Friday 1 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،46

اسلام اور خانقاہی نظام

قارئین کر ام! فی الحال میرے ہاتھ میں ایک ایسی کتاب ہے جوکہ انگریز کے اسی ریکارڈ سے متعلق ایک صحافی نے مرتب کی ہے- اس کتاب کا نام ہے” سیاست کے فرعون“ اب آپ ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے کہ یہ آج کے گدی نشین جو بے سمجھ لوگوں کے مشکل کشا بنے ہوئے ہیں انکے بڑے کیا تھے-ان کا کردارکیا تھا-اور درباروں کے نام پر انہوں نے کیسے جاگیریں حاصل کیں....؟؟ اور یہ بارش کا ابھی پہلا قطرہ ہے ‘ جب کبھی اللہ نے موقع دیا تو ہم ان شاءاللہ لندن کی انڈیا آفس لائبریری سے وہابی مجاہدین کا کردار بھی پیش کر یں گے اور درباری اور خانقاہی سجادہ نشینوں کابھی .... میں سمجھتا ہوں یہ اہلحدیث پر ایک قرض ہے جو ہمیں تاریخ کے ریکارڈ سے دلائل کے میدان میں چکانا ہے (ان شاءاللہ وباللہ التوفیق)
بزرگ اور ان کی گدیاں ( تاریخ کے آئینے میں)
جیسا کہ ہم ذکر چکے پاکستان میں ملتان شہر” ولیوں کا شہر“ مشہور ہے اور اس شہر میں سب سے بڑے ولی حضرت بہاولدین ذکریا اور ان کے پوتے شاہ رکن عالم ہیں ‘ حضرت بہاوالدین کے والد شیخ محمد غوث ”کوٹ کروڑ“ کے قاضی تھے اور یہ علاقہ ان کو بطور جاگیر ملا ہوا تھا.... اسی طرح حضرت شاہ رکن عالم نے اپنے دادا بہاول حق کا عرس اپنی وفات سے تین ماہ قبل منعقد کرایا.... اور پھر حضرت رکن عالم کا مقبرہ دہلی کے بادشاہ فیروز خان تغلق نے اپنی نگرانی میں تعمیر کرایا - قارئین کر ام ! یہ تاریخی باتیں جو کہ محکمہ اوقاف کی طرف سے شائع شدہ پمفلٹوں اور دیگر کتابوں میں تاریخی حوالوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں-ثابت کرتی ہیں کہ ان روحانی خانقاہوں کی بنیاد ہی ‘جاگیریں ‘ مقبر ے اور عرسوں کے انعقاد ہیں - حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون اس قدر طوالت کامتحمل نہیں‘ وگرنہ ہم تفصیل کے ساتھ ان گدی نشینوں اور خانقاہی بزرگوں کے بارے میں عرض کرتے.... بہر حال حضرت بہاول حق کا یہ خاندان جوکہ اپنے آپ کو ”مخدوم “کہلواتا ہے یعنی وہ خاندان کہ جس کے ہر فرد کی خدمت کی جائے .... مگر یہ خاندان ماضی میں خود کس کی خدمت میں گامزن تھا اور ان کے مخدوم کون تھے؟ - ہم یہ تفصیل اپنے قریب ترین دور یعنی سکھوں کی تاریخ سے شروع کرتے ہیں -” سیاست کے فرعون “ کے مصنف جناب وکیل انجم لکھتے ہیں: مخدوم شاہ محمود اور رنجیت سنگھ : سکھوں کے ابتدائی دور میں مخدوم شاہ محمود اس خاندان کا سربراہ (گدی نشین )تھا -مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باقاعدہ برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی مخدوم کافی زمینوں کے مالک بن گئے تھے اور ان کا شمار ملک کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا تھا - جب 1819ءمیں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان کو فتح کیا تو انہوں نے مخدوموں کی عزت وتکریم کے پیش نظر ( انہیں) ساڑھے تین ہزار روپے مالیت کی جاگیر عطاکی-“ قارئین کرام ! غور کیجئے ! یہ گدی نشین اولیاءکرام اس دور میں سکھوں سے جاگیریں حاصل کر رہے ہیں جس دور میں سید احمد اور شاہ اسماعیل سکھوں سے جہاد کرنے میں مصروف کار تھے - حتی کہ 1847ء تک یہ ” اولیاءکرام “ سکھوں کی خدمات بجا لاتے رہے - مگر اس دوران شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ سکھوں کے خلاف سرحد کی پہاڑیوں میں جہاد کرتے رہے -حتیٰ کہ 6مئی1831ءکو وہ بالاکوٹ میں شہید ہو کر سرخرو ہوگئے - مخدوم شاہ بطور جاسوس انگریز : پھر جب سکھ کمزور ہوئے تو یہی گدی نشین اولیاء جو سکھوں کے وفادار تھے اب انہوں نے پنتیرا بدلا اور سکھوں کو چھوڑ کر انگریزوں کے حاشیہ نشین بننے لگے - وکیل انجم کی تحریر ملاحظہ ہو- ” 1847-49ء میں جب سکھوں کی قوت لڑ کھڑانے لگی تو انگریزوں نے مطلع سیاست پر یونین جیک گاڑ دیا تو مخدوم شاہ محمود نے اس زمانے میں سرکار عالیہ کو جو خفیہ خبریں دیں ‘وہ انتہائی مفید ثابت ہوئیں - جب انگریز نے پنجاب پر پوری طرح قبضہ کر لیا تو انہوں نے مخدوم شاہ محمود کو اعلی خدمات کے معاوضے میں ایک ہزار مالیت کی مستقل جاگیر کے علاوہ تازندگی سترہ سو پنشن دی- اس کے علاوہ ایک پورا گاوں ان کے حوالے کیا -“ جناب قادری صاحب !اب ذرا اپنے اولیاءکرام کے کارنامے سنتے جائیے اور سوچتے جائیے کہ سکھوں اور انگریزوں کا ایجنٹ کون تھا؟-اہل حدیث یا مزاروں کے اولیاءکرام ؟ !! اب سنئے 1857ءکی جنگ آزادی کاحال - کہ اس وقت آپ کے بزرگوں نے کیا کیا گل کھلائے تھے اور کس کس طرح مفادات سمیٹے تھے ؟ - ” سیاست کے فرعون “ کے اقتباسات ملاحظہ ہوں-
جاری ہے.....
تالیف:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...