Sunday 10 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،70


اسلام اور خانقاہی نظام

برصغیر کے لوگوں کی اکثریت قبر پرستی میں مبتلا رہتی آئی ہے ،مذکورہ جنتی دروازہ بھی ایک مزار پر تعمیر کیا گیا ہے،ان پر صاحب مزار کی بزرگی ،افسانوی کرامات اور جذبہ عقیدت کا رنگ اس قدر غالب ہوتا ہے کہ حق بات سننے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے اور وہاں ہونے والی خرافات کو ثواب اور دین کے کام سمجھتے ہیں ،جذبات کی رو میں بہتے ہوئے ایسے شخص کو جب یہ بتایا جاتا ہے کہ مزار پر موجودہ ایک دروازہ "باب جنت"ہے ،جہاں سے گزر کر وہ جنتی بن جائیگا تو اسے یہ بات تسلیم کرنے میں ذرہ برابر جھجک نہیں ہوتی اور وہ اپنے جیسے ہزاروں راہ گم کردہ لوگوں کے سیلابی دھارے میں بہتا 'مارکھاتا ذلت اٹھاتا 'عزت گنواتااور جان کھپاتا ایک بار اس نام نہاد "باب جنت "میں گزر جانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے،جو بلا سوچے سمجھے اپنے باپ داداکی تقلید میں لکیر کے فقیر بنے دوڑے چلے جاتے ہیں ،انہیں عقل وخرو سے کوئی تعلق ہے نہ علم و آگہی سے کوئی شغف ،دوسرے وہ ہیں جو میڈیا کی برکت سے بڑے دانشور 'علامہ اور سکالر سمجھے جاتے ہیں یابزعم خویش مفکر بنے پھرتے ہیں ،قرآن وحدیث کے علم سے نا آشنا یہ علمی طبقہ کسی جھوٹی روایت کو حدیث نبویﷺسمجھ کر خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے،چناچہ روزنامہ نوئے وقت مورخہ یکم اپریل ٢٠٠١ءمیں"باب جنت "کے نام سے شائع شدہ ایک مضمون کا آغاز ان لفظوں سے کیا جاتا ہے :ایک روایت ہے جو سات صدیوں سے انسانوں کے دلوں میں اسی طرح بہتی آرہی ہے جیسے پنجاب کے پانچ دریاوں کا پانی کہ روضے کی تعمیر کے بعد نوجوان خواجہ نظام الدیں اولیاءؒاس کے پائنتی کے دروازے یعنی جنوبی دروازے کے باہر کھڑے تھے کہ اچانک ان پر وجد طاری ہو گیا اور آپ نے بے خودی کے عالم میں تالیاں بجا کر کہا :لو دیکھ رہے رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ہیں اور فرمارہے ہیں "من دخل ھذاالباب امن''ترجمہ:جو اس دروازہ میں داخل ہوا امن پا گیا ۔یہ امن من گھڑت اور جھوٹی روایت نقل کرنے کے بعد مضمون نگار اسے حدیث نبویﷺقرار دیتے ہوئے لکھتا ہے 'گفتہ او گفتہ اللہ بود '(آنحضرت ؐکا فرمان اللہ کا فرمان ہے)کا طلاق یہاں سے زیادہ بھلا کہاں ہو سکتا ہے بعد ازیں موصوف نے اس روایت میں معانی کے سمندر تلاش کرنے کی کوشش کی ہےاور عقل کی دُور بین اور علم کی خورد بین کے ذریعے ان سمندروں کی گہرائی اور لمبائی وچوڑائی کا تعین کرنے کی سعی لا حاصل کی ہے مگر"جاءالحق وزھن الباطل "ترجمہ:حق آگیا اور باطل مٹ گیا،کے مصداق مضمون نگار نےخود یہ لکھا ہے کہ اس روایت کی اصل کیا ہے؟یہ اللہ جانے اور اللہ کا حبیب ؐجانے ،اور ہم جیسے عاصی اور عاری تو تاریخ کے حوالے سے صرف اتنا جانتے ہیں  کہ اس روایت کے بعد سے اس پونےچھ فٹ اونچے اور ڈھائی فٹ چوڑے عام دروازے کے بھاگ جاگ اُٹھے اور اسےوہ تقدس ملا جو آج تک دنیا کے کسی دروازے کو دروازے کے طور پر نصیب نہ ہوا ،مقام غورہے کہ جس روایت کی بنیاد پر 'جنتی دروازے 'کا افسانہ گھڑا گیا اس کی اصلیت خود لکھنے والے کو معلوم نہیں اور وہ برملا اس کا اعتراف بھی کر رہا ہے ،پھر کیا ضرورت پڑی تھی ناحق اخبار کے صفحے اور اپنا نامہ اعمال سیاہ کرنے کی ۔