Monday 4 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،63

اسلام اور خانقاہی نظام

ہم بھی لاٹھی لے کر بابا کے سامنے آگئے: ہمارے ذہن میں مجذوب بابا کا جو روایتی تصور تھا ‘ بابا اس کے بر عکس تھا- وہ ایک لمبا سا کرتا پہنے اپنی گدی پہ بیٹھا تھا‘ جو زمین سے تقریبا تین فٹ بلند تھی - گدی پر چھپر بھی پڑا تھا اور بابا ہاتھ میں لاٹھی تھامے ‘ پاوں پہ وزن ڈال کر بیٹھا ہوا تھا-مرید آگے بڑھ رہے تھے اور بابا ان کی کمر پر آہستہ آہستہ دو لاٹھیاں مار دیتا اور سینے پر دو کچو کے لگا دیتا - ہم کھڑے یہ منظر دیکھنے لگے- اور پھر بابا کے ملنگوں نے ہمیں کہا : آپ بھی آگے آئیں- ہم دائیں سمت آگے بڑے مگر ملنگوں نے کہا کہ سامنے سے آئیے- اب ہم دونوں ساتھی سامنے سے آگے بڑھے- بابا نے اوپر سے لاٹھی بلند کی اور ادھر ہم نے نیچے سے اپنی لاٹھی آگے کر کے بابا کو باور کرا دیا کہ لاٹھی ہمارے پاس بھی ہے‘ اور ساتھ ہی میں نے اسے منع کر دیا کہ لاٹھی نہیں مارنی-مصافحہ کرو- مولانا مسعود الرحمان جانباز نے ہاتھ آگے کیا مگر بابا نے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا - تب میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور بابا سے کہا: مصافحہ کرنا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے لہذا آپ مصافحہ کریں-اس پر وہ کہنے لگا -” یہ لاٹھی علی رضی اللہ تعالی عنہ کا مصافحہ ہے جو مجھے ملی ہے-“ تب میں نے کہا ” علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مصافحے کا طریق کار بھی وہی تھا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا‘ اور وہ ہاتھ سے تھا ‘ نہ کہ لاٹھی سے -“میری اس گفتگو سے بابا گھبرا گیا- بابا کو اب کوئی بات نہ آئی تو وہ غصے(صوفیوں کی زبان میں جلال سے)بڑبڑانے لگا-تب ملنگوں نے ہمیں کہاکہ ”ادھر آجائیے “- اب ہم ملنگوں کی طرف ہو گئے- انہوں نے ہمیں باباکی نیاز”مکھانے“ دئیے مگر مولانا جانباز نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش رد کر دی کہ ”ہم ناشتہ کر کے آئے ہیں-“
وہابی ‘ وہابی کی رٹ: بابا کی گدی کے ساتھ ایک کمرہ تھا جو مجھے ”وی آئی پی روم“ہی دکھلائی دیتا تھا- وہاں ایک ملنگ بیٹھا تھا- میں نے سوچا کہ چلو اب اس ملنگ سے ملتے ہیں- میں نے اپنے قدم اس کی طر ف اٹھائے تو باقی ملنگوں نے ہمیں پوچھا کہ ”کام کیا ہے؟“ میں نے کہا ” کمرے میں بیٹھے حضرت سے ملنا ہے“ تو ہ کہنے لگے ”آپ یہاں بیٹھیں- وہاں نہیں جا سکتے“ تب میں نے بھی دھنکا بابا کے پہلو میں زمیں پر بیٹھنے سے انکار کر دیا پھروہ ملنگ جو اندر بیٹھا تھا تو ہمارے پاس آگیا- مگر اب ”دھنکابابا“ نے مخصوص انداز میں کہنا شروع کر دیا-”وہابی حضرات........