Tuesday 12 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,77


اسلام اور خانقاہی نظام

شاہ دولہ کے چوہے اور انسانوں کی بھینٹ
سلیمہ کی جب شادی ہوئی تو وہ اکیس برس کی تھی۔ پانچ برس ہو گئے مگر اُسے اولاد نہ ہوئی۔ اُس کی ماں اور ساس کو بہت فکر تھی۔ ماں کو زیادہ تھی کہ کہیں اس کا نجیب دوسری شادی نہ کرلے۔ چنانچہ کئی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا گیا مگر کوئی بات نہ بنی ۔ سلیمہ بہت متفکر تھی۔ شادی کے بعد بہت کم لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو اولاد کی خواہش مند نہ ہوں۔ اُس نے اپنی ماں سے کئی بار مشورہ کیا۔ ماں کی ہدایتوں پر بھی عمل کیا۔ مگر نتیجہ صفر تھا۔ ایک دن اُس کی ایک سہیلی جو بانجھ قرار دے دی گئی تھی۔ اس کے پاس آئی۔ سلیمہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اُس کی گود میں ایک پهول سا لڑکا تھا۔ سلیمہ نے اُس سے بڑے  حسرت انداز میں پوچھا’’فاطمہ تمہارے ہاں یہ لڑکا کیسے پیدا ہو گیا۔ ‘‘فاطمہ اُس سے پانچ سال بڑی تھی۔ اُس نے مسکرا کر کہا۔’’یہ شاہ دولے صاحب کی برکت ہے۔ مجھ سے ایک عورت نے کہا کہ اگر تم اولاد چاہتی ہو تو گجرات جا کر شاہ دولے صاحب کے مزار پر منت مانو۔ کہو کہ حضور میرے ہاں جو پہلے بچہ ہو گا وہ آپ کی خانقاہ پر چڑھا دوں گی۔ اس نے یہ بھی سلیمہ کو بتایا کہ جب شاہ دولے صاحب کے مزار پر ایسی منت مانی جائے تو پہلا بچہ ایسا ہوتا ہے جس کا سر بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ فاطمہ کی یہ بات سلیمہ کو پسند نہ آئی اور جب اس نے مزید کہا کہ پہلا بچہ اس خانقاہ میں چھوڑ کر آنا پڑتا ہے تو اس کو اور بھی دُکھ  ہوا۔ اس نے سوچا کون ایسی ماں ہے جو اپنے بچے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے۔ اُس کا سر چھوٹا ہو۔ ناک چپٹی ہو۔ آنکھیں بھینگی ہوں۔اور لوگ اس کا مذاق اڑایئں ، لیکن ماں اُس کو کسی غیر کے حوالے نہیں کر سکتی جو اپنے لخت جگر کو بھینٹ چڑھائے وہ کوئی ڈائن ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن اُسے اولاد چاہیے تھی اس لیے وہ اپنی عمر سے زیادہ سہیلی کی بات مان گئی۔ وہ گجرات کی رہنے والی تو تھی ہی جہاں شاہ دولے کا مزار تھا۔ اُس نے اپنے خاوند سے کہا۔’’فاطمہ مجبور کر رہی ہے کہ میرے ساتھ چلو۔ اس لیے آپ مجھے اجازت دے دیجیے۔ ‘‘اس کے خاوند کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ اس نے کہا۔’’جاؤ مگر جلدی لوٹ آنا۔ ‘‘وہ فاطمہ کے ساتھ گجرات چلی گئی۔ شاہ دولہ کا مزار جیسا کہ اُس نے سمجھا تھا کوئی عہد عتیق کی عمارت نہیں تھی۔ اچھی خاصی جگہ تھی۔اور لوگوں کا ہجوم تها جو اپنی منتوں کیلئے دور دراز سے آئے ہوئے تهے،سلیمہ ان عورتوں کو دیکھ کر کچھ مطمئن ہوئی۔ مگر جب اُس نے ایک حجرے میں شاہ دولے کے چوہے دیکھے، جن کی ناک  بہہ رہی.اور ان کا دماغ بالکل ماؤف تھا'اور وہ اپنی بے بسی کی مثال آپ تهے'سلیمہ یہ منظر دیکھ کر گهبرا گئی۔ ایک جوان لڑکی پورے شباب پر مگر وہ ایسی حرکتیں کر رہی تھی کہ سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی کو بھی ہنسی آسکتی تھی۔ سلیمہ اُس کو دیکھ کرایک لمحے کے لیے ہنسی مگر فوراً ہی اُس کی آنکھوں میں آنسو بهر آئے۔ سوچنے لگی اس لڑکی کی اس حالت کے ذمہ دار کون ہیں یہ مجاور یا اسکے والدین...؟کتنے پتهر دل اور بے غیرت ہیں وہ والدین جو  اپنی پهول سے پیاری لخت جگر اپنی عزت و آبرو ان مجاوروں اور سانڈوں کے حوالے کر کے ہمیشہ کے لئے بهول جاتے ہیں ۔ یہاں کے مجاور اس کے
