Monday 4 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،62

اسلام اور خانقاہی نظام

”بابا دھنکا“ سے یادگار ملاقات نواز شریف کے سیاسی مرشد ضیاءالحق تھے تو بے نظیر کا سیاسی راہنما اس کا والد ذوالفقار علی بھٹو تھا -اور وہ دونوں ایک دوسرے کے سیاسی مخالف اور جان کے دشمن تھے- یوں نوازشریف اور بے نظیرکے سیاسی راستے جدا جدا ہیں- یہ دونوں بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں- دونوں دو دو بار وزیر اعظم بن چکے ہیں- ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عورت ذات جس قدر بھی دلیری اور ذہانت وغیرہ کے دعوے کرے‘ یہ بہرحال اس کی فطرت میں ہے کہ وہ مرد کے پیچھے پیچھے چلتی ہے -مثال کے طور پر جناب نواز شریف اپنے سیاسی مرشد جنرل ضیاءالحق کی طرح عمرے بہت کرتے ہیں- تو بےنظیر نے بھی عمرے شروع کر دئیے ہیں- محترم نواز شریف بوسنیا کے دورے پر گئے تو محترمہ بھی وہاں جا پہنچی- اسی طرح نواز شریف صاحب نے صوبہ سرحد میں ایک نانگے بابے کو اپنا
مرشد بنایا تو بےنظیر نے بھی اسی نانگے بابے کو اپنا مرشد بنالیا- اس بابے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے مریدوں کو ”سوٹے“ مارتا ہے- چنانچہ جناب نواز شریف وہاں سے ”سوٹا“یعنی لٹھ کھا کر آئے تو ان کے پیچھے بےنظیر بھی وہاں جا پہنچی اور ”سوٹی‘ یعنی لاٹھی کھا آئی-پاکستان کی دو بڑی سیاسی شخصیات اب جب بابا دھنکا سے لاٹھیاں کھا کر آئیں تو اخبارات میں چرچا ہوا اور یہ بتلایا گیا کہ جناب نواز شریف جو وزیر اعظم بنے تھے‘ تو بابا سے لاٹھیاں کھا کر وزیراعظم بنے تھے  اور پھر بےنظیر بھی لاٹھیاں کھا کر وزیر اعظم بن گئی- ان خبروں کے بعد دلی خواہش تھی کہ اس بابا کو دیکھوں کہ جس کی لاٹھیاں ملک کے وزیر اعظموں پر برستی ہیں- اب ہم”مانسہرہ“ میں مولانا مسعودالرحمان جانباز کے ساتھ صبح کو” بابا دھنکا “ کی ملاقات کو چل دئیے- ہم نے چلتے ہوئے ایک لاٹھی بھی لے لی تھی- کیونکہ مجھے وزیر اعظم نہ بننا تھا لہٰذا میں کیوں لاٹھی کھاتا؟چنانچہ لاٹھی لے لی کیونکہ ہم لاٹھیوں والے بابا کے پاس جا رہے تھے - مولانامسعود الرحمان جانباز گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے ا ور میرے ذہن میں کچھ اس طرح کا منظر بن رہا تھا-بابا جس کو نانگا کہا جاتا ہے‘ سر تاپا ننگا نہ ہوگا تو نیم برہنہ ضرور ہوگا اور چونکہ ایسے ننگے پاگلوں کو ہمارے ہاں”مجذوب ولی“ کہا جاتا ہے- اور یہ جو مجذوب ولی ہیں ان میں کوئی بازاروں میں گھومتا ہے اور راہ چلتی عورتیں شرم سے ایک طرف ہو جاتی ہیں- کوئی اپنی گدی پہ بیٹھا اپنے مریدوں کو گالیاں دیتا ہے اور گالی سن کر مرید سمجھتے ہیں کہ ہماری مراد پوری ہو گئی- تو یوں یہ بابا لوگوں کو لاٹھیاں مارتا ہے - چنانچہ یہاں کے لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہوں گے اور یہ مجذوب بابا لاٹھی ہاتھ میں پکڑتا ہو گا اور لوگوں کو مارتا ہو گا- جس کو لاٹھی لگ گئی وہ با مراد ہو جاتا ہوگا-
 تین کروڑ کی گرانٹ اور ہیلی پیڈ : خیر! میں یہ سوچ رہا تھا کہ مانسہرہ سے در بند والی سڑک سے ہم دائیں طرف چلنے لگے-بڑی خوبصورت وادی ہے-حسین و جمیل مناظر تھے ا ور آخر کار45کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم ایک قصبے”لساں نواب“ جا پہنچے- یہاں سے سات کلومیٹر کی مسافت طے کرنا ابھی باقی تھا- سڑک کا یہی وہ حصہ ہے کہ جسے پختہ کرنے کی منظوری نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں دی تھی- اور اب اس پر عمل ان کی ”پیر بہن“بے نظیر کروا رہی ہے - معلوم ہوا کہ سڑک کا یہ دشوار گزار راستہ تین کروڑ روپے کی گرانٹ سے مکمل ہو گا‘ جسے اب بروئے کار لایا جا رہا ہے- تین چار کلومیٹر ہم چلے ہوں گے کہ راستہ بہت ہی دشوار آ گیا-اب مولانا جانباز صاحب کی سوزوکی کار میں ہمت نہ تھی کہ وہ آگے بڑھتی- چنانچہ اسے ہم نے یہیں چھوڑا اور پیدل چل دئیے- پہاڑ کاٹنے اور راستہ بنانے میں بلڈوزر لگے ہوئے تھے -خیر ! ہم نے یہ راستہ طے کیا اور پھر ایک پہاڑی پر چڑھے- اس کی چوٹی پر ہیلی کاپٹر اترنے کے لئے ”ہیلی پیڈ“ بنا ہوا تھا- یہی وہ ”ہیلی پیڈ“ ہے کہ جہاں پیر بھائی بہن اپنے مرشد سے لاٹھیاں کھانے کے لئے ہیلی کاپٹر پر سے اترتے ہیں- ہم بھی اس وقت اس” ہیلی پیڈ“ پر اترنے کی بجائے چڑھ آئے- ہیلی پیڈ کے سامنے مسجد تھی اور مسجد کے ساتھ دربار کا دروازہ تھا- درواز ے پر لکھا تھا:”رحمت اللہ دیوانہ بابا“اس دروازے سے جب ہم داخل ہوئے تو سامنے ایک چھوٹا سا میدان تھا‘ جس کے دائیں جانب دیوار پر لکھا ہوا تھا- ” نانگا بابا“ ....اور بائیں جانب یہی بابا اپنی گدی پہ نشین تھا-
جاری ہے.....
بشکریہ
فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...