Saturday 16 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,81&80


اسلام اور خانقاہی نظام

(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر81&80)
بچوں کی دینی تربیت اور والدین کی شرعی ذمہ داری کے عنوان پر بحیثت مسلمان ہمارے دین نے جو اُصول بیان کئے ہیں اس حوالے سے مختصرتحریر پیش خدمت ہے۔تا کہ  وہ لوگ بھی متنبہ  ہوجائیں  جو اپنی اولاد  کو شاہ دولہ یا دیگر مزاروں کے نام وقف کر دیتے ہیں،دوستو! ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کے اولاد اللہ رب العزت کا نہایت ہی قیمتی انعام ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں انہیں زینت اور دنیاوی زندگی میں رونق بیان کیا ہے لیکن یہ رونق وبہار اور زینت وکمال اسی وقت ہے جب اس نعمت کی قدر کی جائے دین واخلاق اور تعلیم کے زیور سے انہیں آراستہ کیا جائے بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما ہو دینی تربیت کا خاص خیال رکھا جائے نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھایا جائے والدین پر اولاد کے جو حقوق ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات وارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے  اور اس پر اخروی فلاح وکامیابی کا دارومدار ہے اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے!۔
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم ٦)۔۔۔
جب تک دین کی بنیادی تعلیم سے آگاہی اور اس پر عمل نہ ہو؟؟؟۔۔۔ توحید، رسالت، اور آخرت پر صحیح ایمان نہ ہو یا نماز روزہ سے اور روز مرہ زندگی میں احکام شریعت سے غفلت ہو؟؟؟۔۔۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے آج والدین دنیاوی زندگی کی حدتک بچوں کے بہتر مستقبل کی خوب فکر اور کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ معاشرہ میں سرخرو رہیں اور آرام وراحت کی زندگی گزار سکیں لیکن دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد آخرت کی جولامحدود زندگی ہے وہاں کی سرخروئی اور سرفرازی سے خود بھی غافل ہیں اور بچوں کی تربیت میں بھی اس پہلو کو اہمیت نہیں دیتے۔۔۔
بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ مضبوط وپائیدار ہوتی ہے ۔۔۔ اس  سےمراد یہ ہے کہ بچپن میں بچے کے لئے علم کا حصول پتھر پر نقش کی طرح ہوتا ہے یعنی جس طرح پتھر کی لکیر اور پتھر پر کیا ہوا نقش مضبوط وپائیدار ہوتا ہے اسی طرح بچپن میں جو چیز ذہن ودماغ میں بیٹھ جائے (یا بٹھادی جائے) وہ پائیدار ہوتی ہے جس طرح زمین سے اُگنے والے نرم ونازک پودوں کی طرح بچوں کے خیالات، فکر اور طرز زندگی کو جس رخ پر چاہے باآسانی موڑا جاسکتا ہے جب وہ بڑے ہوجائیں اور اُن کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے اسلئے ابتدائی عمر میں بچوں کی نگرانی اور ان کی صحیح تربیت والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔لیکن اگر یہی بچے مزاروں پربے کس چھوڑ دیئے جائیں تو ان کی تعلیم تربیت تو دور کی  بات  ہے صحیح طور پر نشو نما بھی نہیں ہو پاتی-
قرآن وحدیث میں یہ حقیقت بیان ہوئی ہے کے ہر بچہ توحید خالص کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت، پاکیزگی، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میں اسوہ نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔لیکن  اگر وہی بچہ بے دین  اور جاہلوں  کے ہتھے چڑھ جائیں توسیدھی سی بات ہے وہ بڑےہو کر بے دینی  اور گمراہی کے راستے پر ہی  گردش  کریں گے-
رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے ہر نومولود فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہےپھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ یعنی  وہ شاہ دولہ کا چوہا یا غوث کا کتابنے اس میں  اس کے والدین  کا ہاتھ ہوتا ہے۔کیونکہ  بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی وہ اسی رخ پر چل پڑے گا اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقینا معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرہ میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرے گا۔
امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے والدین کو یہ وصیت کی کہ بچوں کو قرآن پاک احادیث مبارکہ اور نیک لوگوں کے واقعات اور ضروری دینی احکام کی تعلیم دیں بچہ والدین کے پاس امانت ہوتا ہے اور اس کا پاکیزہ دل ایک نفیس جوہر اور موتی کی طرح ہے اگر اسے خیر کا عادی بنایا جائے اور بھلے کام سکھائے جائیں تو وہ انہیں سیکھتا ہوا بڑھتا اور پلتا ہے پھر دنیاوآخرت دونوں جگہ خوش نصیب رہتا ہے اگر اسے برے کاموں کا عادی بنایا جائے یا مہمل چھوڑ دیا جائے تو بدبختی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے اسکی حفاظت کا طریقہ یہی ہے کے اسے علم وادب سکھایا جائے اچھے اخلاق سکھائے جائیں اور مہذب بنایا جائے۔مزاروں پر مجاوروں کے حوالہ کرنے کی بجائے اسلامی مدارس میں داخل کروایا جائے،
رسولﷺ نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کیا رہنمائی فرمائی اور آپ ﷺ خود اس کا کس درجہ خیال رکھتے تھے؟؟؟۔۔۔
اس کی بیشمار مثالیں کتب حدیث وسیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔۔۔
ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر تھا آپ ﷺنے مجھ سے فرمایا اے بچے (بیٹے) میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں تم اللہ کے حقوق کا خیال رکھو تو اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے اور جب مانگو تو اللہ ہی سے مانگو اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو اور اس بات کو جان لوکہ اگر تمام مخلوق بھی تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو تمہیں صرف وہی فائدہ پہنچاسکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے (ترمذی)۔۔۔
غور کیجئے کے رسول اللہﷺ بچوں کے ذہن میں کس طرح دینی حقائق نقش فرمایا کرتے تھے۔۔۔ عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول اللہ صﷺکے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا اے لڑکے اللہ کا نام لو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ (رواہ مسلم)۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔۔۔
ایک روز اللہ رسول ﷺہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہﷺنے والدہ سے دریافت فرمایا کے تم نے اسے کیا دینا چاہا؟؟؟۔۔۔ والدہ نے عرض کیا کے کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ ﷺنے والدہ سے ارشاد فرمایا۔۔۔ سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں) یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا (رواہ ابوداؤد وبہیقی)۔۔۔
غور کیجئے کے اللہ نے نبیﷺ نے بچوں کو اُمید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق وکردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط ومستحکم اور پائیدار ہوتا ہے آج بعض سرپرست بچوں سے بلاتکلف جھوٹ کہلواتے ہیں ہیں مثلا کوئی ملاقات کیلئے گھر پر دستک دے اور اس سے ملنے کا ارادہ نہ ہو تو بچوں کے کہلوا دیا جاتا ہے کے کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں کیا اس طرح بچوں کے دل ودماغ میں جھوٹ سے نفرت پیدا ہوگی؟؟؟۔۔۔کیا وہ بڑے ہوکر جھوٹ جیسی بداخلاقی کو برا جانیں گے؟؟؟۔۔۔ جھوٹ کا گناہ وبال اور نقصان نیز بچوں کی غلط تربیت کے علاوہ کبھی باپ کو اس وقت نقدشرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے جب بچے بھولے پن میں اس حقیقت سے پردہ اُٹھادیتے ہیں کہ  ابو نے کہا وہ گھر پر نہیں ہیں۔۔۔
ڈاکٹر مصطفٰی سباعی نے اپنی ایک کتاب میں یہ واقعہ لکھا کے ایک شرعی عدالت نے چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی تو ہاتھ کاٹنے جانے سے قبل اس نے بلند آواز سے کہا کے میرا ہاتھ کاٹنے سے پہلے میری ماں کی زبان کاٹ دو اس لئے کے میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے پڑوس کے یہاں سے ایک انڈہ چوری کیا تھا تو میری ماں نے اس جرم پر مجھے تنبیہ نہ کی بلکہ خوشی کا اظہار کیا تھا اگر مجھے اس وقت روکا جاتا تو آج  میں معاشرہ میں چور نہ بنتا واقعہ یہ ہے کے اولاد کے اچھے یا برے بننے میں والدین کی تربیت اور اُن کی نگرانی کو بہت بڑا دخل ہے اور یہ والدین کی اہم ذمہ داری ہے کے اپنی اولاد کی دینی واسلامی تربیت کا خاص خیال رکھیں انہیں بچپن ہی سے اچھے اخلاق وکردار کا حامل بنائیں اور دین سے تعلق ان کے ذہنوں میں راسخ کردیں،یہاں پر ایک اور بات کی وضاحت کرنا ضرور سمجهتا ہوں کہ اگر کسی کے ہاں اولاد نہ ہو رہی ہو تو پهر اس کو کیا کرنا چاہیئے اور کیا آج کل اخباروں ،انٹرنیٹ یا عاملوں کے بتائے ہوئے مختلف وظیفوں پر حصول اولاد کیلئے عمل کر سکتے ہیں ہم اختصار کے ساتھ ایک واقعہ پیش کرتے ہیں اور اس واقعہ کا جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام سے طلب کرتے ہیں...
