Wednesday 23 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،43

اسلام اور خانقاہی نظام

قارئین کرام ! آپ نے ابھی پچھلے صفحات میں ملاحظہ کیا کہ ملتان شروع سے ہی سوریہ ( سورج) دیوتا کی پوجا کا مرکز رہا ہے- اگر آپ ذرا غور کر کے کڑیاں ملائیں تو خود بخود واضح ہو جائے گا کہ کس طرح چالاکی سے ہندو ازم کو اسلام کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے-یہ سورج کنڈ جہاں ہندو ں کے لئے اشنان کرنے کا تالاب بنا ہوا ہے ‘ ہندو عقیدے کے مطابق نرسنگھ اوتار نے پرہلاد بھگت کو کشب سے نجات دلانے کے بعد اپنے ساتھ آئے ہوئے تمام دیوی دیوتاوں سمیت اسی سورج کنڈ کے تالاب سے ہی پانی پیا( جو ملتان شہر سے قریباً تین چار کلو میٹر دورہے) اور اب کہا جاتا ہے کہ شاہ شمس کی کرامت کی وجہ سے یہ علاقہ سورج کنڈ کہلایا- اس کے علاوہ سورج میانی ‘ حرم دروازہ کے اندر مندر توتلاں مائی ریلوے اسٹیشن کے قریب مندر جوگ مایا ( جہاں چیت اور اسوج میں نوراترہ کے میلے لگتے تھے ) ہندو دیوتا شری رام چندرجی کا بیرون دہلی دروازہ ‘ میلسی اور دنیا پور کی سڑکوں کے مقام اتصال پر مندر ” رام تیرتھ “ جہاں بھادوں کے مہینہ میں پورن ساون مل ‘ بیرون ماشی کا میلہ لگتا تھا اور سبزی منڈی کے قریب مندر نرسنگھ پوری ‘ بیرون دہلی دروازہ گیان تھا( جس میں اب مدرسہ خیر المدرس ہے ) بازار چوڑی سرائے میں جین مندراور چوک بازار میں مندر ہنومان جی- یہ تمام ملتان کے مندر اور خاص طور پر شاہ شمس ( سورج ) جس کی کرامتی تصویر ہندوں نے اپنے مندر بمقام سورج کنڈ میں نقش کی ہوئی تھی ‘ سورج پرستی کے دور کی واضح عکاسی کرتے ہیں-ہندو مسلم فسادات کے زمانہ میں مندرجہ بالا مندر خاص طور پر گیان تھلہ ہندوں کے دفاعی قلعوں میں تبدیل ہو گئے تھے-حسب ضرورت ان میں ناجائز اسلحہ جمع رہتا تھا-جس سے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جاتی تھی-اب ہم مذکورہ بالا شاہ شمس تبریز سبز واری کے دربار پر گئے-یہ شیعہ کے بزرگ ہیں اور انہی کایہاں راج ہے-پنجے اور سیاہ علم دکھائی دے رہے تھے-ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت ولایت کی بلندیوں کو یہاں تک چھونے لگے کہ ان کے جسم میں جو کیڑے پڑے ہوئے تھے- وہ بھی گرتے تو یہ انہیں اٹھا کر اسکی جگہ پر رکھ دیتے اور کہتے:اپنی خوراک کھاو-
جب گوشت بھوننے کے لئے سورج زمین پر آگیا:یہ جب ایران سے یہاں ملتان میں وارد ہوئے تو کوئی انہیں اپنے قریب نہ آنے دیتا تھا-انہیں جب بھوک لگی تو ان کے ہاتھ میں ایک بوٹی تھی- انہوں نے وہ بھوننا چاہی تو کسی نانبائی نے اپنے تندور کے قریب نہ پھٹکنے دیا-چنانچہ انہوں نے بوٹی آسمان کی جانب کی-....سورج قریب آگیا-بوٹی روسٹ ہونے لگی ....مگر اس کے ساتھ ہی پورا ملتان بھی روسٹ ہونے لگا....اس پر لوگ چیخ وپکار کرتے ہوئے حضرت کے پاس آئے .... فریاد کرتے ہوئے معافی کے خواستگار ہوئے.... اب انہیں پتہ چلا کہ یہ حضرت کس قدر کرنی والے ہی -تو اس کے بعد ان کا نام شمس یعنی سورج ہوگیا- ملتان کاسب سے بڑا تعزیہ حضرت کے دربار سے ہی برآمد ہوتا ہے-اس دربار کی ایک دیوار پرلکھا ہوا تھا: ”یوم انہدام جنت البقیع“ معلوم ہوا کہ یہ دن پچھلے دنوں یہاں منایا گیا ہے- سعودی عرب کے حکمرانوں کو گالیوں سے نوازا گیا ہے ‘ اس لئے کہ انہوں نے بقیع الغرقد میں قبے اور مزارات شریعت کے مطابق برابر کر دئیے تھے-