ساتھ کیا روا رکهتے ہوں گے یا بندر بنا کر اُسے شہر بہ شہر گھماتے ہوں گے۔بہر حال! اس کا سر بہت چھوٹا تھا۔لیکن اس شاہ دولے کی چوہیا کا جسم بہت خوبصورت تھا۔ اُس کی ہر قوس اپنی جگہ پر مناسب و موزوں تھی۔ مگر اُس کی حرکات ایسی تھیں جیسے کسی خاص غرض کے ماتحت اس کے حواس مختل کردیے گئے ہوں۔ وہ اس طریقے سے کھیلتی پھرتی اور ہنستی تھی جیسے کوئی کوک بھرا کھلونا ہو۔ سلیمہ نے محسوس کیا کہ وہ اسی غرض کے لیے بنائی گئی ہے۔ لیکن ان تمام احساسات کے باوجود اُس نے اپنی سہیلی فاطمہ کے کہنے پر شاہ دولا صاحب کے مزار پر منت مانی کہ اگر میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو وہ میں شاہ دولا  کی نذر کروں گی۔ ڈاکٹری علاج سلیمہ نے جاری رکھا۔ دو ماہ بعد بچے کی پیدائش کے آثار پیدا ہو گئے۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ مقررہ وقت پر اُس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا،جو بڑا ہی خوبصورت اور تندرست تها۔ لیکن اس کے داہنے گال پر ایک چھوٹا سا دھبا تھا جو بُرا نہیں لگتا تھا۔ فاطمہ آئی تو اُس نے کہا کہ اس بچے کو فوراً شاہ دولے صاحب کے حوالے کر دینا چاہیے۔ سلیمہ خود یہی مان چکی تھی۔ کئی دنوں تک وہ ٹال مٹول کرتی رہی۔ اس کی ممتا نہیں مانتی تھی کہ وہ اپنا لختِ جگر وہاں کیسے پھینک آئے۔ سلیمہ  سے کہا گیا تھا کہ شاہ دولے سے جو اولاد مانگتا ہے اُس کے پہلے بچے کا سر چھوٹا ہوتا ہے۔ لیکن سلیمہ کے بچے کا سر بڑا اور عام لوگوں کی طرح تھا۔ اور فاطمہ نے اس سے کہا۔’’یہ کوئی ایسی بات نہیں جو تم بہانے کے طور پر اس بچے کو شاہ دولہ کے حوالے نہ کرو۔ تمہارا یہ بچہ شاہ دولے صاحب کی ملکیت ہے تمہارا اس پر کوئی حق نہیں۔ اگر تم اپنے وعدہ سے پھر گئ تو یاد رکھو تم پر ایسا عذاب نازل ہو گا کہ ساری عمر یاد رکھو گی۔ ‘‘ ضعیف الاعتقاد سلیمہ اپنی سہیلی کی باتیں سن کر ڈر گئی اور جگر کے ٹکڑے اور پهول سے زیادہ خوبصورت اپنی آنکھوں کی ٹهنڈک ہنستے کهیلتے اپنے بیٹے جس کے داہنے گال پر کالا دھبا تھا۔ گجرات جا کر شاہ دولے کے مزار کے مجاوروں کے حوالے کرنا پڑا۔ بچے کی جدائی میں سلیمہ اس قدر روئی کہ اس کے آنسو خشک ہو گئے-اس کو اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار ہو گئی۔ ایک برس تک زندگی اورموت کے درمیان معلق رہی۔ اُس کو اپنا بچہ بھولتا ہی نہیں تھا۔ خاص طور پر اُس کے داہنے گال پر کالا دھبا۔ جس کو اکثر چوما کرتی تھی۔ چونکہ وہ جہاں بھی تھا بہت اچھا لگتا تھا۔ اس دوران میں اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بچے کو فراموش نہ کیا۔ عجیب عجیب خواب دیکھتی اور سوچتی کہ نہ جانے میرے لخت جگر کو کسی نے دودھ پلایا ہو گا کہ نہیں... یہاں پر میرے پاس الفاظ  نہیں کہ میں ایک ماں کا بیٹے کی جدائی کا دکھ بیان کروں ........ 
