Saturday 30 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,87


اسلام اور خانقاہی نظام

(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر87)
شاہ نورانی: 

یہ بات دسمبر ۲۰۰۳ کی ہے جب ہم چار دوستوں نے فیصلہ کیا بلاول شاہ نورانی کے مزار کا سفر کیا جائے۔ مزار پر جانے کی بنیادی وجوہات اس علاقے کے رسم و رواج کا مطالعہ، زرعئی دور کا مشاہدہ اور پہاڑوں پر چند تفریحی لمحات گذارنا تھے۔ وگرنہ ہم چاروں میں سے کسی کا بھی مزار پر منت مانگنے یا چڑھاوے چڑھانے کا ارادہ قطعی نہیں تھا۔سفر کی ابتدا ہم چاروں دوستوں میں سلمان شاہد، سیماب قدیر ، شاہنواز اور میں یعنی محمد عقیل شامل تھے۔ سفر کے لئے ہم نے کچھ کپڑے اور سفری سامان رکھ لیا۔ پھر ۲۸ دسمبر کی صبح لی مارکیٹ پہنچ گئے جہاں نورانی جانے کے لئے ایک بس تیار تھی۔ اس بس کی ٹوٹی پھوٹی شکل بتا رہی تھی کہ واقعی وہ نورانی کا ایک وسیع تجربہ ہے، ہم چاروں بس کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ ان سیٹوں پر آٹے ، دال اور چینی کے بڑے بڑے بورے رکھے ہوئے تھے۔ ۔ بس کے ماحول کا جب جائزہ لیا تو تمام ہی مسافر غریب طبقے سے تعلق رکھتے نظر آئے۔ اندر ایک شور بپا تھا اور وقفے وقفے سے کوئی مست بابا نعرہ لگاتا” بولو بولو بولو جئے شاہ”۔ سب اس کا جواب دیتے ” جبل میں شاہ”۔ ۔ کبھی کوئی من چلا آواز لگاتا ” نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے” اور لوگ اس دھن میں مست ہوکر جھومنے لگتے۔میں وہاں بیٹھا سب سن تو رہا تھا لیکن میرا ذہن نورانی کی تاریخ میں کھویا ہوا تھا حضرت بلاول شاہ نورانی کی تاریخ نورانی کا علاقہ کراچی سےقریب ۱۲۰ کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع خضدارمیں واقع ہے۔ یہ مقام چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔یہاں حضرت بلاول شاہ نورانی کا پانچ سو سالہ پرانا مزار اس مقام کی وجہ شہرت ہے۔ حضرت بلاول شاہ نورانی کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیلات مستند ذرائع سے نہیں ملتیں البتہ ان کے بارے میں ڈیلی ٹائمز اخبار [اشاعت ۱۷ اکتوبر، ۲۰۰۸]میں سلمان راشد صاحب نے ایک آرٹیکل لکھا ہے جس سے کچھ مستند معلومات تک رسائی ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق سن ۱۹۰۷ء کے لسبیلہ ڈسٹرکٹ کے گزٹ میں بلاول شاہ نوارانی کا ذکر ملتا ہے۔ وہ ۱۴۹۵ میں سندھ سے اس مقام پر تشریف لائے اور گوکل نامی ایک ہندو سیٹھ کے باغ میں قیام کیا۔جبکہ حضرت نورانی کے بارے میں ایک اور قدیم ذریعہ تحفتہ الکرام ہے جو ٹھٹہ میں ۱۷۶۷ ء میں لکھی گئی۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ شاہ نورانی اپنے علاقے کے ایک مجذوب شخص تھے اور اسی جنوں کی بنا پر علاقے کے لوگوں نے انہیں ولی ماننا شروع کیا اور ان سے منتیں اور مرادیں ماننے لگے۔ روایات کے مطابق گوکل نامی ہندو سیٹھ نے انہیں پناہ دی اور ان کا خیال رکھا۔ گوکل کے مرنے کے بعد بلاول شاہ نورانی وہیں مقیم رہے اور ان کے انتقال کے بعد وہیں انکی تدفین ہوئی۔ان مستند معلومات کے علاوہ باقی بے شمار کہانیاں حضرت نورانی بابا سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک مشہورروایت یہ ہے کہ بلوچستان کے اس مقام پر ایک ظالم دیو گوکل کی حکومت تھی اور لوگ اس سے تنگ تھے۔ ان لوگوں نے اللہ سے دعا کی تو ایک نورانی صورت بزرگ تشریف لائے جنہوں نے اس دیو کو شکست دے کر لوگوں کو اس کے ظلم سے آزاد کروایا۔