  ایک بھائی کی شادی کو پانچ سال کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن ابھی تک وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں، کیا وجہ یہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے، دونوں میاں بیوی نے اس سے متعلق تمام طبی معائنے کروا لیے ہیں، اور طبی ماہرین نے دونوں کی صحت کے بارے اطمینان کا اظہار کیا ہے، اور انہوں نے یہ بھی بتلایا ہے کہ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس اذن الہی تک صبر کریں۔لیکن ان کے والدین صبر کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، انہوں نے ان دونوں میاں بیوی کو کہا ہے کہ اس وظیفہ پر عمل کریں: " دونوں 21 دن روزے رکھیں، اور اللہ تعالی کا اسم مبارک "المصوّر"(یعنی چہرے کی تخلیق کرنے والا) سات بار پڑھ کے ایک کپ پانی پر پھونک ماریں، اور پھر اسی پانی سے روزہ افطار کریں، اللہ کے حکم سے 21 دن پورے ہونے کے بعد انہیں اللہ تعالی اولاد سے نوازے گا" کیا یہ عمل یا اس سے ملتے جلتے عمل قرآن و سنت کی روشنی میں درست ہیں۔۔۔؟
علماء کرام فرماتے ہیں:میاں بیوی کو  انکے والدین نے جس انداز سے دم کرنے کا مشورہ دیا ہے یہ ہمارے علم کے مطابق کتاب و سنت میں ثابت نہیں ہے، اس لئے میاں بیوی کو  یہ عمل ترک کر دینا چاہیے، اور کتاب و سنت میں ثابت شدہ  شرعی دعاؤں(مسنون اذکار)  اور دم پر عمل کرنا چاہیے۔جبکہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعے  بانجھ  پن سمیت بیماری سے شفا یابی کی دعا مانگنا  اللہ تعالی کے اس فرمان میں شامل ہے: {وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا }
 اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، اسے انہی کے واسطے سے پکارو[الأعراف : 180]
آپ ﷺنے بھی لوگوں کو دم کرتے ہوئے اسمائے حسنیٰ کا واسطہ دیا، جیسے کہ نبی ﷺ سے ثابت ہے: " أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اِشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ "[لوگوں کو پالنے والے! تکلیف دور کر دے،  تو شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے] بخاری: (5743)، مسلم: (46، 47، 48)
(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں:  تعویذ اور دم قرآن وحدیث  کی روشنی میں ،مصنف:خواجہ محمد قاسم )
تاہم اسم الہی "المصوّر" کو متعین کرنے  کیلئے دلیل چاہیے، جو کہ کتاب و سنت   میں نہیں ہے ، اس لئے کسی  اسم الہی کو کسی مخصوص کام کیلئے متعین کرنا غیر شرعی عمل ہوگا، جبکہ اس بارے میں شرعی عمل یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کی مناسبت سے کوئی مناسب اسم الہی اختیار کرے، مثلاً: دعائے مغفرت کیلئے اللہ تعالی کا نام: "الغفار"  کو اپنائے۔
یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ  بچوں کی پیدائش   کا تعلق  اللہ تعالی کی مشیئت سے ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرمایا ہے کہ:
 {لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ }
ترجمہ: آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ کیلئے ہی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جسے چاہتا ہے  بیٹیاں عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے [49] یا انہیں بیٹے بیٹیاں ملا کر عطا  کرتا ہے، اور جسے  چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، بیشک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔[الشورى : 49 - 50] اس لئے اولاد کا مکمل طور پر اختیار اللہ کے پاس ہے۔
