Saturday 30 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,84


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر84)
۔دوسری  طرف حصول اولاد کیلئے آستانوں اور مزاروں پر جا کر شرکیہ اعمال سر انجام دینا یہ بهی اولاد کی محبت کا ایک ذریعہ ہے جو اللہ کی ناراضگی اور ہلاکت کا سبب  بنتا ہے.چونکہ ہمارا موضوع شاہ دولہ کے مزار پر چهوڑی جانے والی اولاد کے حوالہ سے ہے اس کے پس پردہ بهی والدین اولاد کی محبت ہی کیلئے یہ قدم اٹهاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ پہلی اولاد شاہ دولہ کے مزار پر منت مانگنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور اگر ہم نے یہ پہلی اولاد شاہ دولہ کے مزار پر مجاورں کے حوالے نہ کی تو ہمیں  شاہ دولہ کی طرف سے کسی بڑے نقصان کا سامنا یا دوسری پیدا ہونے والی اولاد میں معذوری کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے.لہذا یہ قدم اولاد کی محبت اور مزار والے کے خوف کے سبب اٹهایا جاتا ہے جو صریح شرک اور ظلم عظیم ہے....بہر حال میں ایسے لوگوں کو بهی جانتا ہوں جنہوں نے اپنی پہلی اولاد شاہ دولہ یا دیگر مزار پر اس نیت سے وقف کی کہ بعد میں مزید اولاد پیدا ہو لیکن بعد میں کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی جس کی وجہ والدین کو دگنی پریشانی اٹهانی پڑهی ایک پہلی اولاد کی جدائی اور دوسری پهر اولاد کی نعمت سے جهولی خالی کی خالی رہنے  کی.......
 اس موضوع کو زیادہ اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہم اس غلطی کی مثال دے سکتے ہیں جس کا ارتکاب حضرت نوع علیہ السلام کی قوم کے پہلے لوگوں نے کیا تھا جبکہ آپ جانتے ہیں کہ (ایک روایت کے مطابق )’’ود، صواع، یغوث، یعوق اور نسر‘‘ اچھے اور نیک لوگ تھے۔ لوگوں میں ان کے پیروکار تھے۔ چنانچہ جب وہ دنیا سے گزر گئے تو ان کے پیر وکاروں نے کہا کہ : ’’اگر ہم ان کی تصویریں بنا لیں تو جب بھی ہم ان کو یاد کریں گے عبادت کے شوق میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘ چنانچہ انہوں نے تصویریں بنالیں۔ پھر جب یہ لوگ مر گئے تو ابلیس نے مداخلت کی اور کہا: ’’ وہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کی وجہ سے بارش ہوتی تھی۔‘‘چنانچہ انہوں نے ان کی عبادت شروع کردی۔(2)شروع میں اس سوچ میں کوئی گناہ نہ تھا مگر رفتہ رفتہ ان صالح لوگوں کو معبود بنانے کا سبب بن گئی۔ابتداء میں یہ ایک سادہ سی سوچ تھی مگر انجام کار ایک عظیم مصیبت بن گئی۔
جی ہاں، انسان کو چاہیے کہ کسی کی محبت میں زیادہ تعریف کرے اور نہ حد سے آگے بڑھے، خواہ وہ اس کی اولاد ہو یا کوئی اور۔ معقول حد سے تجاوز نہ کرے۔ پس خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے اپنی حد کو پہچانا اوراسی پر رک گیا۔
اولاد کی محبت میں توازن
ہمارے زمانے میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بچہ وہ بنیادی اکائی ہے جس پر خاندان کی بنیاد کھڑی ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ: کیا آج کے خاندان میں مرکزی نقطہ بچہ ہے یا خواہشات نفس یا انانیت ؟! ان سب باتوں پر ہم کوئی قطعی حکم نہیں لگا سکتے مگر جو بات یقین ہے وہ یہ کہ جب انسان اپنے لیے ایسا طرز زندگی اختیار کرلیتا ہے جو ان اوامر و نواہی کا ساتھ نہیں دیتا جودین نے وضع کئے ہیں تو اس کے ہاں منفی نقاط بہت زیادہ ہوجاتے ہیں اوران کے سامنے توحید کے منافی شرک کے مختلف قسم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں ایمانی اخلاق کے مطابق یہ بات درست نہیں کہ خاندان کی خوشی اور بدبختی کی بنیاد بچے پیدا کرنے کے لیے مسئلے پر رکھ دی جائے یا اس کی وجہ سے اختلافات اور نزاع پیدا کرلیا جائے کیونکہ اس قسم کا رویہ (اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے) اللہ تعالیٰ کی قضا پر عدم رضا مندی، اس کی تقدیر پر اعتراض اوراس کے خلاف بغاوت ہے۔