چرس: میرے ذہن میں ابھی تاریخ چل ہی رہی تھی کہ بس سفر کا آغاز کرنے لگی۔ میں نے اور سیماب نے سفر کی دعا پڑھ لی ۔یہ سفر کی دعا کوئی منتر نہیں کہ اس کے دہرا لینے سے سفر کے تمام مسائل حل ہو جائیں۔ اس کا مقصد سفر میں اللہ کو شریک سفر کرنا اپنے عجز کا اظہار کرنا اور آخرت کے سفر میں اللہ سے ملاقات کا اعادہ کرنا ہے۔بس کراچی کی مضافاتی حدود میں داخل ہوگئی۔راستہ ہمدرد یونی ورسٹی کے روڈ سے گذرتا تھا جو اس وقت کچا اور دشوار تھا۔ہمدرد یونی ورسٹی سے پہلے بس نورانی ہوٹل پر لنچ کے لئے رکی۔ یہاں ہم نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا ۔ میں نے ایک شخص سے باتھ روم کی بابت دریافت کیا تو اس نے لوٹا تھما کر جنگل کی جانب اشارہ کردیا ۔ یہ غیر تمدنی زندگی کی ابتدا کی علامت تھی ۔ یوں مجھے باتھ روم کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔بلکہ کسی صاحب نے یہ بتایا کہ انسانی تمدن میں سب سے اہم پیش رفت سیوریج لائن کے ذریعے ہی ہوئی ہے۔ بہر حال نماز پڑھی اور کھانا کھایا۔ سفر کی دوبارہ ابتدا ہوئی تو ارد گرد کالے اور مٹیالے پہاڑوں کو سلسہ شروع ہوگیا۔اس قسم کے پہاڑ میرے لئے نئے تھے کیونکہ میں کشمیر، سوات اور کا غان وغیرہ کے سبزے سے ڈھکے پہاڑ دیکھنے کا عادی تھا۔ آس پاس کا علاقہ میدانی تھا البتہ کہیں کہیں جھاڑیاں اور اجڑے ہوئے درخت نظر آرہے تھے۔ شام کا سورج اپنی آخری کرنیں بکھیرتا ہوا رخصت ہو رہا تھا ۔ کالے پہاڑ مزید سیاہ ہوتے جا رہے تھے۔ میں اللہ کی خلاقی کے ساتھ ہی اسکی بے نیازی کو بھی دیکھ رہا تھا ۔ اتنے عظیم پہاڑ، وسیع آسمان، عریض زمین اور خوبصورت مناظر اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دئے اس بات سے قطع نظر کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ، کوئی تعریف کرے یا نہ کرے۔مجھے خیال آیا کہ کہ اللہ تو اپنی ذات میں غنی ہے انہیں دوسروں کی کوئی ضرورت نہیں حتیٰ کہ تعریف کے لئے بھی ۔ انہی خیالات میں گم تھا کہ اچانک بس کی چھت پر سے ایک شخص اترا ۔ ا س کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی ۔اس نے چورن بیچنے والوں کی طرح آواز لگائی” چرس لے لو، چرس لے لو”۔ میں بھونچکا رہ گیا ۔زندگی میں پہلی بار چرس کو دیکھا اور جس شان سے دیکھا اس کی توقع نہ تھی۔ چرس یا دیگر نشہ آور اشیاء انسان سکون کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو جاتا ہے۔اندھیرا بڑھتا جارہا تھا اور مناظر نگاہوں سے اوجھل ہو رہے تھے۔ جب بس کے اندر نگاہ ڈالی تو وہاں بھی خاموشی ہوچکی تھی۔ کوئی اونگھ رہا تھا تو کوئی خلائوں میں گھور کر وقت کاٹ رہا تھا۔ایک بوڑھا شخص جو سارے راستے جئے شاہ کے نعرے لگاتا رہا وہ بھی مضمحل قویٰ کے ساتھ چپ ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ اسی طرح بس ہچکولے لیتی رہی ۔ یہاں تک کہ منزل آ گئی۔ اس وقت رات کے سات بج رہے تھے چونکہ سردیوں کے دن تھے لہٰذا سورج غروب ہوئے دو گھنٹے سے زائد ہو چکے تھے۔ البتہ سردی بالکل نہ تھی ۔اردگرد کا ماحول تاریکی کی وجہ سے مشاہدے کا قابل نہیں تھا۔ البتہ کچھ جانوروں کے چلنے کی آوازیں آرہی تھیں اور زمین پر چلنے سے اندازہ ہورہا تھا کہ سطح ہموار نہیں ہے۔جاری ہے.....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...