لہذا میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ  اللہ عزوجل  کے سامنے گڑگڑا کر نیک اولاد کا سوال کریں، اور پوری گریہ زاری  کیساتھ  ذکر و دعا میں مشغول رہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: {وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا} اور وہ لوگ کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں  ہماری بیویوں اور اولاد  سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔ [الفرقان : 74]
اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک میں کوئی بیماری ہے، جس کی وجہ سے  اس محرومی کا سامنا ہے تو  جائز طریقہ کار کے مطابق ادویات کا سہارا لیا جاسکتا ہے، اور یہ نبی ﷺکے اس عمومی فرمان میں شامل ہوگا: (علاج کرو، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے، صرف بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس  کا علاج نہیں ہے) اس حدیث کو ابو داود نے اسامہ بن شریک  سے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح نبیﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی  جس کیلئے شفا نازل نہ کی ہو) ابن ماجہ: (3482) البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اولاد کی نعمت سے محرومی کا کچھ بھی سبب ہو ، ہر حالت میں اللہ تعالی پر کامل بھروسہ ہونا چاہیے، اللہ تعالی پر توکل ہو، اور اللہ کے فیصلوں پر مکمل صبر  کرنا چاہئے، اور یہ یقین رکھے کہ اللہ تعالی نے اس کیلئے اس نعمت سے محرومی پر صبر کرنے کی وجہ سے خوب  اجر عظیم  رکھا ہوا ہے،  اورلوگوں کے حالات زندگی اور مسائل میں  غور و فکر کرنا چاہیے، کہ  کچھ لوگوں کو بد اولاد  کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، جن کی وجہ سے انکی زندگی اجیرن ہوگئی، اور کچھ لوگوں کو معذور اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، اور اب وہ  انتہائی تنگی کی زندگی  میں ہے، بالکل اسی طرح ایسے والدین کو بھی دیکھیں جو  اپنی نافرمان اولاد کی وجہ سے پریشان ہیں، اس لئے اللہ تعالی اپنے بندے مؤمن کیلئے وہی  پسند کرتا ہے جو اس کیلئے بہتر ہو، جیسے کہ نبیﷺ کا فرمان ہے: (مؤمن کا معاملہ تعجب خیز ہے! کہ صرف مؤمن کا ہر معاملہ خیر سے بھر پور ہوتا ہے،  اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، جو اس کیلئے بہتری کا باعث ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو  صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کیلئے خیر کا باعث  ہے)( مسلم:2999)
البتہ ایسے دم 'جهاڑپهونک'منتر'تعویز'گنڈوں پر عمل کرنا جس میں شرک شامل ہو تو اس کی قطعی اجازت نہیں ہے.ذیل میں ہم چند احادیث پیش کرتے ہیں:آج ہمارے معاشرے میں تعویذ سازی کا کام باقائدہ ایک پرفیشنل کام بن چکا ہے اور بعض لوگ اس کے ذریعے دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور عام لوگ اس کو دین سمجھ کر بجالا رہے ہیں اور بڑے پیر لوگ اس سے خوب پیسہ کما رہے ہیں، دنیا کا کوئی بھی کام ہو اس کا تعویذ آپ کو مل جائے گا اور دنیا میں کوئی بھی بیماری ہو اس کا تعویذ بنالیا گیا ہوا ہے بیماری جتنی بڑی ہوگی اس کے تعویذ کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
اولاد کو فرمابردار بنانے والا تعویذ۔
اور پھر اولاد کے لیے بھی تعویذ بنایا گیا ہے کہ جس سے والدین اولاد کی بات مانیں گے۔
شوہر کے لیے تعویذ کہ اس کی بیوی اس کی تابیدار رہے۔
اور بیوی کے لیے تعویذ کہ اس کا شوہر اس کا تابیدار بن کر رہے۔
اور شریکوں کے لیے بھی تعویذ موجود ہے جس سے شوہر اور بیوی میں ناراضگی پیدا کی جائے۔
آپ کو کالا یرکان ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں اس کا بھی تعویذ آپ کو مل جائے گا۔:::یہ علیحدہ بات ہے جب یرکان بگڑ جاتا ہےتو پھر ڈاکٹر کے پاس بھاگے بھاگے جاتے ہیں مگر پھر دیر ہوچکی ہوتی ہے:::
اگر کسی کو کینسر ہے تو بھی تعویذ حاضر ہے۔
یعنی دنیا کی کوئی بھی بیماری ہو آپ کو یہ تعویذ ساز اس کا تعویذ ضرور بناکر دیں گیں۔