۔ شاہ دولہ اُس کے پریشان تصور میں ایک بڑا چوہا بن کر نمودار ہوتا جو اُس کے گوشت کو اپنے تیز دانتوں سے کترتا۔ وہ چیختی اور اپنے خاوند سے’’مجھے بچائیے ! دیکھئے چوہا میرا گوشت کھا رہا ہے۔ ‘‘کبھی اس کا مضطرب دماغ یہ سوچتا کہ اس کا بچہ چوہوں کے بل کے اندر داخل ہو رہا ہے۔ وہ اُس کی دُم کھینچ رہی ہے۔ مگر بِل کے اندر جو بڑ ے بڑے چوہے ہیں وہ  اُس کو  پکڑے ہوئے ہیں ۔ اس لیے وہ اُسے باہر نکال نہیں سکتی۔ کبھی اُس کی نظروں کے سامنے وہ لڑکی آتی جو پورے شباب پر تھی اور جس کو اُس نے شاہ دولے صاحب کے مزار کے ایک حجرے میں بے بسی کے عالم میں دیکھا تھا۔ سلیمہ کبهی  ہنسنا شروع کردیتی۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد رونے لگتی۔ اتنا روتی کے اس کے خاوند نجیب کو سمجھ میں نہ آتا کہ اُس کے آنسو کیسے خشک کرے۔ سلیمہ کو ہر جگہ چوہے نظر آتے تھے۔بعض اوقات تو وہ یہ محسوس کرتی کہ وہ خود چوہیا ہے۔ اُس کی یہ  حالت قابل رحم تھی۔ بخار ہلکا ہوا تو سلیمہ کی طبیعت کسی قدر سنبھل گئی نجیب بھی قدرے مطمئن ہوا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کی بیوی کی علالت کا باعث کیا ہے۔ لیکن وہ بهی ضعیف الاعتقاد یعنی توحید کی مٹهاس سے کوسوں دور تھا۔ اُس کو اپنی پہلی اولاد کو بھینٹ چڑھائے جانے کا کوئی احساس نہ تھا۔ جو کچھ کیا گیا تھا وہ اسے مناسب سمجھتا تھا۔ بلکہ وہ تو یہ سوچتا تھا کہ اس کے جو بیٹا ہوا تھا وہ اس کا نہیں شاہ دولے صاحب کا تھا۔ جب سلیمہ کی طبیعت کچھ سنبھلی  اور اس کے دل و دماغ کا طوفان ٹھنڈا ہوا تو نجیب نے اُس سے کہا’’میری جان۔ اپنے بچے کو بھول جاؤ۔ وہ صدقے کا تھا۔ ‘‘سلیمہ نے بڑے زخم خوردہ لہجے میں کہا۔’’میں نہیں مانتی۔ ساری عمر اپنی ممتا پر لعنتیں بھیجتی رہوں گی کہ میں نے اتنا بڑا گناہ کیوں کیا کہ اپنا لختِ جگر شاہ دولہ کے مجاورں کے حوالے کردیا۔ یہ مجاور ماں تو نہیں ہوسکتے۔ ‘سلیمہ اچانک ایک دن گهر سے غائب ہو گئی۔ سیدھی گجرات شاہ دولہ کے مزار پر پہنچی۔ سات آٹھ روز وہاں رہی۔ اپنے بچے کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ مگر کوئی اتا پتہ نہ ملا مایوس ہو کر واپس آ گئی۔ اپنے خاوند سے کہا۔’’میں اب اسے یاد نہیں کروں گی۔ ‘‘یاد تو وہ کرتی رہی۔ لیکن دل ہی دل میں اس کے بچے کے داہنے گال کا دھبا اُس کے دل کا داغ بن کر رہ گیا تھا۔ ایک برس کے بعد اُس کے ہاں لڑکی ہوئی۔ اس کی شکل اُس بچے سے بہت ملتی جلتی تھی جسے وہ شاہ دولہ کے مزار پر چهوڑ کر آئی تهی۔البتہ اس کے داہنے گال پر داغ نہیں تھا اس کا نام اس نے مجیب رکھا کیونکہ اپنے بیٹے کا نام اُس نے مجیب سوچا تھا۔ جب وہ دو مہینے کی ہوئی تو اُس نے اس کو گود میں اٹھایا اور سرمہ دانی سے تھوڑا سا سرمہ نکال کر اس کے داہنے گال پرایک بڑا سا تل بنا دیا اور مجیب کو یاد کر کے رونے لگی۔ اُس کے آنسو بچی کی گالوں پر گرے تو اُس نے اپنے دوپٹے سے پونچھے اور ہنسنے لگی۔ وہ کوشش کرنا چاہتی تھی کہ اپنا صدمہ بھول جائے۔ اس کے بعد سلیمہ کے ہاں دو لڑکے پیدا ہوئے۔ اُس کا خاوند اب بہت خوش تھا۔ ایک بار سلیمہ کو کسی سہیلی کی شادی کے موقع پر گجرات جانا پڑا تو اُس نے ایک بار پھر مجیب کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ مگر اُسے ناکامی ہوئی۔ اس نے سوچا شاید مر گیا ہے۔ چنانچہ اُس نے گهر آ کر جمعرات کو فاتحہ خوانی بڑے اہتمام سے کرائی۔ اڑوس پڑوس کی سب عورتیں حیران تھی کہ یہ کس کی مرگ کے سلسلے میں اتنا تکلف کیا گیا ہے۔ بعض نے سلیمہ سے پوچھا بھی، مگر اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ شام کو اس نے اپنی دس برس کی لڑکی مجیبہ کا ہاتھ پکڑا۔ اندر کمرے میں لے گئی۔ سرے سے اُس کے داہنے گال پر بڑا سا دھبا بنایا اور اُس کو دیر تک چومتی رہی۔ وہ مجیبہ  ہی کو اپنا گم شدہ مجیب سمجھتی تھی۔ اب اُس کے متعلق سوچنا چھوڑ دیا، اس لیے کہ اُس کی فاتحہ خوانی کرانے کے بعد اُس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ اُس نے اپنے تصور میں ایک قبر بنا لی تھی۔ جس پر وہ تصور ہی میں پھول بھی چڑھایا کرتی۔ اس کے تین بچے اسکول میں پڑھتے تھے۔ ان کو ہر صبح سلیمہ تیار کرتی۔ ان کے لیے ناشتہ بناتی۔ جب وہ اسکول  چلے جاتے تو ایک لحظہ کے لیے اسے اپنے مجیب کا خیال آتا کہ وہ اس کی فاتحہ خوانی کرا چکی تھی۔ دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ پھر بھی اُس کو کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ مجیب کے داہنے گال کا سیاہ دھبا اُس کے دماغ میں موجود ہے۔ ایک دن اُس کے تینوں بچے بھاگے بھاگے آئے اور کہنے لگے’’امی ہم تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘اُس نے بڑی شفقت سے پوچھا۔’’کیسا تماشا؟‘‘اس لڑکی نے جو سب سے بڑی تھی کہا’’امی جان ایک آدمی ہے وہ تماشا دکھاتا ہے۔ ‘‘سلیمہ نے کہا۔’’جاؤ اُس کو بُلا لاؤ۔ مگر گھر کے اندر نہ آئے۔ باہر تماشا کرے۔ ‘‘بچے بھاگے ہوئے گئے اور اُس آدمی کو بُلا لائے اور تماشا دیکھنے لگے۔جب تماشا ختم ہو ہوا تو مجیبہ اپنی ماں کے پاس گئی کہ امی پیسے دے دو۔ ماں نے اپنے پرس سے ایک روپیہ نکالا اور باہر برآمدے میں گئی۔ دروازے کے پاس پہنچی تو شاہ دولہ کا ایک چوہا کھڑا عجیب احمقانہ انداز میں اپنا سر ہلا رہا تھا سلیمہ کو ہنسی آ گئی۔ دس بارہ بچے اُس کے گرد جمع تھے جو بے تحاشا ہنس رہے تھے۔ اتنا شور مچا تھا کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی تھی۔ سلیمہ روپیہ ہاتھ میں لیے آگے بڑھی اور اُس نے شاہ دولے کے اُس چوہے کو دینا چاہا تو اُس کا ہاتھ ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ جیسے بجلی کا کرنٹ چھو گیا۔ اُس چوہے کے داہنے گال پر سیاہ داغ تھا۔ سلیمہ نے غور سے اُس کی طرف دیکھا۔ اس کی ناک بہہ رہی  تھی اور سر بهی اب چهوٹا تها۔ مجیبہ نے جو اُس کے پاس کھڑی تھی، اپنی ماں سے کہا۔’’یہ۔ یہ چوہا۔ امی جان اس کی شکل مجھ سے کیوں ملتی ہے۔ میں بھی کیا چوہیا ہوں۔ ‘‘سلیمہ نے اس شاہ دولے کے چوہے کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گئی۔ دروازہ بند کرکے اُس کو چوما۔ اُس کی بلائیں لیں۔ وہ اس کا مجیب تھا۔ لیکن وہ ایسی احمقانہ حرکتیں کرتا تھا کہ سلیمہ کے غم واندوہ میں ڈُوبے ہوئے دل میں بھی ہنسی کے آثار نمودار ہو جاتے۔ اُس نے مجیب سے کہا۔’’بیٹے میں تیری ماں ہوں۔ ‘‘شاہ دولے کا چوہا بڑے بے ہنگم طور پر ہنسا۔ اپنی بہتی ہوئی ناک کو  آستین سے پونچھ کر اُس نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ پھیلایا’’ایک روپیہ۔ ‘‘ماں نے اپنا پرس کھولا۔ اُس نے سو روپے کا نوٹ نکالا اور باہر جا کر اُس آدمی کو دیا۔ جو اُس کو تماشا بنائے ہوئے تھا۔ اس نے انکار کر دیا کہ اتنی کم قیمت پر میں اپنی روزی کے ذریعے کو نہیں بیچ سکتا۔ سلیمہ نے اُسے بالآخر پانچ سو روپوں پر راضی کرلیا۔ یہ رقم ادا کر کے جب وہ اندر آئی تو مجیب غائب تھا، ۔ مجیبہ نے اُس کو بتایا کہ وہ پچھواڑے سے باہر نکل گیا ہے۔ سلیمہ پکارتی رہی کہ مجیب واپس آ جاؤ، مگر وہ ایسا گیا کہ پھر نہ آیا..
.۔نہ جانے اور کتنی ایسی سلیمہ ہیں جو اپنی اولاد کو اس طرح بے دردی سے بهینٹ چڑها دیتی ہیں ایسی ان گنت سلیمہ کو اپنے خالق و مالک اللہ سبحانہ وتعالی کے سامنے اپنی اولاد کے حوالہ سے جواب کیلئے تیار رہنا چایئے جب پوچها جائے گا کہ تم نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کیسے کی........
اس واقعہ پر تبصرہ تو کافی تفصیل سے کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اختصار کے ساتھ یہاں ایک سوال چهوڑتے ہوئے سلسلہ کو آگے بڑهاتے ہیں.
کہ جن ملکوں میں شاہ دولہ کا مزار نہیں  وہاں لوگوں کو اولادیں دینے والا کون ہے۔۔۔؟اگر شاہ دولہ اولاد دینے پر قادر ہے تو پھر آج بھی اس کے مزار پر منتیں مانگنے کے باوجود  کئی عورتیں بے اولاد بھٹک رہی ہیں،اور ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ  شاہ دولہ کے کے مزار پر بھینٹ چڑھائے گئے انسان عام انسانوں سے اخلاق وکردار  اور مال ودولت  سے بہتر ہوتے کہ جو اولاد دے سکتا ہے وہ اپنے خادموں کی تعلیم و تربیت  بھی بہتر انداز سے کروا سکتا ہے،لیکن یہاں پر تو کچھ اور ہی ہے ،کہ یہ شاہ دولہ کے چوہےپوری زندگی در در کی ٹھوکریں اور بھیک مانگ مانگ کر گزارا کرتے ہیں بلکہ خود  بھیک بھی نہیں مانگ سکتے اس قدر لاچار ہوتے ہیں،اس سے پہلے کہ اللہ تعالیٰ اس ظلم و بر بریت کا حساب لے ابھی وقت ہے کہ توبہ کر کے صرف ایک اللہ تعالیٰ کو اپنا حقیقی معبود سمجھتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، غیر اللہ سے دعا نہ کرے۔ اللہ کے دَر کے علاوہ اور کے دَر پر اپنی جھولی نہ پھیلائے۔ خالق ِحقیقی کو چھوڑ کر مخلوق کے سامنے دست ِسوال دراز نہ کرے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: هُوَ الْحَىُّ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ۗ اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ( سورۃ غافر (مکی، آیات 65)وہی ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس اسی کو پکارو خاص اسی کی بندگی کرتے ہوئے، سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔۔'جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ :فاطمہ اسلامک سنٹر

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...