Monday 11 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,76


اسلام اور خانقاہی نظام

اصلی بہشتی دروازے سے گزرنے والے لوگ:اصلی بہشتی دروازے پر لوگ داخل ہونے کیلئے پہنچیں گے، وہ ایمان والے ہوں گے، شریعت پر دل و جان سے عمل پیرا ہوں گے.ان کے چہرے سنت رسولﷺ سے مزین اور ان کی پیشانیاں سجدوں کے نشانات سے چمک رہی ہوں گی.جبکہ جعلی بہشتی دروازے پر پہنچنے والے لوگوں کا کیا حال ہوتا ہے.وہاں کیسے کیسے حیاء سوز، غیر شرعی اور شرکیہ مناظر ہوتے ہیں، آیئے ذرا اس کی ایک مختصر مشاہداتی رپورٹ ملاحظہ کریں:ہم حضرت بابا فرید کے مزار پر پہنچے تو وہاں اردگرد لکی ایرانی سرکس، ہیجڑوں کے فحش ڈانس ،اور تفریح کے دیگر مشاغل، ہر طرف سے گانوں کا شوروغل ،موت کے کنوؤں اور جوئے کے اڈوں کا طوفان برپا تها.ہم حیران تهے کیا کسی بہشتی دروازے پر ایسا  بے حیائی کا منظر ہو سکتا ہے.اس کی تاب نہ لاتے ہوئے ہم آگے بڑهے تو بابا فریدؒ کے مزار پر خواجہ عزیز کے دربار پر پہنچے انہیں یہاں صحابی رسولﷺ مشہور کیا گیا ہے.حالانکہ خواجہ کا لفظ ہی بتانے کیلئے کافی ہے کہ عربوں میں ایسی ذات(قوم)کا وجود ہی نہیں تها.اور مزار کے احاطے اور اس سے متصل مسجد میں عورتوں اور مردوں کا ہجوم تها، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ لوگوں نے مسجد کو زیادہ آباد کیا ہوا تها، یہ تو اچهی بات ہے ..!لیکن یہ حضرات یہاں کوئی نماز اور ذکرو اذکار کرنے کیلئے نہیں بلکہ سونے کیلئے آئے ہوئے تهے.اور جو اس پاکپتنی بہشتی دروازے  پر تصادم ہوا اس کی وجہ یہ تهی کہ دروازہ بہت چهوٹا ہے.اب ذرا اصلی جنتی دروازے کی طرف دیکهئے کہ کس قدر چوڑائی ہو گی ، سیدنا رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے'جنت کے دو کواڑوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے 'جتنا مکہ اور حمیر شہر کے درمیان یا مکہ اور بصریٰ شہر کے درمیان کا فاصلہ ہے{1250کلو میٹر تقریبا}(البخاری) جبکہ صحیح مسلم  میں مکہ اور ہجر بستی کے درمیان کا فاصلہ ہے {1160 کلو میٹر تقریبا}یہ جنت کے ایک دروازے کی چوڑائی ہے.جبکی جنت کے آٹھ دروازے ہیں.اور جب اس دنیاوی جنتی دروازے کے کمرے میں داخل  ہوا جاتا ہے تو یہ کمرہ بهی اس قدر چهوٹا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں عام چهوٹے کمرے ہوتے ہیں ، اور اصلی جنتی  دروازے کے اندر جو جنت ہو گی اس کی چوڑائی :سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ،ترجمہ اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو کہ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے (سورہ الحدید:21)اور محکمہ اوقاف کی طرف سے اس بہشتی دروازے سے گزرنے والے دیوان خاندان'ان کے مہمانوں'اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری وی آئی پی افراد کیلئے خصوصی پاس اور ٹکٹ جاری کئے جاتے ہیں.ان حضرات کیلئے محفوظ شمالی گیٹ کا راستہ مخصوص کیا جاتا ہے، جبکہ غریب اور کمزور افراد لائنوں میں لگ کر دهکے کها کها  کرمشرقی دروازے سے ہو کر بڑی مشکل سے باہر آتے ہیں اور اگر تهوڑی سی بهگدڑ مچ جائے تو زخمی اور مرنا بهی انہیں غریبوں کو ہی ہونا پڑتا ہے.کیا یہ تفریق اصلی جنتی دروازے پر ممکن ہے؟ یقینا بالکل نہیں .پاکپتنی بہشتی دروازے پر تو یہ حال ہے کہ کرپٹ اور با اثر امیر لوگ پروٹوکول کے ساتھ پہلے گزر جاتے ہیں.لیکن سادہ لوح عوام پهر بهی نہیں  سمجھتی کہ جس بہشتی دروازے پر امیر اور غریب  کے گزرنے میں فرق رکها گیا ہو وہ بهلا بہشتی دروازہ کیسے ہو سکتا ہے.....؟ ہمارا حکومت پاکستان کو  مشورہ ہےکہ ان مزاروں میں مدفون بزرگوں کی میتیں عام قبرستان میں منتقل کر کے سنت کے مطابق ان کی کچی قبریں بنائی جائیں تا کہ لوگ شرک و بدعت اور خرافات سے بچ سکیں. کیونکہ یہ بڑے بڑے گنبدوں اور بڑی بڑی عالی شان عمارتوں والے دربار شرک و بدعت اور خرافات کا ایک صریح راستہ ہے.جو انسان بھی آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کی خواہش  اور دلی آرزو ہے کہ قیامت کے دن اس کو کامیابی حاصل ہو،اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو ،اس کو آگ کے عذاب سے بچاکر جنت میں داخل کر دیا جائے ،آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کیلئے اور جنت کے حصول کیلئے شرک و کفر سے توبہ کرتے ہوئے خالص ایمان اور نیک عمل کی ضرورت ہے عقیدہ و عمل میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی ہے،جب انسان عقیدہ و عمل میں اخلاص اور اتباع سنت کا خیال رکھے گا اور اپنے آپ کو ہر قسم کے شرکیہ اعمال'بدعات و خرافات 'خلاف سنت کاموں اور فسق و فجور سے دور رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل  کرے گا اور انسان کی دلی تمنا پوری ہو جائے گی،بہر حال اب ہم پاکپتن کے مصنوعی بہشتی دروازے کے متعلق چند معروف علماء کرام کے فتاویٰ پیش کرتے ہیں:فتاویٰ جات طویل ہونے کی وجہ سے ہم صرف یہاں خلاصہ ہی بیان کریں گے  البتہ ان فتاویٰ کی  اصل کاپی  'حافظ مقصود احمد  کی کتاب :پاکپتن کے بہشتی دروازے کی شرعی حیثیت'میں دیکھ سکتے ہیں :واضح رہے کہ جنت میں جانا یہ انسان کے اعمال  کیساتھ تعلق رکھتا ہے اور دنیا میں کسی شخص کے جنتی ہونے کا قطعی فیصلہ کرنا کسی کیلئے ممکن نہیں الایہ کہ پیغمبر  علیہ السلام کسی شخص کے جنتی ہونے کی گواہی دیدے،اور دنیا میں کسی دروازے سے گزرنے والے پر جنتی ہونے کا اعتقاد رکھنا یہ ایک غلط اور قابل مذمت عقیدہ ہے ،اور جب بیت اللہ مسجد حرام 'مسجد نبوی 'مسجد اقصیٰ وغیرہ کے دروازے کسی کو جنتی نہیں بنا سکتے تو دربار مذکورہ کا دروازہ کس طرح جنتی بنا سکتا ہے،اس دروازے کے متعلق بہشتی دروازے کا اعتقاد رکھنا قرآن و سنت  اور آئمہ دین کے فرمودات کے خلاف ہے،انسان کی نجات اور سعادت دارین کا دارومدار عقائد حقہ اور اعمال صالحہ پر ہے،جس کا فیصلہ موت اور حساب کتاب کے بعد ہو گا،دنیا میں اپنے ہاتھ سے تعمیر کردہ کسی مقام کو بہشتی دروازہ کے ساتھ موسوم کرنا اللہ اور رسول اللہ ﷺ پر افتراء ہے،پاکستان میں بنایا گیا بہشتی دروازہ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور نہ ہی اسے بہشتی دروازے کا نام دیا جاسکتا  ہے،اور اس کے متعلق بہشتی دروازہ ہونے کا اعتقاد رکھنا شرکیات و کفریات میں داخل ہے،اور اس مصنوعی بہشتی دروازے کے متعلق جو دعوے کیے جاتے ہیں سب جھوٹ اور خرافات ہیں ،اور بہشتی دروازہ ہونے کی جو روایت بیان کی جاتی ہے اس کی کوئی اصل نہیں  بلکہ من گھڑت اورجھوٹی ہے،اللہ تعالیٰ کتاب وسنت کی روشنی میں صحیح عقائید کی توفیق عطا فرمائے تا کہ حقیقی جنت میں داخلہ ہمارا مقدر ہو ،آمین
جامعۃالفریدیہ اسلام آباد ،دار الا فتاء جامعہ لاہور ،دارالا فتاء جامعہ فرقانیہ مدینہ راولپنڈی ،دارالافتاء جامعہ سراجیہ نظامیہ راولپنڈی ،مفتی اعظم سعودی عرب مستقل کمیٹی برائے علمی ریسرچ و فتویٰ،مکتبہ دیوبند :مفتی خطیب لال مسجد اسلام آباد ،دار الافتاء السلفیہ  اسلام آباد ،دار الاعلوم  اہلحدیث الہنداور پاکستان   ،دار الاعلوم دیوبند الہند اور پاکستان،صومال کے ممتاز عالم دین فضیلۃ الشیخ محمد عرتن الصومالی الزیلعی ،وغیرہ
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹرپاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...