ایک اور حیران کن بات یہ کہ جب ان لوگوں سے اس کی دلیل مانگی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ یہ قرآن اور صحیح حدیث سے دلیل دیں کہتے ہیں کہ یہ تعویذ فلاں نے استعمال کیا تو اس کا کام بن گیا،فلاں نے فلاں بیماری کے لیے باندھا تو اس کو شفاء مل گئی اگر یہ جھوٹے تعویذ ہیں اور یہ غلط کام ہے تو اس سے شفاء کیوں ملتی ہے؟؟؟
تو یہ ہے ان کی سب سے بڑی دلیل، اب اگر ان کی یہ دلیل مان لی جائے تو اس طرح اور بھی بہت کچھ جائز ہوجائے گا مثلاً یہ کہ ہندو لوگ بھی یہ تعویذ سازی کا کام کرتے ہیں اور ہندو کو بھی ان تعویذوں سے بہت سے فوائد ملتے ہیں بیماروں سے  شفاء ملتی ہے بےروزگاروں کو کام ملتا ہےاسی طرح ان کے ہاں بھی ہر بیماری کے لیے تعویذ بنایا جاتا ہے اور ہر مشکل کام کا تعویذ بنایا جاتا ہے تو اس انوکھی دلیل سے ہندوں کے تعویذ بھی صحیح ثابت ہوتے ہیں تو کیا پھر ایک ہندو کے بنائے تعویذ کو بھی پہنا جاسکتا ہے؟؟؟
اگر نہیں تو کیوں نہیں پہنا جاسکتا؟؟؟
اگر ہاں کہتے ہیں تو ہندوں کے مذہب کو کیوں غلط کہتے ہو؟؟؟
اصل میں جب بھی دین میں کوئی نئی بات داخل کی جائے گی تو بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے پھر چاہیے تو یہ ہوتا ہے کہ اس نئی بات کو چھوڑ دیا جائے کہ جس کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا ہے مگر کیا اُلٹ جاتا ہے کہ اس بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے غلط تاویلات اور جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ مذید بگاڑ پیدا کرتی ہیں، اس لیے اگر بگاڑ ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس بگاڑ کی جڑ کاٹنی چاہیے کہ جس کی وجہ سے ایسا بگاڑ پیدا ہوا تھایعنی اس نئی بات کو جو دین میں داخل کی گئی ہے اس کو ختم کیا جائے تو پھر اصل دین باقی رہے گا اور بگاڑ اور گمراہیاں سب اپنی موت آپ مر جائیں گی ان شاءاللہ۔
اب آتا ہوں موضوع کی طرف اس موضوع پر کافی احادیث مل جاتی ہیں مگر میں نے کوشش کی ہے کہ صحیح احادیث سے ہی دلیل دی جائے اگر کوئی حدیث ضعیف ہو تو آگاہی فرمادیجیے گا، میں نے اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث کا مطالعہ کیا ہے ان میں کہیں بھی تعویذ کو بازو اور ٹانگوں میں یاگلے میں باندھنے کی کوئی دلیل نہیں ملی بےشک تعویذ میں قرآن کی آیات ہی کیوں نہ لکھی گئی ہوں، صرف اس میں ایک چیز کی اجازت دی گئی ہے اور وہ ہے دم،جھاڑپھونک،منتر اور وہ بھی وہی جائز ہیں جن میں کوئی کفر ، شرک اور خلاف شریعت کوئی الفاظ نہ ہوں،
نبی کریم ﷺکے ارشادات ہیں کہ
حضرت عوف ابن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ دم کیا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپ (ﷺ) ان منتر وں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپﷺنے فرمایا تم ان منتروں کوپڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو ان میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔" (مسلم )حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ منتر پڑھنے اور پھونکنے سے منع فرما دیا توعمر و ابن حزم کے خاندان کے لوگ (جو منتروں کے ذریعہ جھاڑپھونک کرتے تھے ) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ ! ہمارے پاس ایک منتر ہے جس کو ہم بچھو کے کاٹے پر پڑھا کرتے تھے اب آپ نے منتروں سے منع فرمادیا ہے اس کے بعد انہوں نے منتر کو پڑھ کر آنحضرتﷺ کو سنایا (تاکہ آپ ﷺ اس منتر کو درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فرمائیں ) آنحضرت ﷺنے (منتر کوسن کر) فرمایا کہ میں اس منتر میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کونفع پہنچا سکے تو وہ ضرور نفع پہنچائے خواہ جھاڑپھونک کے ذریعہ اورخواہ کسی اور طرح سے بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو ۔" (بخاری ومسلم )
