Saturday 30 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,86


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر86)
حُبِ الہی:- کسی کا ایمان اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اسکی تمام تر محبتیں اللہ کے لئے نہ ہو جائیں، اللہ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت آئے تو صرف اور صرف اسلام کی حالت میں۔ [آل عمران: 102]
اللہ کی محبت ایمان کے لوازمات میں سے ہے، عقیدہ توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک انسان اپنے رب کو ہر اعتبار سے محبوب نہ بنا لے ، اس سے بڑھ کر محبت کی وضاحت نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ اللہ کے سوا کو ئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان کو ہر اعتبار سے محبوب ہو، یہ ہی وجہ ہے کہ الوہیت، اور عبادت کے لائق صرف وہ اکیلا ہی ہے، اور وہی کمال عاجزی انکساری اور محبت کا حقدار ہے۔ اللہ کی محبت کا معاملہ ہی کچھ اور ہے؛ دل کو جتنی اپنے خالق سے ہوتی ہے کسی سے نہیں، اور کیوں نہ ہو!؟ وہی اسکا خالق ، معبود، ولی، مولا، پروردگار، کارساز ، رازق، مارنے اور زندہ کرنے والا ہے، جسکی محبت میں نفسانی شائستگی، روحانی زندگی، دلوں کی غذا، ذہنی سکون، آنکھوں کی ٹھنڈک، اور تعمیرِ باطن ہے۔
 قلبِ سلیم ، پاکیزہ ارواح ، اور عقلمندوں کے ہاں اللہ کی محبت، اور اسکی ملاقات سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تو انہیں لذت دیتی ہے اور نہ ہی محظوظ کرتی ہے۔ اسکی معافی اتنی وسیع ہے کہ تمام گناہوں کو بہا لے جائے ؛تو اسکی رضا کا کیا حال ہوگا!؟ اسکی رضا تمام امیدوں پر غالب آسکتی ہے؛ تو اسکی محبت کا کیا حال ہوگا!؟، اسکی محبت میں عقل دنگ ہے؛ تو اسکی مودت کا کیا حال ہوگا!؟، جبکہ اسکی مودت ہر چیز بھلا دے گی؛ تو اسکی لطافت کا کیا حال ہوگا!؟"
انسان جتنی اللہ کی محبت اکٹھی کریگا اسے اتنی ہی ایمان کی مٹھاس اور لذت ملے گی، اسی لئے جو اپنے دل کو حُبِ الہی میں غرق کر دے؛ اللہ اسے غنی کردیتا ہے، پھر اسے کسی سے ڈرنے یا کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ، چنانچہ حُبِ الہی ہی ایک ایسی چیز ہے جو دل کی پیاس بجھا سکے اور اسکے بعد کسی کی اسے ضرورت پیش نہ آئے۔
 اگر انسان اپنے دل کیلئے دنیا جہان کی آسائشیں اکٹھی کر لے پھر بھی اسے حقیقی سکون ملے گا تو وہ صرف حُبِ الہی میں ، اگر دل سے اسکا چین و سکون -حب الہی- چھین لیا جائے تو اسے آنکھ ، کان ، زبان کے ضائع ہونے بھی زیادہ تکلیف ہو، بلکہ اگر اس بدن سے روح پرواز کر جائے تواتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا حُبِ الہی سے دل کے عاری ہونے پر ہوتا ہے۔
 حقیقتِ محبت کیا ہے؟ محبت اس بات کا نام ہے کہ آپ اپنا سب کچھ اپنے محبوب کے نام پر قربان کردو، اور اپنے لئے کچھ نہ چھوڑو، اسی لئے تو اللہ کی محبت سب محبتوں پر غالب رہتی ہے، تو کامیاب شخص بھی اپنی تمام تر محبتوں کو اپنے رب کی محبت کے تابع رکھتا ہے کہ اسی میں اسکی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
