Saturday 30 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،82


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر82)
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴿فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ (الاعراف:190) ( پهر جب وہ ان کو صحیح و سالم بچہ دیتا ہے تو اس بچے میں اس (اللہ) ک شریک مقرر کرتے ہیں ۔ سو وہ جو شرک کرتے ہیں اللہ کا مرتبہ اس سے بلند ہے،اللہ تعالیٰ اس سے گزشتہ آیت میں فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾ (الاعراف:189) (وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا۔ اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب وہ بوجھ محسوس کرتی ہے یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار سے التجا کرتے ہیں اگر تو ہمیں صحیح وسالم بچہ دے گا تو ہم تیرے شکرگزار ہوں گے)۔ اس آیت میں وارد لفظ ’’صالح‘‘کے دو معنی ہیں، اول: وہ تمام عیوب سے محفوظ ایک مکمل انسان ہو اور دوم : اپنے ایمان میں گہرا، عبادت و اطاعت کا باریک بینی سے خیال رکھنے والا اور احسان و مشاہدہ کے احساس میں گندھا ہوا ہو۔اولاد کے صالح اور پرہیز گار ہونے کی خواہش ، اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان کا ایک تقاضا ہے کیونکہ کوئی بھی مومن جب بھی اولاد کی تمنا کرتا ہے تو وہ یوں دست سوال دراز ہوتا ہے: اے اللہ مجھے ایک صالح بچہ عطا فرما، جس کا بدن اور سارے اعضاء صحیح وسالم ہوں، جس کا ایمان، اسلام اور اخلاص کامل ہو۔ اے اللہ اس کے بدن کو سلامت رکھ اور اس کے عمل کو درست فرما اور اس کی روحانی اور قلبی زندگی کو درست فرما۔
اس کے باوجود ایسا ہوسکتا ہے کہ بطور آزمائش بچہ معذور پیدا ہوجائے۔ ایسی حالت میں صبر، ثابت قدمی اور مشکلات کو برداشت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہمیں اس کے پیچھے موجود حکمت کا علم نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے والدین کو گناہوں اور خطاؤں سے پاک کرنا اور اس بچے کی پرورش کے دوران تکالیف اٹھانے کی وجہ سے ان کے روحانی درجات بلند کرنا چاہتا ہو۔
 سورۃ الزمرمیں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ﴾ (الزمر:65) (اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے) حالانکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ آنحضرت کبھی بھی شرک سے آلودہ نہیں ہو سکتے تھے۔ اس سے اس بات کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ آپ ﷺ کو خطاب پوری انسانیت کو ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں: ’’ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے ‘‘کیونکہ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محفوظ اور معصوم ہیں۔
جی ہاں، فخر انسانیت حضرت محمدﷺ اپنی حیات طیبہ کے ابتدائی دنوں میں بھی شرک کے ایک ذرے سے بھی آلودہ نہیں ہوئے حالانکہ اس وقت ساری انسانیت کانوں کانوں تک گناہوں اور جاہلیت کی گندگیوں سے آلودہ تھی، بلکہ شرک تو کجا،آپ علیہ السلام سے عمومی عادات سے خلاف بھی کوئی کام صادر نہیں ہوا۔ آپ علیہ السلام نے کسی لفظ سے کسی کے جذبات کو مجروح کیا اور نہ دوسروں کے احساسات کو بال برابر تکلیف پہنچائی۔
اس وجہ سے ہمارا موضوع بحث جو بھی مسئلہ ہو، سب سے پہلے انبیائے کرام کی عصمت، طہارت اور تزکیہ کا اقرار ضروری ہے اور یہ بات جان لیں کہ اس اسلوب اور طریقے سے انبیائے کرام سے جو بھی خطاب ہے، وہ بطریق اولیٰ پوری امت کے لیے ہوتا ہے۔ ہم اس بات کا خیال رکھیں تو پھر زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم اس مقام پر خطاب کے اسلوب کو درج ذیل انداز سے سمجھیں: ’’خبردار ہوشیار! اگر اللہ کی حفاظت سے معصوم نبی کے بارے میں یہ انتباہ ہے تو پھر جو لوگ محفوظ اور معصوم نہیں، ان کو تو اس ڈراوے کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے‘‘۔
یوں ہم پر لازم ہے کہ اس آیت میں وارد حضرت آدم علیہ السلام کے حصے کو اس دوربین سے دیکھیں تاکہ ہم اس برگزیدہ شخصیات کے بارے میں اپنے خیال سے کوئی نامناسب اور گندی بات منسوب نہ کریں جن کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا اور ساری مخلوق پر فضیلت بخشی۔ ارشاد خداوندی ہے: ﴿إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ (آل عمران:33) (اللہ تعالٰی نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا) اس لیے ہمیں حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں اپنے اذہان، افکار اور خیالات کو پاک کرنا چاہیے۔ اس لیے باردگر اس بات کی یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ اولاد صالح کا سوال حضرت آدم علیہ السلام سے صادر ہوا مگر بچے کی وجہ سے شرک کے صدور کا ان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ خطاب ہم سب سے ہے۔
اولاد کی محبت شرک کا دروازہ کھول سکتی ہے
اولاد کی محبت میں حد اعتدال سے تجاوز شرک کے دائرے میں لے جاسکتا ہے کیونکہ بعض لوگوں کے ہاں یہ احساس اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ: ’’میرا بچہ ہی میری زندگی میں سب کچھ ہے۔‘‘ مثلاً آپ دیکھیں گے جب وہ کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس کے بچے کے نام کا پہلا حرف ذکر کیا جائے تو وہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے فوراً اپنے بچے اوراس کی صفات کے بارے میں بات چیت شروع کردے گا۔جی ہاں، یہ کمزوری بعض لوگوں کے ہاں اس قدر پختہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں بات کرنے کا کوئی بہانہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ’’بچے کی محبت ‘‘ سے ہماری مراد یہی ہے ۔بچوں کی محبت ان کی ابدی خوشی کا باعث ہونی چاہیے
بچے ’’احسن تقوم‘‘ کا عکس پیش کرنے والے چھوٹے چھوٹے آئینے ہوتے ہیں اور وہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کو گلے سے لگائیں کیونکہ وہ اپنے خالق اور پیدا کرنے والے کے آثار میں سے ایک اثرہیں ۔

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...