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایسا کوئی بھی دم جائز ہے جس میں کوئی شرکیہ الفاظ نہ ہوں، اور میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض احادیث میں دم کی بھی ممانعت آئی ہے اور پھر اس کی اجازت کی بھی احادیث موجود ہیں ممکن ہے پہلے اس کی ممانعت تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جہاں دم کی ممانعت ہے وہ بھی صرف اس لیے ہو کہ اس طرح اللہ پر توکل کم ہوتا ہو بہرحال جو بھی وجہ ہو اب دم کی اجازت ہے اس پر جو احادیث ہیں وہ پیش کردیتا ہوں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے جو منتر نہیں کراتے، شگون بد نہیں لیتے ہیں اور (اپنے تمام امور میں جن کا تعلق خواہ کسی چیز کو اختیار کرنے سے ہو یا اس کو چھوڑنے سے) صرف اپنے پرودگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
حضرت مغیرہ ابن شعبہ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا جس شخص نے داغ دلوایا یا منتر پڑھوایا تو وہ تو کل سے بری ہوا ( احمد ترمذی ابن ماجہ )
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے جھاڑپھونک کے ذریعہ نظر بد ،ڈنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے ۔" (مسلم )
اسی طرح اور بھی دم کے متعلق احادیث موجود ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بہتر عمل یہی ہے کہ انسان اللہ پر ہی بھروسہ رکھے مگر اگر کسی کا توکل اللہ پر کم ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ وہ  دم کرواسکتا ہے جو شرک سے پاک ہو مگر گلے میں تعویذ لٹکانے اور ہاتھ یا پاوں میں دم کیا گیا دھاگہ باندھنے یا کڑا اور چھلہ پہننے کی کہیں بھی اجازت نظر نہیں آتی بلکہ اس کی ممانعت ہی ملتی ہے اب وہ احادیث پیش کرتا ہوں جن میں ان عملیات کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا چھلہ دیکھا آپ ﷺنے اس سے دریافت کیا یہ کیا ہے اس نے عرض کی کمزوری سے نجات کے لیے پہنا ہے آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ اسے اتار دو اس لیے کہ یہ تمہیں کمزوری کے علاوہ کچھ نہ دےگا اور اگر اسے پہنے ہوئے مرگیا تو تم کبھی نجات نہ پاؤ گے۔(مسند احمد)
اس حدیث میں نبی علیہ السلام نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ اگر اس کو پہنے ہوئے مرگیا تو کبھی نجات نہ پاو گے، اور آپ نے اوپر ایک حدیث پڑھی ہے کہ جس میں دم کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ دورِ جاہلیت کا تھا اس کے خلافِ شرع الفاظ کو ختم کرکے باقی کو قائم رکھا مگر یہاں آپ دیکھیں کہ اس کی بالکل ہی اجازت نہیں دی گئی ہے اور جس شخص نے وہ چھلہ پہنا تھا وہ مسلم تھا مگر ابھی اس معاملے کو جائز سمجھ کر چھلہ پہنے ہوئے تھا مگر آپ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمادی اب تاقیامت اس کی ممانعت ہی ہے،چھلہ بھی تعویذ کی طرح ہوتا ہے جو پہناجاتا ہےتعویذ وہ ہوتا ہے کہ جس پر قرآن کی آیات یا کچھ اور لکھ کر گلے میں لٹکایا جاتا ہے اور چھلہ یا کڑا وہ ہوتا ہے جس پر دم کیا جاتا ہے اور پھر اس کو پہنا جاتا ہے یا پھر اس  کی نسبت کسی دربار کی طرف کی جاتی ہے اور اس چھلے یا دھاگے  پر توکل کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ ہم کو شفاء دے گا جبکہ ایسا قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے۔
