Monday 4 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،59

اسلام اور خانقاہی نظام

اسلام آباد کا ”مشکل کشا“
بری بری-امام بری -
اسلام آباد کے شمالی کنارے پر نورپور شاہاں میں بری امام کا عرس ہو رہا تھا- کشمیر جاتے ہوئے سوچا کہ اس بار دارالحکومت اسلام آباد کے کنارے پر اسلام کے نام پر ہونے والے اس عرس کو دیکھا جائے-عربی زبان میں عرس کامعنی شادی ہے اور جس کی شادی ہو رہی ہو‘ اس کے دولہا کو ”عریس“ کہا جاتا ہے جبکہ دلہن کو ”عروس“ بولا جاتا ہے.... اور پھر اسی شادی کے متعلق لباس کو’لباس’عروسی“ اور پہلی رات کو”شب عروسی“ کہا جاتا ہے-ہم جب پہنچے تو بری امام کا عرس یعنی شادی ہو چکی تھی اور اب شب عروسی کا ہنگامہ بپا تھا-آئیے! پہلے تو آپ کو امام بری کی شادی دکھلایئں اور پھر شب عروسی کا تذکرہ کروں-ایک شادی تو وہ ہے جو ہمارے معاشرے میں ہر جوان کی ہوتی ہے اور ایک شادی وہ ہوتی ہے جس کی سرپرستی چھوٹی چھوٹی بچیاں کرتی ہیں-ایک محلے کی دو سہیلیاں عرس کا پروگرام بناتی ہیں- ایک سہیلی کپڑے کی گڑیا بناتی ہے اور دوسری کپڑے کا دولہا بناتی ہے- پھر ان دونوں کا عرس ہوتا ہے- ان کے لئے ایک مکان بھی بنایا جاتا ہے-یہ مکان شہر کی بچیاں بازار سے خرید لیتی ہیں جو لکڑی کا ایک چھوٹا سا ماڈل ہوتا ہے- اور گاوں کی غریب بچیاں اور بچے ریت یا مٹی کی ڈھیری پر آ جاتے ہیں اور وہاں مکان بناتے ہیں‘ عرس کرتے ہیں اور جب دل بھر جاتا ہے تو سب مل کر اس مکان کو یہ کہہ کر ڈھاتے ہیں:”ہتھاں نال بنایا سی....پیراں نال ڈھایا سی“یہ ہوتا ہے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کا کھیل-دوسری طرف ہمارے ملک میں ساٹھ ساٹھ ستر ستر سال کے معصوم ہیں جو مٹی کی ڈھیریوں پر بابوں اور بزرگوں کی شادیاں (عرس)مناتے ہیں-اور اپنی اپنی پسند کے کهیل تماشوں کو ان عرسوں کا حصہ بناتے ہیں.بچوں کے کهلونوں کی طرح یہ منوں مٹی کے نیچے دبے ہوئے بابے( پیر) بهی بے بس اور محتاج ہوتے ہیں جو نہ ہی تو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان...بہرحال-!
مریدوں کے تحائف کی قدر دانی: ان بے شمار عرسوں میں اب بری امام کا عرس ہو رہا تھا-لوگ دربار کے چھوٹے چھوٹے تعزیہ نما ماڈل اور گھر بنا کر لائے تھے-بابے کے عرس پر انہوں نے یہ تحائف دئیے تھے-مگر ہم نے دیکھا کہ یہ تحائف دربار کے ایک کونے میں اوپر نیچے پھینک دئیے گئے ہیں-ہم نے دربا کے ایک مجاور سے کہا کہ ” یہ اس طرح سے کیوں پھینکے گئے ہیں-؟کیا یہ گستاخی نہیں؟“مجاور اس کا کوئی جواب نہ دے سکا مگر تھوڑی دیر بعد ہی ہم سمجھ گئے کہ”ہاتھوں سے بنا کر پیروں سے ڈھانے والا“معاملہ کیوں کیا جا رہا ہے-بالکل اسی طرح جیسے ہندو خود ہی اپنے ہاتھوں سے مٹی کے بت بناتے ہیں‘ پھر خود ہی ان کی پوجا شروع کر دیتے ہیں اور جب یہ بت خستہ ہو کر ٹوٹ پھوٹ جائے تو اسے گرا کر اپنے ہاتھوں سے دوسرا معبود بنا لیتے ہیں-
 بری امام کی شب زفاف: بات دراصل یہ تھی کہ بری امام کی شادی ختم ہو چکی تھی اور اب دربار کے اندر کسی کو جانے نہیں دیا جا رہا تھا-زائرین ہزاروں کی تعداد میں منتظر تھے-مگر سب باہر کھڑے تھے-پھر اچانک ایک بزرگ باہر نکلے -لوگ اسے تبرکاً ہاتھ لگا رہے تھے اور پھر ان ہاتھوں کو اپنے جسموں پر پھیر رہے تھے-کئی ان کے پاوں پڑ رہے تھے اور کئی یہیں سجدہ ریز ہو رہے تھے-بہر حال اب اندر جانے کی اجازت ملی تو قبر کے گنبد والے دروازے بند ہو چکے تھے-قبر کے احاطے کے اندر لائٹیں بھی بجھا دی گئی تھیں -ایک مجاور سے پوچھا کہ” بھئی یہ سب کیوں ہے -؟“تو وہ کہنے لگا-”بری امام کی براتوں والا مرحلہ تو مکمل ہوگیا‘ اب تو اندر بری سرکار کی بری رکھ دی گئی ہے اور آج کی رات سرکار کی شب زفاف ( سہاگ رات )ہے -ہر سال عرس کے موقع پر یہ ایک رات بری سرکار کی ”شب زفاف“ ہوتی ہے -ابھی ہم نے اندر حلوہ رکھا ہے‘ دودھ اور پانی رکھا ہے -مہندی رکھی ہے-اندر کی لائٹیں بھی بند کردی گئی ہیں- اب تو پچھلی رات کو ہی دروازہ کھلے گا اور پھر ساراسال کھلا رہے گا-صبح کے وقت ہر چیز آدھی آدھی ہوگی جبکہ مہندی پہ”سرکار کا پنچہ“لگا ہوگا-مطلب یہ ہے کہ شب زفاف میں مہندی کو سرکار نے استعمال کیا ہے -صبح کے وقت باقی ماندہ دودھ‘ حلوہ اور پانی باہر نکالا جائے گا اور پھر وہ دوسری چیزوں میں ملا کر بطور تبرک استعمال میں لایا جائے گا-“ تو یہ تھی بری امام کی بری‘مہندی‘ برات اور شب زفاف جو اسلام آباد کے ایک کونے میں اسلام کے نام پر منائی جا رہی تھی- جاری ہے...
بشکریہ
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...