وہابی حضرات“ اور پھر سب لوگ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہماری طرف دیکھنے لگے-ا س سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ بابا وہ مجذوب ولی نہیں ہے جو سڑکوں پہ نظر آتے ہیں- بلکہ یہ سب کچھ سمجھتا ہے اور اچھا خاصا چالاک انسان ہے -اس نے یہ جو کاروبار بنایا ہے تو یہ اس کی چالاکی کا شاہکار ہے- موجودہ دور کا چلن یہی ہے کہ جس کو بھی قرآن و حدیث کی دلیل دی جاتی ہے تو فورا وہابی وہابی کہنا شروع کر دیتا ہے-- تو یہی وار بابا نے کردیا ہے- اس سے بابا کی حقیقت ہم پہ منکشف ہو گئی- جس کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہو گی اور اچھا صحت رکھنے والا انسان ہے-
نواز شریف اور بے نظیر کے پیچھے پیچھے جتوئی بھی پہنچ گئے : خیر اب ہم یہاں سے چل دئیے- واپس ہیلی پیڈ پر بڑی آزادی سے گھومنے لگے - پیچھے مڑ کر دیکھا تو ملنگ حضرات چھتوں پر چڑھ کر ہمیں دیکھ رہے تھے- ان کے لئے یقینا یہ بڑا تعجب خیز منظر تھا کہ آج تک اس دور دراز علاقے میں کوئی ایسا انسان نہ آیا تھا کہ جو نہ صرف لاٹھیاں کھانے سے انکار کر دے بلکہ حضرت صاحب سے گفتگو کر کے اسے لاجواب کر دے- یہ تو وہ گدی ہے کہ جہاں نواز شریف اور بے نظیر لاٹھی کھا گئے اور ....اب ہمارے وہاں جانے سے ایک ہفتہ پہلے غلام مصطفی جتوئی بھی لاٹھیاں کھا کرگئے- اس امید پر کہ شاید وہ بھی دوسری بار وزیر اعظم بن جائیں- وزراء حضرات کی یہاں لائن لگ گئی تھی اور سب آرہے تھے- بابا دھنکا سے لاٹھیاں کھانے کے لئے- مگر ہم تھے کہ یہاں آکر بابا کو درس دے گئے تھے- یہی بات ان کے لئے پریشانی کا موجب تھی اور شاید وہ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ نہ جانے یہ کتنے بڑے لوگ ہیں جو اس قدر دلیری کر گئے ہیں- مگر انہیں کیا معلوم کہ یہ تو مسکین لوگ ہیں- رب کے غلام اور ادنیٰ بندے ہیں جو جھوٹے خداوں کی دھوکہ بازیوں سے لوگوں کو آگاہ کرتے پھر رہے ہیں- ان کے پس پشت اگر کوئی قوت ہے تو وہ صرف اور صرف ان کے رب کی ہے‘ جو ساری کائنات کا خالق اور قادر مطلق ہے- اسی رب نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا تھا جو ہمیں دور سے دیکھ رہے تھے اور ہمارے سامنے اف تک نہ کر سکے تھے ‘ اوران کا بابا جو لوگوں کو وزارتیں بانٹتاہے‘ اس بے چارے کو یہ تک نہ پتہ چل سکا کہ جن پہ میں لاٹھی اٹھا رہا ہوں یہ کون ہیں؟ اور یہ کہ میرے مقابلے میں وہ بھی لاٹھی لائے ہیں- پھر وہ نہ ہماری باتوں کا جواب دے سکا اور نہ ہمارا کچھ بگاڑ سکا - بس بڑبڑاتا رہ گیا ‘ غصے میں کباب ہو کر وہابی وہابی  کہتا رہ گیا مگر ہمارا بال بھی بیکا نہ کر سکا - لاٹھی نہ مار سکا - غرض اس وقت ہماری عملی کیفیت ان لوگوں کے لئے جو بابا سے نفع و نقصان کی امیدیں وابستہ کر کے لاٹھیاں کھا رہے ہیں‘ قرآن کے الفاط میں کچھ اس طرح تھی قُل اَتَعبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ مَا لا یَملِکُ لَکُم ضَرًّا وَلا نَفعًاترجمہ :کیا تم اللہ کے علاوہ ان لوگوں کی پوجا کر تے ہو جو نہ تمہارے نقصان کے مالک ہیں اور نہ نفع کے- (المائدہ : ۶۷)

بشکریہ
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...