مسند احمد میں ہی ایک اور روایت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کی ہے کہ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے تعویز باندھا اللہ اس کا مقصد پورا نہ کرے اور جس نے کوڑی گلے میں لٹکائی اللہ اس کو آرام نہ دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے تعویذ باندھا اس نے شرک کیا۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری گردن میں دھاگہ پڑا ہوا دیکھا توپوچھا یہ کیاہے ؟ میں نے کہا یہ دھاگہ ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے ) زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ سن کر ) اس دھاگے کو (میری گردن سے ) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبد اللہ کے گھر والو ، تم شرک سے بے پرواہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے ، اورٹوٹکے شر ک ہیں ۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہواہے ) چنانچہ میری آنکھ (درد کے سبب ) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑ ھ کر آنکھ کو دم کیا توآنکھ کو آرام مل گیا ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی وغفلت ہے ) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں ) وہ شیطان کا کام تھا ،شیطان تمہاری آنکھ کو کونچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جب منتر پڑھاگیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے ) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا ، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے کہ ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفا ء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار توہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ ) توہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے ، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے ! ۔" (ابو داؤد )
ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈا::دم کیا ہوا دھاگہ:: بندھا ہوا دیکھا جو اس نے بخار دور کرنے کے لیے باندھا تھا آپ اس دھاگے کو کاٹ دیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ   ،
ترجمہ:ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔یوسف:۱۰۶
حضرت عیسی ابن حمزہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے ) تواسی چیز کے سپر د کردیا جاتا ہے۔ " (ابو داؤد )
ان سب احادیث کا مطالعہ کرنے سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ دم درود کیا جاسکتا ہے قرآن کی آیات سے بےشک قرآن میں لوگوں کے لیے شفاء ہے اور یہ شفاء دلوں کی بیماریوں اور جسم کی بیماریوں کے لیے بھی ہے، مگر اس کا طریقہ ہم نے وہی لینا ہے جو نبی ﷺنے ہم کو بتایا ہے اپنے پاس سے کوئی نیا طریقہ نہیں بنانا جو کہ بدعت ہوگی بلکہ تعویذ کا باندھنا انسان کو شرک کا مرتکب بنا دیتا ہے اور جب کہ سنت طریقہ یہی ہے کہ قرآن کی آیات کا دم کیا جائے نہ کہ قرآن کی آیات کو لکھ کر یا ان آیات کو ہندسوں میں لکھ کر گلے میں باندھا جائے، بلکہ ان آیات کو ہندسوں::علم الاعداد:: میں لکھ کر گلے میں ڈالنے کو دوگنی گمراہی سمجھتا ہوں کیونکہ اس شخص نے قرآن کے الفاظ کو بدلا ہے اور ان آیات کو ایسے طریقے سے لکھا ہے جو کہ جہالت سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کو بدلنے کے برابر ہے کہ ہندسوں میں سورت فاتحہ لکھ کر کہا جائے کہ یہ قرآن کی سورت فاتحہ لکھی ہوئی ہے یہ طریقہ جاہل عجمیوں کا ہےجو قرآن و حدیث کے علم سے بےبہرا تھے یا وہ دین اسلام میں اپنی اپنی مرضی کرکے دین کو بدلنا چاہتے تھے جیسا کہ ایسا ہوچکا ہے کہ لوگ ہر ایسی بات کو جو قرآن اور صحیح حدیث کے خلاف بھی کیوں نہ جاتی ہو اسلام سمجھتے ہیں اور اس پر ایسے ہی عمل کیا جاتا ہے جیسے اس کام کا حکم نبیﷺنے دیا ہو۔
اللہ ہم سب کو جدید اور قدیم ہر طرح کی جہالتوں اور گمراہیوں سے بچائے اور قرآن و سنت کا پابند بنائے آمین۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دُعا ہے کے وہ ہم کو سچا اور پکا مسلمان بننے کی توفیق عطاء فرمائے آمیں ثم آمین۔۔۔
جاری ہے.....
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...