کو شاہ دولہ کے چوہے اور ایسی لڑکیوں کو شاہ دولہ کی چوہیاں کہا جاتا ہے ۔حضرت شاہ دولہ کے مزار پر جہاں دور دراز سے معتقدین اپنی منتوں و مرادوں کے پورا ہونے کی آس لے کر آتے ہیں۔وہاں ایسی خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے کہ جو اولاد کی نعمت سے محروم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے خاندان اپنے چھوٹے بچوں کو نظر بد سے بچائے رکھنے کے لیے یا کوئی پیدائشی نقص کو دور کرنے کی غرض سےدعا کرنے کے لیے آتے ہیں۔مزار سے منسوب روایتیں اگرچہ گجرات شہر میں تو اتنی مقبول نہیں کہ جتنی یہ ملک کے دوسرے شہروں میں مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو بے اولاد مرد یا عورت حضرت شاہ دولہ کے مزار پر جا کر اولاد کی منت مانتا ہے تو اس کے ہاں پیدا ہونے والی پہلی اولاد ایب نارمل ہوتی ہے یعنی اس کا سر چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور وہ بے زبان ہوتا ہے۔ اور منت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو مزار پر چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایسے بچوں کا سر چھوٹا  ہوتا ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جو لوگ ایسے بچوں کو درگاہ کے نام پر وقف نہیں کرتے یا مزار پر چھوڑ کر نہیں جاتے تو ان کے ہاں پھر ایسے ہی چوہے بچے پیدا ہوتے ہیں۔
تاہم گجرات اور آس پاس کے لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ شاہ دولہ کے چوہے اللہ کے بہت نزدیک ہوتے ہیں اور ان کی دعا ہرحال میں قبول ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شاہ دولہ کا چوہا لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے تو ہر شخص حسب توفیق انہیں ضرور دیتا ہے۔ اور انہیں خالی ہاتھ نہیں جانے دیتا۔شاہ دولہ کے مزار پر بطورِ عقیدت جو بچے چڑھائے جاتے ہیں انہیں شاہ دولہ کے چوہے کہا جاتا ہے۔اس مزار کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ جو خاندان بے اولاد ہوتا ہے یا اولاد ہوتی ہے اور مر جاتی ہے یا پھر کسی اور سبب سے مزار پر منت مانتا ہے اور مراد پوری ہونے کی صورت میں وہ پہلی اولاد مزار پر موجود افراد کے حوالے کر دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ دولہ کے مزار پر منت ماننے والوں کے ہاں جو پہلا بچہ پیدا ہوتا ہے وہ ذہنی طور پر تقریباً معذور ہوتا ہے، اس کا سر بالکل چھوٹا ہوتا ہے جبکہ شکل چوہوں سے ملتی جلتی ہے اور اگر کوئی عورت منت پوری ہونے کے بعد اپنی پہلی اولاد کو اس مزار کی نذر نہ کرے تو پھر ساری عمر اس عورت کے ہاں ایسے ہی بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جو والدین کم علمی یا کمزور عقیدے کے سبب اپنے بچوں کو بطورِ عقیدت مزار پر موجود بھکاری مافیا کے حوالے کر دیتے ہیں وہ ایسے بچوں کے سروں پر ایک مخصوص ٹوپی نما شکنجہ (لوہے کی ٹوپیاں)چڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے سروں کی نشوونما رُک جاتی ہے بلکہ ان کی دماغی اور جسمانی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے اور پھر یہ بچے رفتہ رفتہ ذہنی طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ اب ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے جو کہ بھیک مانگ کر کھانا ۔ ایسے لوگ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتے اور نہ ہی زندگی کی بھاگ دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔یہ بات بھی مشہور ہےکہ  اگر والدین پہلے   بچے کو دولے شاہ کے مزار پر وقف نہیں کرتے ہیں تو ان کی ہونے والی ساری اولاد ہمیشہ چھوٹے سروالی یا معذور ہی پیدا ہوتی رہتی ہے ۔