Sunday 10 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،71


اسلام اور خانقاہی نظام


آسمانی اور زمینی جنت کا فرق:ایک جنت وہ ہے جسے پروردگار عالم نے اپنے اہل توحید بندوں کیلئے بنایاہے،اب چونکہ رب کے مقابلے میں رب بننے کا مقابلہ اس دنیا میں جاری ہے،تو جو رب کے کام ہیں ان کا مقابلہ کیوں نہ کیا جائے ،چنانچہ اللہ کی جنت کے مقابلے کیلئے زمین پر ایک درباری جنت بناد ی گئی اور دروازے پر لکھ دیا گیا :فردوس کہ جز وزمین است،ہمیں است ہمیں است ہمیں است 'ترجمہ:زمین کا وہ حصہ جو فردوس ہے وہ یہی ہے وہ یہی ہے وہ یہی ہے،لیکن جو جنت اللہ نے بنا رکھی ہے اہل توحید جب اس کے دروازوں کے پاس پہنچیں گے تو ان کے استقبال کا منظر کچھ اس طرح ہو گا،حَتّٰى اِذَا جَآءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خَالِدِيْنَ،ترجمہ:حتی کہ جب وہ جنت کے پاس آجائیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے تو اس کے دربان ان سے کہیں گے سلام ہو تم پر بڑے اچھے رہے تم اب اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تشریف لے جاؤ(سورۃ الزمر:73)اس مصنوعی اور زمینی باب جنت پر لوگوں کی خواری اور ذلت ملاحظہ کیجئے !گرمی کا موسم ہے دربار سے لے کر شہر کے بازار سے ہوتے ہوئے چند کلومیٹر تک لوگ ساری رات سارہ دن بھوکے پیاسے بہشتی لائن میں لگے ہوئے ہیں ،پسینے میں شرابور 'گرمی نے برا حال کر رکھا ہے اور ادھر ان میں سے جو کوئی بہشتی دروازے کے قریب   پہنچتا ہے تو وہاں کے انسانی داروغے رش کی وجہ سے بہشتیوں پر لاٹھیا ں برساتے ہیں ،اور افراتفری کا سماں ہے،اس دوران کئی بے ہوش ہو جاتے ہیں کپڑے پھٹ جاتے ہیں کئی زخمی ہو جاتے ہیں ۔اور کئی دم گھٹ کر مر جاتے ہیں اور بعض اوقات حادثات کی شکل میں کئی اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دو بیٹھتے ہیں ،اور دوسری طرف جن صحابہ کو اللہ کے رسول ﷺ نے دنیا کی زندگی میں جنت کی خوشخبری سنائی ان کی قبروں پر کوئی بہشتی دروازہ نہ بن سکا ،اللہ کے رسول ﷺ کے روضہ مبارک پر کوئی بہشتی دروازہ نہیں ہے ،تو سات سو سال بعد بہشتی دروازہ کیسے وجود میں آگیا ،ایسی من گھڑت باتوں کی نسبت اللہ کے رسول ﷺ کی طرف کرنے والوں کو رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ملاحظہ کر لینا چاہیئے :جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے (البخاری )

حقیقتِ خواب:اگر کوئی یہ کہے ! کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خواب میں نظام الدین اولیاء کو یہ دروازہ بنانے کا حکم دیا ہے یا انھوں نے بچشم باطن حضورﷺ کو دیکھا ہے ،کہ آپ ﷺ نے فرمایا:جو اس دروازہ سے گزرے گا امان پائے گا،تو ایسی باتیں کرنے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ دین قرآن و حدیث کا نام ہے اور وہ مکمل ہو چکا ہے ،ایسے خواب مکاشفے اور چشم باطن کی صوفیانہ اور درباری باتیں بالکل باطل اور شیطان کے جال ہیں،جبکہ وہ قرآن وحدیث کے نہ صرف صریحاًمخالف ہیں بلکہ اسلامی شعار کی اہمیت و تقدس کو بھی کم کرنے کی سازش ہیں ،آپ ﷺنے فرمایا:اگر تم میں سے کوئی شخص کسی انگارے پر بیٹھے اور وہ انگار ااس کے کپڑوں کو جلا دے پھر اس کے بدن کو جا لگے تو یہ انگار ااس بات  سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی قبر کا مجاوربنے(مسلم)ذراانصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ یہ خود ساختہ بہشتی دروازہ جنت کا دروازہ ہے یا کہ جہنم کا۔۔۔؟کوئی بے شک اسے جنت کا دروازہ کہتا رہے مگر اللہ کے رسول کے فرمان کے مطابق یہ جہنم کا دروازہ ہے اور جیسے یہاں دھکے پڑتے ہیں قیامت کے روز بھی جہنم کے دروازے پر جہنمیوں کو اللہ کے فرشتے دھکے دے کر مار مار کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا ،اور اللہ تعالیٰ اپنے گھرکعبہ کے با برکت اور تما م جہان والوں کیلئے مرکز ہدایت ہونے کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:وَمَنْ دَخَلَهٝ كَانَ اٰمِنًا،ترجمہ: اور جو اس میں داخل ہو گیا اسے امن مل گیا(آل عمران:97)اور یہ امن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے وقت سےیعنی چار ہزار سال سے جاری ہے ،اب اس بیت اللہ کا مقابلہ قرآن کی آیت کا مقابلہ اور فرمان الٰہی کا مقابلہ کرنے کیلئے درباری بہشتی دروازے پر عربی میں جملہ لکھ دیا گیا ہے'من دخل ھذالباب امن'ترجمہ:جو اس دروازے سے داخل ہو گیا اسے امن مل گیا ،اور اس درباری اور جعلی بہشتی دروازے سے گزرنے کیلئے امیر اور غریب کا امتیاز روا رکھا گیا ہے ،اور جو اصلی آسمانی بہشت ہے اس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:غریب مسلمان امیر مسلمانوں سےآدھا دن پہلے جنت میں پہنچ جائیں گے اور وہ قیامت کا آدھا دن پانچ سو سال کا ہو گا(ترمذی)محترم قارئین کرام!موجودہ گمراہیاں جنہیں آپ نے گزشتہ صفحات میں ملاحظہ کیا ،انہیں دیکھ کر اگر آپ کے سینے میں حق اور باطل میں فرق نمایاں نہیں ہوتا تو پھر یا د رکھیئے ۔۔۔!عنقریب آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے جوبدہ ہیں اورجواب سوچ کر رکھئیے ۔۔۔۔۔۔۔!جاری ہے۔۔۔

بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...