جی ہاں، بچے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات (باوجود اس کے کہ یہ تقدیر کا مسئلہ ہے) کو حق تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے اور کھبی نہیں بھولنا چاہیے کہ بچے کا وجود اور عدم وجود ، بذات خود ایک امتحان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ﴾ (الانفال:28)(اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور اللہ کے پاس نیکیوں کا بڑا ثواب ہے)۔
اگر ہم اچھی اولاد چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں اس کے والدین کی اچھی تربیت کرنا ہوگی کیونکہ پہلے والدین کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے اچھا نمونہ کس طرح بنیں گے ، ان سے کیا رویہ رکھیں گے. خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اگر اس بارے میں درست ہتھیاروں سے لیس ہوگا تو وہ مقدس ادارہ جس کو وہ ا پنے شریک حیات کے ساتھ مل کر بنائے گا، وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگا اوراس میں کوئی شک نہیں کہ جو بچے اس خاندان کی گود میں تربیت پائیں گے وہ نیک اور درست ہوں گے لیکن اگر ماں باپ کے پاس مادری اور بنیادی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو اولاد میں بھی تذبذب ہوگا کہ وہ نہ ادھر کے ہوں گے اور نہ ادھرکے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کی اکثر نسلوں کی تربیت اسی انداز سے ہوتی ہے. جن بچوں کے نام ہی پیراں دتا'شاہ نواز'امام بخش یا حسین بخش رکھ دیئے جایئں تو وہ بڑے
ہو کر اسی کمزور مخلوق کو ہی اپنا حاجت روا'گنج بخش' غریب نواز'غوث اعظم اور داتا سمجهیں گے. اگرچہ بعض لوگوں کی تربیت پاکیزہ ماحول میں ہوئی ہے اور وہ اپنی اصل تک پہنچ گئے ہیں مگر اکثریت ایسا نہیں کرسکی۔چونکہ اپنے مقصد کے خلاف ناجائز محبت کرنے والے، ان لوگوں سے تھپڑ کھا چکے ہیں جن سے وہ محبت کرتے تھے خواہ وہ کوئی بھی ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین نے بچے کو اپنے پاس اللہ کی امانت نہیں سمجھا بلکہ اس کو صرف اس نظر سے دیکھا کہ وہ ان کے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جس کی وجہ سے اس سے شدید محبت کی اور وہ بھی انانیت کے جذبے سے۔ اس لیے ایسا بچہ مستقبل میں ان کے لیے آزمائش بن جائے گا کیونکہ جس طرح ایک شے میں اضافے سے دوسری میں کمی ہوتی ہے، اسی طرح ایک میں کمی سے دوسرے میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر جس طرح یہ بات والدین اور بچے کے تعلقات میں در آتی ہے، اسی طرح یہ محب اور محبوب کے تعلق میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.. اگر انسان کسی کو(خواہ وہ کوئی بھی ہو) اس کی قدر سے اونچے اور بڑے مقام پر رکھے گا اور اس کی  حد سے زیادہ محبت  کرے گا تو ےےیقیناًگمراہی کی طرف بڑھے  گا
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...