یہاں تک کہاجاتا کہ اگر بچے کو اس شاہ دولہ کے  آستانہ پر نہیں لایا جاتا تھا تو وہ بڑا ہو کر خود بخود یہاں پہنچ جاتا تھا-کہا جاتا ہے کہ ۔1969ء میں محکمہ اوقاف نے اس دربار کو اپنی تحویل میں لے لیا اور چوہے بنانے کے کام کو قانونی طور پر بند کر دیا۔ اس کے باوجود یہ عمل آج بھی جاری ہے،  لیکن شاہ دولہ کے مزار پر آج بھی ایسے بچوں کی کثرت سے موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ بھکاری آقاؤں کے ہاتھوں نہ صرف یہ کاروبار عروج پر ہے بلکہ اُنہوں نے اس حوالے سے توہمات کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھکاری مافیا شاہ دولہ کے چوہوں کا استحصال کرتے ہوئے نہ صرف ان سے شہر شہر، گاؤں گاؤں بھیک منگواتے ہیں بلکہ پیشہ ور بھکاری اِن چوہوں کو ماہانہ ٹھیکوں پر بھی لے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا باقاعدہ کنٹریکٹ ہوتا ہے اور پھر جب کنٹریکٹ کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو انہیں واپس دربار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملک کے کونے کونے میں شاہ دولہ کے چوہے بھیک مانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔اور شاہ دولہ کے دربار کے باہر گلی کے دونوں جانب پھول، چادریں اور دیگیں فروخت کرنے والوں کی دکانیں ہیں۔ ان دکانوں پر سونے چاندی اور گلٹ کے بنے ہوئے انسانی اعضاء، ہاتھ، پاؤں ، زبان ، سر اور پورا جسم بھی فروخت ہوتے ہیں جنہیں معتقدین خرید کر نذارنہ کرتے ہیں۔ جب دربار میں کوئی دوسرے شہر سے جاتا ہے تو اسے یہ خیال آتا ہے کہ یہاں پر دولے شاہ کے بہت چوہے ہونگے۔ یا یہاں کوئی ایسی پرورش گاہ ہوگی کہ جہاں ایسے بچوں کی پرورش کی جاتی ہے مگر مزار کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر ویسی ہی روایتی چہل پہل نظر آتی ہے جیسے دیگر مزارات پر۔یہاں پر کوئی ایسی عمارت یا چوہے نہیں۔تاہم ایکا دکا ہی ہوتے ہیں جیسے کے دیگر درباروں پر۔مگر محکمہ اوقاف نے یہ دربار تحویل میں لینے کے بعد ایسے بچوں کو دربار میں چھوڑ جانے پر پابندی عائد کر دی۔اور مزار کے جانشین اور دیگر معتقدین ان تمام روایات کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسی حقیقت نہیں کہ منت کے نتیجے میں پہلا پیدا ہونے والا بچہ چوہا پیدا ہوتا ہے یا چھوٹے سروالا یا کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور پہلا بچہ اگر مزار پر نہ چھوڑا جائے تو باقی کی اولاد بھی ایسی ہی پیدا ہوتی ہے،اس بات کی بھی مزار کے جانشین نفی کرتے ہیں،لیکن پھر بھی ضعیف العقیدہ  لوگ  اس مزار پر اپنی پہلی اولاد کو دربار پر مجاروں کے حوالہ کر دیتے ہیں ،بہر حال!ایسے معزور بچے پیدا کیوں ہوتے ہیں؟۔طبی ماہرین کا کہنا کہ ایک جنیاتی نقص ‘Microcephaly’ کی وجہ سے ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ نقائص صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیاءکے دیگر علاقوں، مشرق وسطیٰ اور جنوبی افریقہ کے کچھ قبائل میں بھی ایسے ہی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ خاص طور پر قدامت پرست یہویوں کی ایمیش کمیونٹی میں بھی چھوٹے سر والے بچے کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔اس جنیاتی نقص کی وجہ سے بچوں کے سر بڑھنے کی رفتار( گروتھ) ختم ہوجاتی ہے اور ان کا جسم اور عمر بڑھتی رہتی ہے مگر بچے کا سر اور ذہنی کیفیت   بچوں کی طرح ہی   رہتی ہے۔ طبی ماہرین نے اس کی جو وجوہات بتلائی ہیں ان میں سب سے اہم وجہ خاندان  کو قرار دیا ہے۔ یہودیوں کے ایمنش کمیونٹی پر کی گئی تحقیق کے مطابق ان میں قریبی رشتہ داروں میں نسل در نسل شادیاں کرنے کی روایت ہے جو پاکستان کے بیشتر علاقوں اورخاندانوںمیں بھی موجود ہے۔سگے راشتہ داروں میں شادیاں کرنے کی وراثت میں ملنے والی جنیاتی خامیاں اگلی نسل میں زیادہ شدت سے منتقل ہو جاتی ہے۔ جس وجہ سے ممکن ہے کہ ایک خاندان  میں شادی کے نتیجے میں ایسی اولاد پیدا نہ ہو مگر جب ایسا تواتر سے ہوتا رہے تو کسی نہ کسی نسل میں یہ نقائص ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔تاہم جب طبی ماہرین کے مطابق اب یہ نقص لا علاج نہیں ہے۔ اگر حمل کے ابتدائی دنوں میں ہی مرض کی تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج ممکن ہے۔ اب پاکستان میں بھی یہ سہولت موجود ہے کہ ابتدائی ایمبریو کا ٹیسٹ ہو جاتا ہے اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ان بچوں کی موجودہ حالت اگرچہ ایسے بچوں کی درست تعداد کے اعداد وشمار تو ملک کے کسی ادارے کے پاس نہیں تاہم ایسے بچوں کی تعداد 10ہزار سے زائد ہو گی۔البتہ ان تمام پہلوؤں پر سنجیدہ تحقیق صرف برطانوی ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے کی ہے۔ اس کے علاوہ چند برطانوی افسران جو گجرات میں تعینات رہے، انھوں  نے بھی ان بچوں کا بغور مشاہدہ کیا اور مختلف رپورٹس مرتب کیں۔ انڈین اور پاکستانی دانشور اس جانب بہت کم متوجہ ہوئے اور ان کا بطور محقق اس معاملے میں تجزیہ تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اصل میں سائنس اور علم کی دنیا سے ہم لوگوں کا تعلق واجبی سا ہے۔ ہم ماضی کے سائے میں سانس لیتے ہیں۔ اگر کسی تعصب کے بغیر موازنہ کیا جائے تو ہمارے خطہ میں سائنس، ایجادات اور نئی دریافتیں بالکل نا پید ہیں۔کرنل کلاڈ مارٹن(Col Clade Marten) 1839ء  میں اس دربار پر پہنچا۔ اس نے چند خواتین کو اپنے بچوں کو دربار کے لیے وقف کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اُس کے مطابق یہ رسم بہت پہلے سے چلی آ رہی تھی۔ بچوں کی جسمانی حالت کے متعلق اس نے لکھنے سے گریز کیا۔ 1866ء میں ڈاکٹر جانسٹن دولے شاہ کے دربار پر آیا۔ اُس کو وہاں نو بچے ملے۔ ان بچوں کی عمریں دس اور انیس برس کے درمیان تھیں۔ ان تمام بچوں کے سر بہت چھوٹے تھے۔ اور وہ دولے شاہ کے چوہے کہلاتے تھے۔ ڈاکٹر جانسٹن وہ پہلا سائنس دان تھا جس نے بتایا کہ ان تمام بچوں کے سروں کو فولادی خود یا کسی اور میکینکل طریقے سے چھوٹا کیا گیا ہے۔ 1879ء میں ہیری ریوٹ کارنک (Harry Rivett Cornic) نے اس دربار پر تحقیق کی۔ اس نے لکھا کہ ہر سال تقریباََ دو سے تین بچوں کو دربار کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔ اس نے معصوم بچوں کو چوہا بنانے کے متعلق لکھا کہ ان بچوں کے سروں کو میکنیکل طریقے سے چھوٹا کیا جاتا ہے اور اُس میں مختلف حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مٹی کی ہنڈیا اور دھات سے بنے ہوئے برتن  بھی ان بچوں کو چوہوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔یعنی اگر یہ ٹوپی نما  شکنجے بچوں کے سروں پر  جکڑبند کر دیئے  جائیں تو بچوں کے سر کی بڑھوتری رک جاتی ہے، فلورا اینی اسٹیل   (Flora Annie Steel)    نے 1886ء میں ان بدقسمت بچوں کے متعلق لکھا کہ دربار پر یہ بچے بالکل تندرست اور صحت مند ہوتے تھے اور ان میں کسی کا سر چھوٹا نہیں تھا۔ مگر مقامی لوگوں کے چند گروہ ان تندرست بچوں کو پورے ہندوستان میں فروخت کر دیتے تھے اور ان کی جگہ چھوٹے سر والے بچے لے آتے تھے۔ اکثر والدین اپنے معذور بچوں کو ان گروہوں کے حوالے کر دیتے تھے کیونکہ یہ بچے ان کے لیے مکمل بوجھ تھے۔کیپٹن ایونز نے 1902ء میں اس دربار پر بھر پور تحقیق کی۔ اس وقت تک یہ بچے 600 سو کے قریب ہو چکے تھے۔ اس نے بچوں کے سروں کو زبردستی چھوٹا کرنے کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے بالکل انکار کر دیا۔ اُس کے بقول یہ ایک بیماری تھی اور اس طرح کے بچے شاہ دولہ کے مزار کے علاوہ پورے ہندوستان میں پائے جاتے تھے۔ اس نے لکھا کہ، اس طرح کے بچے Microcephalicکہلاتے ہیں اور یہ بچے اس نے برطانیہ اور دیگر ملکوں میں بھی دیکھے ہیں۔ اس کے نزدیک دولے شاہ کا مزار اس مہلک بیماری میں مبتلا بچوں کے لیے ایک سماجی پناہ گاہ ہے۔ مگر اس نے ان بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کے متعلق بہت سخت الفاظ استعمال کیے۔ اس نے بیان کیا کہ جو فقیر ان بچوں کو لے کر بھیک مانگنے کے لیے مختلف مقامات پر لے جاتے ہیں۔ ان کا رویہ ان بچوں کے ساتھ انتہائی نازیبا اور غیر انسانی ہوتاہے۔اور ان چھوٹے سر والے بچوں کے تعاقب میں بھکاری مافیا لگا رہتا ہے۔ اس کے کارندے نشاندہی ہونے پر یا تو انہیں  اغوا کر لیتے ہیں یا پھر غریب والدین سے خرید لیتے ہیں۔ لڑکا پچاس ہزار تک اور لڑکی ایک لاکھ تک فروخت ہو جاتی ہے۔ پھر ان سے بھیک منگوا کر ان کا ساری عمر استحصال کیا جاتا ہے۔ یہ بچے بھکاری مافیا کے لیے سونے کے چڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ عام لوگ ان چوہوں کی ناراضگی مول نہیں لیتے اور ان کو ضرور کچھ نہ کچھ دیتے ہیں اور ظاہرہے  یہ اتنی رقم یا نذرانے ان بچوں نے خود استعمال نہیں کرنے ہوتے بلکہ ان کے ٹھیکیدار یہ سب کچھ لے لیتے ہیں۔ ان کے علاوہ اس مافیا کی چالاک کارندوں کی باتوں میں آ کر بعض ناسمجھ اور انتہائی غریب والدین کہ جن سے ویسے ہی عام اور تندرست بچوں کی پرورش ممکن نہیں ہوتی تو وہ ایسے بچوں کو مزار کے نام پر وقف کر دینے کے نام پر ان افراد کو دے دیتے ہیں۔اب یہ بھکاری مافیا ایک پورا نیٹ ورک بن چکا ہے جو مختلف شہروں اور علاقوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ بلکہ اس کی مختلف کمیٹیاں بھی ہوتی ہے۔ جوگداگری کے مختلف شعبوں کو ڈیل کرتی ہیں ہر علاقے کا ایک ٹھیکیدار ہوتا ہے جو تھامبو کہلاتا ہے ہر تھامبو کے نیچے پچاس سے لیکر پانچ سو تک گداگر ہوتے ہیں اور ایک علاقے کا گداگر دوسرے علاقے میں جا کر نہیں مانگ سکتا اور اگر کوئی غلطی سے دوسرے علاقے میں چلا جائے تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مختلف علاقے مخصوص دنوں اور تہواروں کے موقع پر لاکھوں روپے ٹھیکے پر بکتے ہیں۔ اور جب ٹھیکہ ختم ہو جاتا ہے تو یہ چھوٹے سروں والے بچے واپس کر دیے جاتے ہیں۔ جبکہ مختلف تہواروں کے موقع پر ان کا کرایہ بھی زیادہ لگایا جاتا ہے-اس طرح چھوٹے سروں والوں ان چوہوں کا ایک الگ سے شعبہ ہے جس کے کارندے ملک میں ایسے بچوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ۔یہ انسانیت سے گری ہوئی مافیا ان معصوم بچوں کا ساری عمر استحصال تو کرتے ہی ہیں مگر یہ بات کتنی گھٹیا اور افسوس ناک ہے کہ اس مافیا میں شامل جنسی درندے ان معصوم بچوں( چوہوں) خصوصاً لڑکیوں( چوہیوں) کے ساتھ جنسی تشدد کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔
بشکریہ :فاطمہ اسلامک  سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...