جب شاہ عبد العزیز نے خانقاہی نظام کے سرداروں کو چیلنج کردیا:شاہ فیصل کے والد سلطان عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جب یہ قبے گرائے تھے-تب ہندوستان سے علماء کے کئی وفد سلطان سے ملنے گئے اور درباروں کی از سر نو تعمیر کرنے کی انہیں گزارشات پیش کیں-اس پر کتاب وسنت کے متبع سلطان نے کہا: ” تم قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے پختہ قبروں کی تعمیر ثابت کر دو-میں سب قبریں سونے کی بنا دوں گا-“یہ جواب سنتے ہی ہندوستان کے درباری علماء اور بڑے بڑے صوفیاء ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے-سب کے مونہوں کو تالے لگ گئے اور سب ہی لاجواب ہوکر ہندوستان کو واپس لوٹے‘ تو اب یہ وہی یوم ہے جو یہاں منایا جا رہا تھا- ہرایک اینٹ پر ایک قرآن:ملتان کا ایک اور دربار حافظ جمال کا ہے- اس دربارکے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی ہر اینٹ پر ایک قرآن ختم کیا گیا ہے اور پھر ان اینٹوں سے یہ دربار بنایا گیا ہے- یقین جانیئے ! اس دربار کے بارے میں یہ سن کرمیں حیران رہ گیا اور ان درباری پیروں کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکا کہ انہوں نے اپنی تجوریوں کے بھرنے کو کیا کیا سوانگ رچا رکھے ہیں- اور کس قدر نام نہاد مقدس پردے ان سوانگوں پہ اوڑھ رکھے ہیں-اب پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ قرآن بھلا اینٹوں پر پڑھنے کو آیا ہے ....؟ وہ اینٹیں کہ جنہیں ایک ایسی قبر کا حصہ بننا ہے کہ جسے لوگوں سے پجوانا مقصود ہے-حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ” نَھَی رَسُولُ اللَّہِ اَن یُّجَصِصَ القَبرُ “ ” قبر کو پختہ کرنے سے منع فرما دیا ہے-“(صحیح مسلم : کتاب الجنائز باب النہی عن تجصیص القبر و البناءعلیہ )مگر داد دیجئے ! ان قبروں کی کمائی کھانے والوں کو کہ کس طرح ہوشیاری اور چالاکی سے انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو جھٹلایا-اور ان کے فریب کو داد دیجئے کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی جھٹلایا اور پھر اپنی بدعت کو قرآن خوانی کے مقدس پردے میں ملفوف بھی کردیا-قارئین کرام ! یہ بات یاد رکھ لیجئے کہ جس کام سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما دیں - وہ کام بھی مردود ہے-اس کام پر لاکھ ہو شیاری اور چالاکی سے تقدس کا پردہ اوڑھنے کی کوشش کی جائے ‘وہ کام بہرحال مردود ہی رہے گا-شراب کی بوتل پر ایک لاکھ دفعہ قرآن پڑھ دیا جائے ‘وہ حرام ہی رہے گی - اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیاہے-سود کے نوٹوں پر اور رشوت کے پیسوں پر ایک کروڑ قرآن پڑھ کر ختم دے دیا جائے تب بھی یہ سود سود ہی رہے گا-رشوت رشوت ہی رہے گی-ایسے ہی پختہ قبر پر یا مزار پر اربوں قرآن بھی ختم کر دئیے جائیں-عرق گلاب پہ قرآن خوانی کر کے اس سے مزاروں کو دھو دیا جائے مگر چونکہ قبر کو پختہ کرنے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے- اس لئے یہ مزار اور قبے‘ یہ عرس اور میلے شرک اور بدعت ہی ٹھریں گے-یہ عمل مردود ہی ٹھہرے گا-اسے تقدس کے لاکھ پردے اوڑھا دئیے جائیں‘ یہ بہر حال قابل مذمت ہی ٹھہریں گے-حافظ جمال کے دربار کے باہر بڑے وسیع وعریض لان میں دربار کا خلیفہ مخدوم گل محمد چارپائی پہ براجمان تھا-میں چارپائی پہ حضرت کے ساتھ ہی بیٹھ گیا-گفتگو شروع کی مگر حضرت صاحب تو بالکل ان پڑھ تھے ‘ دنیاوی سوجھ بوجھ سے بھی ناآشنا تھے-بس ان کا کمال یہی تھا کہ وہ اس گدی کے خلیفہ اور حافظ جمال کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں-لوگ نذر ونیاز دیتے ہیں اور یہ بیٹھے بٹھائے دین کے نام پر گل چھرے اڑا رہے ہیں-جاری ہے......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...