مذکورہ روایت کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ اس روایت میں'اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا گیا ہے'اللہ کے رسول ؐپر کذاب بیانی کی گئی ہے ،رسول اللہ ؐکا مذاق اڑایا گیا ہے کہ جس میں آپ ؐنے اونچی قبروں کو گرانے کا حکم دیا ہے،حالت وجد میں رسول اللہؐ سے روایت حدیث کی ایسی داغ بیل ڈالی گئی ہے کہ ہر کس وناکس با آسانی آپ ؐ پر جھوٹ باندھ سکے،جس شخص کو ولی قرار دیا جاتا ہے اسے کفار کی تقلید میں تالیاں بجا کر اولیاء اللہ کا مذاق اڑایاگیا ہے،آپﷺنے فرمایا:جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے(بخاری ومسلم)اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے:اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے حالانکہ اسے اسلام کی طرف بلایاجا رہا ہے اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا(سورۃ الصف)اور یہ ایک ڈھائی فٹے دروازے کو جنتی دروازہ کا نام دے کر اسے اس قدر تقدس بخشتے ہیں کہ بیت اللہ کے دروازے کی توہین کرتے ہیں اور اپنے بنائے ہوئے 'باب جنت'کو وہ مقام عطا کرتے ہیں جو رب العالمین نے اپنے گھر (بیت اللہ) کے دروازے کو بھی نہیں عطا کیا کہ جو بھی (بلا تفریق مذہب )اس میں سے گزرجا ئے جنتی بن جائے ،اگر یہی بات ہوتی تو روسائے مکہ سردارانِ قریش اور مشرکوں کے سر پنچ ابو جہل 'ابو لہب وغیرہ سب جنتی ہو جاتے جو کہ بیت اللہ کی تعمیر اور رکھوالی کرنے والے تھے ،اپنی مرضی سے جسے چاہتے بیت اللہ میں داخل ہونے دیتے اور جسے چاہتے روک دیتے مگر قرآن نے انہیں جہنمی قرار دیا ،اللہ تعالی نے ان پر جنت حرام کر دی لیکن شیطان نے ایک صوفی کو حالت ِوجد میں کیا ہی بُری پٹی پڑھائی جو حقیقت میں یا ر لوگوں کی بنائی ہوئی حکایت ہے،کہ وہ تالیاں بجابجا کر اعلان کرے کہ "من دخل ھذاالباب امن"جو اس (پاکپتنی )دروازے میں داخل ہوا امن پا گیا،مضمون نگار شاید اس بات سے بے خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہر جگہ جنت کا وعدہ متقین سے کیا ہے جن کیلئے پہلی شرط ایمان ہے ،اس کے بے پایاں رحم و کرم سے کسی کو انکار نہیں جبھی تو وہ دنیا میں اپنے باغیوں اور سر کشوں کو بھوکا پیاسا نہیں مارتا بلکہ انہیں سب کچھ عطا کرتا ہے ،لیکن اس کی وہ خاص رحمت جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں کو جنت میں داخل کرے گا 'وہ اہل ایمان کیلئے مخصوص ہے،لہٰذا جنت میں داخلے کیلئے ضروری ہے کہ شرک وبدعت سے توبہ کی جائے خالص عقیدہ توحید اور اتباع سنت کو اختیار کیا جائے ،اور اعمال صالح کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔جاری ہے ۔۔۔۔
بشکریہ :فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...