Monday 4 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،64

اسلام اور خانقاہی نظام

پردہ اٹھتا ہے: دھنکا کی بستی سے ہم واپس ”لساں نواب “ آئے-” نانگے بابا“ کی حقیقت جاننے کے لئے ہم نے یہاں کے لوگوں سے رابطہ شروع کیا - معلومات اکٹھی کرنا شروع کی  تو ہماری ملاقات شیخ محمد امین کلاتھ مرچنٹ سے ان کی دوکان پر ہوئی - حاجی علی نواز جو کہ چمڑے کے سوداگر ہیں‘ انہیں بھی یہاں بلا لیا گیا- یہ بزرگ آدمی ہیں ‘ بڑے سمجھدار اور سنجیدہ بزرگ ہیں- انہی دونوں بزرگوں نے ”لساں نواب“ میں مسجد توحید محمدیہ بنائی ہے- یہ ہیں تو دیوبندی مگر لوگ انہیں وہابی کہتے ہیں-ہم نے جب ان کے سامنے اپنا مقصد بیان کیا‘”بابا دھنکا“ سے اپنی ملاقات کے بارے میں آگاہ کیا اور مولانا جانباز صاحب نے انہیں میرے بارے میں بتلایا کہ یہ شرک کے اڈوں کے پول کھولتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں- تو انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا‘ مہمان نوازی کی -حاجی علی نواز کہنے لگے کہ :” میں ہوں تو دیو بندی مگر حق کے لئے اہل حدیث کی جرات کا معترف ہوں اور آپ سے محبت کرتا ہوں- “ اسی طرح شیخ محمد امین کہنے لگے : ” یہاں تو نواز شریف اور بے نظیر کے آنے کے بعد ”بابا دھنکا“ کی پوجا بہت بڑھ گئی ہے- ہم تو دیکھ دیکھ کرحیران ہوتے جا رہے تھے کہ یہ فتنہ کس قدر بڑھ گیا ہے اور شہرت پا گیاہے- یہ ہماری تو خواہش تھی کہ کوئی اللہ کا بندہ آئے جو اس فتنے کی اصلیت سے لوگوں کو آگاہ کرے - ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ ہماری اس خواہش کو اللہ نے پورا کر دیا ہے چنانچہ آپ کو دیکھ کر ہمیں بڑی خوشی ہو رہی ہے-“ اس کے بعد ان دونوں بزرگوں نے جو معلومات دیں ‘ وہ اس طرح ہیں- نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کا نذرانہ : بستی دھنکا کے قریب ایک بستی ہے جس کانام ”جسگراں‘ ‘ ہے- یہ نانگا بابا وہیں کا رہنے والا ہے- جسگراں میں ایک بابا ہوا کرتا تھا جو دیوانہ سا تھا- لوگ اس کی پوجا کرتے-اور اتفاق سے جس محلے میں وہ رہتا تھا- یہ رحمت اللہ ( جو دھنکا کے نام سے مشہور ہوگیا ہے) بھی اسی محلے اور اسی گلی کا رہنے والا تھا- 1952ءمیں یہ بابا فوت ہو گیا - اب اس کا مزار بن چکا ہے اور حال ہی میں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر نے جو کہ مانسہرہ کا رہنے والا ہے‘ اس کے گنبد کی تعمیر کے لئے ایک لاکھ روپیہ نذرانہ دیا ہے- دھنکا بابا کو چپ کیوں لگ گئی ؟: رحمت اللہ جو اب دھنکا اور دیوانہ بابا بن چکا ہے - تب یہ جوان تھا اور جسگراں کا ایک غریب آدمی تھا- مزید برآں اس پر تنگ دستی ایسی طاری ہوئی کہ اس کے پاس جو زمین تھی.... وہ بھی”رہن“ کی نذر ہو گئی اور پھر یہ تنگ آکر محنت مزدوری کرنے کراچی چلا گیا-وہاں کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرتا رہا -اس دوران یہ بیمارہو گیا- حتی کہ قوت مردانہ سے محروم ہو گیا ‘ جس کی وجہ سے اس کی بیوی سے بھی علیحدگی ہوگئی- تب اس کے پاس اس کا ایک ہی لڑکا تھا جس کا نام عبد الستار ہے- ان حالات کا اس پر یہ اثر ہوا کہ یہ چپ چپ رہنے لگ گیا اور پھر یہ ”جسگراں “ سے اٹھا اور ”دھنکا“ میں آگیا-یہاں رحمت اللہ ولد مہند علی عرف” مہندا پیر“ بن بیٹھا - تب آہستہ آہستہ اس کی پوجا شروع ہوگئی - مرید بننے شروع ہوگئے‘ نذریں نیازیں اور چڑھاوے چڑھنے لگے اور پھر اس کے دن یوں پھرے کہ گروی رکھی ہوئی زمینیں ہی واپس نہ آئیں بلکہ مزید بھی خرید لی گئیں....خستہ مکان کی جگہ اچھے خاصے مکان بن گئے اور مانسہرہ کے بہترین علاقے میں اس کے بیٹے عبد الستار اور بھائی سمندر خان کی کوٹھیاں بن گئیں- کاروں کے یہ مالک بن گئے اور اب جب سے نواز شریف اور بے نظیر اور دیگر بڑے بڑے لوگ اس کے مرید بنے ہیں تو اب تو اللہ ہی جانتا ہے کہ دولت و ثروت کی کس قدر ریل پیل ہے؟ نواز شریف ‘ دھنکاّ بابا کے مرید کس طرح ہوئے؟ میں نے ان دونوں بزرگوں سے پوچھا کہ ” نواز شریف لاہور سے اٹھ کر اس دوردراز بستی کے ایک گمنام بابا کے پاس کیسے پہنچے ؟ کیا مانسہرہ میں انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ کیا تو کیا یہ رشتہ دار اس کا سبب بنے ہیں؟“ جواب ملا کہ ”رشتہ دار بھی مرید تو ہیں مگر نوازشریف کے یہاں پہنچنے کا سبب اور ہے- ہوا اس طرح کہ”جھوکاں گراں “ کی بستی جو ہمارے ”لساں نواب“ سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے-یہاں کی ایک لڑکی کی شادی جمالی خاندان میں ہوئی ‘جو کراچی میں رہتا ہے- اس لڑکی نے جمالی خاندان میں”دھنکا بابا“ کا تعارف کروایا کہ ہمارے علاقے میں ایک بزرگ رہتا ہے‘ جو بڑا کرنی والا ہے وغیرہ وغیرہ....اور پھر یہ شہرت سن کر ظفر اللہ جمالی کی والدہ یہاں آئیں اور پھر جمالی صاحب خود یہاں آگئے- اتفاق سے ان دنوں بلوچستان میں ان کو کوئی سیاسی مہم در پیش تھی جو سر ہو گئی- چنانچہ ان کا یقین پختہ ہو گیااور انہوں نے اس کا تذکرہ نواز شریف صاحب سے کر دیا- تب جونیجو لیگ نہ ہوا کر تی تھی اور جمالی صاحب نواز سریف صاحب کے ساتھ ہوا کرتے تھے- چنانچہ نواز شریف صاحب یہاں آگئے-.... پھر انکے نقش قدم پہ چلتے ہوئے بے نظیر آئی.... اور پھر تو لائنیں لگ گئیں-“ جاری ہے.....

بشکریہ
فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...