Saturday 30 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,83


 اسلام اور خانقاہی نظام

(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر83)
 اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم ان سے اپنی محبت اور شفقت کو ان کی اسلامی تربیت کے لیے استعمال کریں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ضروری ہے کہ یہ محبت سیدھی راہ پر ان کی تربیت میں ممد و معاون ہو اور وہ اس پر رہتے ہوئے اعلیٰ نمونہ بن جائیں جبکہ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو چومتے ہوئے ،ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اور ان کے کاندھوں پر تھپکی دیتے ہوئے ان کے کانوں میں یہ باتیں ڈالیں تاکہ بچے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں نہ کریں ، الحاد کے جال میں نہ پھنسیں یا ان پر بغاوت اور غرور کے ایسے جذبات کا غلبہ نہ ہو جائے جو ان کے لیے اخروی زندگی میں نقصان کا باعث بن جائیں کیونکہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کے لیے مناسب ماحول تیارکریں اور ہر وہ کام کریں جو ضروری ہے تاکہ ان کی اولاد دنیا سے اسی طرح صاف ستھری رخصت ہو جس طرح اس میں آئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام امور کو پورا کرنا بچوں کی محبت کا ایک اور رخ ہے اور اس میں کوئی نقصان بھی نہیں۔
اس کے برعکس اگر انسان ان سب باتوں کی پروا نہ کرے اور بچے سے بندگی کی حد تک صرف اس لیے محبت کرے کہ وہ اس کا بچہ ہے، ہر شے کو اس کے ساتھ جوڑ دے اور ہر وقت اس کے بارے میں بولنا چاہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے لاشعوری طورپر شرک کے ایک دروازے پر دستک دے دی ہے اگرچہ وہ اللہ اور اس کے رسول پرایمان کا دعویٰ کیوں نہ کرتا ہو۔  لیکن اپنے بچے سے انتہائی تعلق کی وجہ سے شرک کی صفات میں سے ایک صفت اس کے اندر آگئی ہے۔ نبی کریم ﷺ اس مفہوم کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں: إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ؟ قَالَ: “الرِّيَاءُ“ (مجھے جس چیز کا تم پر سب سے زیادہ خوف ہے، وہ چھوٹا شرک ہے۔ سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ: چھوٹا شرک کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ریاکاری۔‘‘(مسند احمد )
اگر ہم اس بات کو محسوس مثالوں سے واضح کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات بھی ریاکاری ہے کہ انسان اپنے چہرے کے خدوخال کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار کرے اور دوسروں کے سامنے عبادت کرتے ہوئے انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرے جبکہ وہ اکیلے میں ایسا نہیں کرتا یا دوسروں کے سامنے اپنی خصوصی صلاحیتوں جیسے اچھی تالیف، مصوری اور خطابت وغیرہ اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی خواہش کو اپنی بات کے آغاز میں ’’یہ فقیر'خادم اور عاجز وغیرہ‘‘ جیسے الفاظ کے غلاف میں لپیٹنے کی کوشش کرے۔ یہ بات دکھلاوے کی خطرناک ترین شکل ہے۔ اس طرح انسان کا اپنے بچے کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار بھی مذکورہ بالابات سے مختلف نہیں۔ پس ایسا انسان اپنے بچے سے محبت کو شرک کی صفات میں سے ایک صفت سے آلودہ کردیتا ہے جبکہ بندہ مومن پر لازم ہے کہ وہ ایمان کی صفات کی حفاظت کے لیے بھی ایسی ہی باریک بینی سے کام لے جتنی اپنی عزت اور شرافت کی حفاظت کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے افکار اور احساسات کو بھی شرک خفی یعنی ریا کاری ، خود پسندی ،یا شہرت، فخر اور تکبر، سے بچائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک شرک کی صفت ہے اور انسان کے اندر اس کا وجود ایک وائرس کی طرح ہے جبکہ کسی وائرس کی وجہ سے آدمی کو نزلہ زکام یا دیگر بیماریوں کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے .
اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ شرک اور کفر کی صفات میں سے کسی بھی صفت کو معمولی نہ سمجھے اور ان کو اپنے دل اور روح میں پنپنے کی اجازت نہ دے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اپنے بچے اور خاندان سے شدید محبت کا اظہار کرنے والا آدمی مشرک نہیں ہے اگرچہ اس میں شرک کی ایک صفت آگئی ہے۔ اس لیے اگر ایمان پر مرے گا تو جنت میں چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ (جو سب سے زیادہ جانتا ہے) اس سے مشرکوں والا معاملہ نہیں کرے گا لیکن ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس مشکل کا کوئی حل تلاش کریں اور اس بارے میں نہایت باریک بینی سے کام لیں کیونکہ شرک کی یہ صفت ایک وائرس کی طرح ہے جبکہ وائرس کو جسم میں فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ اس کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔مثلاً اگر نزلے کے وائرس کا کامیاب علاج نہ کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے انسان کو کسی دوسری بیماری کا سامنا یا وہ موت کے منہ میں بهی جا سکتا ہے۔اس وجہ سے انسان کسی بھی ایسے وائرس کو اپنے جسم میں قرار نہ پکڑنے دے جو اس کی اصل فطرت اور ’’احسن تقویم‘‘ کی اس صورت کے خلاف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا فرمایا ہے۔ اگر یہ وائرس اس کا درووازہ کھٹکٹانا چاہیں تو اسے یہ کہتے ہوئے بند کردے کہ ’’اپنے آپ کو فضول مت تھکاؤ کیونکہ سارے دروازے بند ہیں۔‘‘
انسان کے لیے شرک کے بارے میں اس قدر احتیاط کیوں ضروری ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات شرک اس قدر خفی اور معمولی ہوتا ہے کہ انسان اس کو محسوس کرتا ہے اور نہ اس کی پروا لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ چھوٹے گناہ جن کو ہم معمولی سمجھتے ہوئے ان کی پروا نہیں کرتے، وہ بار بار تکرار کی وجہ سے بعض اوقات بڑے گناہوں سے بھی بڑے ہو جاتے ہیں بلکہ ان سے زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں اور مقولہ ہے کہ:’’اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں اور استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں۔‘‘ علاوہ ازیں جب بندے کو اپنے بڑے گناہوں کا پتہ چل جاتا ہے اوران کی قباحت معلوم ہوتی ہے اور ان کو یہ سنجیدگی سے لیتا ہے تو فوراً عاجزی اور انکساری کے ساتھ توجہ اور انابت کے ذریعے اپنے رب سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد گناہ کا یہ احساس اس کے اندر گناہوں کو ختم کرنے کا شعور پیدا کردیتا ہے اور آخر کار وہ ہمیشہ کے لیے ان سے چوکنا اور ہوشیار رہتا ہے۔
یوں اگر والدین اپنے بچوں سے محبت میں اعتدال کا خیال نہ رکھیں تو ابتداء میں وہ معمولی ہو گی مگر بعد میں ایک مشکل بن جائے گی جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔جاری ہے ۔۔۔۔

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...