Sunday 10 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،73


اسلام اور خانقاہی نظام


انسان اپنی ضروریات وحاجات کے پورا کروانے اور مشکلات و مصائب کے حل کروانے میں ایسی ہستی کا محتاج ہے جس کو کسی کی ضرورت اور مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہر لحاظ سے مکمل با اختیار اور ہر چیز پر قادر  ہو اور کوئی اس کو روکنے ٹوکنے اور پوچھنے والا نہ ہو اور وہ ہر ضرورت اور مشکلات کو جانتا بھی ہو،صرف انسان ہی نہیں بلکہ دیگر کثیر تعداد مخلوقات کی ضروریات اور مشکلات کو حل کر سکتا ہو،اور یہ صرف  اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات مبارک ہے جو اکیلا ہی ہر چیز کا خالق 'مالک اوررازق ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے ،ہر قسم کی عبادات اس اللہ  تعالیٰ ہی کیلئےخاص ہیں ۔اور سب سے بڑی اور اہم عبادت "دعا " ہے ،فرمان رسول اللہ ﷺہے:الدعا ء ھواالعبادۃ(ترمذی)ترجمہ:دعا ہی اصل عبادت ہے،اس لئے ہم اللہ سے ہی دعا کرتے ہیں اسی سے مانگتے ہیں اسی سے سوال کرتے ہیں ،اور ہر مشکل میں اسی کو پکارتے ہیں ،رزق'گھر بار'کاروبار'اور جسم وجان کی سلامتی اُسی سے مانگتے ہیں،گناہوں کی معافی اُسی سے مانگتے ہیں ،نبی ﷺ کی شفاعت اور جنت اُسی سے مانگتے ہیں ،ہر قسم کی بیماری 'پریشانی 'غم 'خوف اور تنگدستی وہی دور کر سکتا ہے ،جنات کے شر سے 'جہنم کی آگ   سے 'ہر تکلیف دہ اشیاءکے شر سے  ،وہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی بچا سکتا ہے،ایک اللہ کے سوا کوئی مشکلات کو حل نہیں کر سکتا ،کوئی دوسراسوالات وحاجات کو پورا نہیں کر سکتا ،خواہ وہ کسی نبی کی ذات ہو یا کوئی ولی ہو فرشتہ ہو یا جن ہو،جا ندار ہو یا بے جان ،بڑا ہو یا چھوٹا ،خلاصہ مختصر سب اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہیں ، کیونکہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں  ہے جو عالم الغیب ہو ،دُور و نزدیک سے سب کچھ سن سکتا ہو،سب زبانیں سمجھتا ہو ،لاکھوں بندوں کی بات ایک ہی وقت سن اور سمجھ سکتا ہو،اس کو نہ کبھی اونگھ اور نیند آتی ہو ،اور نہ موت ،کسی وجہ سے بول نہ سکنے والوں  کی دل کی بات کو بھی سن اور سمجھ سکتا ہو ،اور وہ صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے،جو تما م جہانوں کے ذرے ذرے سے باخوبی واقف  اور مُردوں کو دوبارہ ان کی میموری سمیت زندہ کرنےپر قادر ہے،انسان چونکہ جلد باز ہے اور صبر کی جو تلقین اسے کی گئی ہے اسے اپنانے سے گریز کرتا ہے اور نہ ہی یہ سمجھتا ہے کہ بیماری اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے،جس پر صبر کرنے کا اجرو ثواب ہےاور اللہ کے حکم سے ہی عافیت نصیب ہوتی ہے،لہٰذا اس کی ساری توجہ ڈاکٹروں سے فوری علاج کروانے پر ہوتی ہے یا پھر غائبانہ مدد کی تلاش میں وہ مزاروں (خانقاہوں )کا رخ  کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کہ مزاروں والے بزرگوں کی نظر ِکرم سے وہ شفا یاب ہو جائے گا ،دوسری  طرف وہ قرآن مجید کی اس آیت کی عملاًتکذیب کر رہا ہوتا ہے،حضرت ابراہیم ؑفرماتے ہیں :وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ،کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو صرف ایک اللہ ہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے(سورہ الشعراء:80)مزاروں سے وابستہ اعتقاد عرصہ دراز سے ذہن میں راسخ شدہ عقیدے اور فکر کو تبدیل کرنا اگرچہ اس کا غلط ہونا دلائل سے ثابت ہو بھی جائے تو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے ،کیونکہ جس گمراہی میں ساری زندگی گزاری ہو وہ انسان کےانگ انگ اور دل ودماغ  میں بس جاتی ہے مگر اللہ کی توفیق جسے میسر ہو ،اور مزاروں پر حاضری دینے سے وہ کام جو اللہ تعالیٰ کے حکم و تقدیر سے حل ہوتے ہیں انھیں مزاروں کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے،حالانکہ وہ امر ربی ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر بارش کے بعد صبح کی نما ز پڑھائی تو فرمایا:اے میرے صحابہ !تمہیں معلوم ہے کہ تمھارے رب نے کیا فرمایاہے؟صحابہ کرام نے عرض کیاکہ اللہ اور اُس کا رسول ہی جانتے ہیں 'فرمایا:یہ کہ میرے بندوں میں سے کچھ نے ایمان کی حالت میں صبح کی اور کچھ نے کفر کی حالت میں 'جس نے کہا !کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کی تاثیر کا اس نے انکار کیا ،اس کے برعکس جس نے یہ کہا !کہ فلاں فلاں ستارے کی تاثیر کے طلوع ہونے کی وجہ سے بارش ہوئی وہ ستارے پر ایمان لایا اور اس نے میرے ساتھ کفر کیا(متفق علیہ)معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نسبت غیر کی طرف کرنا کفر ہے،یہ بھی واضح ہوا کہ لوگ جن چیزوں کی نسبت غیر اللہ کی طرف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری فلاں  مشکل فلاں مزار پر حاضری دینے یا منت مانگنے سےحل ہوئی حالانکہ وہ مشکل حقیقت میں اللہ کے حکم سے حل ہوتی ہے مگر غیر اللہ پر اعتقاد رکھنے والا کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے،رہا یہ سوال پھر دربار پر حاضری دینے سے اللہ مشکل حل کیوں کرتا ہے قسط نمبر ٧٤ میں پڑھیں۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
بشکریہ :فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...