 محبت کے سب مدعی آپس میں برابر نہیں ؛ اسی لئے اللہ تعالی نے مؤمنوں کو شدید محبت کرنے والا کہا، فرمایا: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں[البقرة: 165]
لفظِ أَشَدُّ دعوی محبت میں درجہ بندی کی دلیل ہے، جسکا مطلب ہے: ایک سے بڑھ کر ایک محبت کرنے والا۔
 حُبِ الہی : اللہ تعالی کی ذات اور اسکے پسندیدہ اعمال کو اپنی جان ، روح، اور مال پر ترجیح دینے کا نام ہے، جسکا تقاضا ہے کہ خلوت وجلوت ہر حالت میں اسکے فرامین کی پیروی کی جائے،  ہمہ وقت اپنے آپ کو محبوب کی یاد میں مشغول کر دیں، اس پر اپنی جان نچھاور کردیں، اور دل میں محبوب کی چاہت کے علاوہ اور کچھ نہ ہو، زبان ہمیشہ اسی کی یاد سے تر رہے، اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی: «وأسألُك حبَّك، وحبَّ من يُحبُّك، وحبَّ عملٍ يُقرِّبُ إلى حُبِّك» یا اللہ! تجھ سے محبت کا سوال کرتا ہوں، اور تیرے محبوب کی محبت کا ، اور ہر ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب تر کر دے۔
 مُحِب کے دل میں محبت شدت اختیار کر جائے تو یہ فرمانبرداری میں تبدیل ہو جاتی ہے، اسی صفت سے متصف ہو کر اللہ کی عبادت کرنا ہی حُبِ الہی اور حُبِ شریعت کا اعلی درجہ ہے، اس "محبت "کی "غذا "سے زیادہ لوگوں کو ضرورت ہے، کیونکہ غذا کی عدم دستیابی سے جسم کو نقصان ہوگا، جبکہ حُبِ الہی کی عدم موجودگی میں روح برباد ہو جائے گی جو زیادہ نقصان دہ ہے۔مؤمن اپنے رب کو پہچان لے تو اس سے محبت کرنے لگتاہے ، جب محبت ہو جائے تو اسکی جانب متوجہ رہنے کی کوشش کرتا ہے، اور جب اسے چاشنی اور لذت ملنے لگے تو دنیا کو شہوت کی نگاہ سے اور آخرت کو کاہلی اور سستی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ حُبِ الہی انسان کو اسکے ذمہ واجب کام کرنے اور تمام ممنوعہ کاموں سے دور رہنے پر ابھارتی ہے، اور اس سے بڑھ کر مستحبات پر ترغیب ، اور مکروہات سے انسان کو دور رکھتی ہے۔
 حُبِ الہی انسانی دل کو حلاوتِ ایمان سے بھر دیتی ہے، فرمانِ رسالت ہے: (جو شخص اللہ کو رب مانے، اسلام کو اپنا دین جانے، محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- کو اپنا رسول مانے تو اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا)
حقیقی حُبِ الہی دل سے اللہ کی تمام نا فرمانیوں کو باہر نکال کر انسانی جسم کو اطاعت پر مجبور کر دیتی ہے، جس سے نفس مطمئن ہو جاتا ہے، حدیث قدسی ہے (جب میں کسی بندے سے محبت کرنے لگوں تو میں اسکے کان، آنکھ ، ہاتھ، اور پاؤں کو اپنےکنٹرول میں کر لیتا ہوں)
محبت کی لذت سے انسان آنیوالی تمام مصیبتوں کو بھول جاتا ہے، اور دوسروں کی طرح اسے تکلیف بھی نہیں ہوتی، اسی لئے حُبِ الہی گناہوں سے بچنے کیلئے انتہائی مضبوط ترین ڈھال ہے، کیونکہ ہر کوئی اپنے محبوب کی بات مانتا ہے۔
 یہ ہی وجہ ہے کہ دل میں جتنی مضبوط محبت ہوگی انسان اتنی ہی اللہ کی اطاعت کریگا اور نافرمانی سے بچے گا، اور جیسے جیسے محبت کمزور پڑتی جائے گی؛ نافرمانیوں کی گرفت مضبوط ہو جائے گی۔
 سچے مُحِب پر اللہ کی جانب سے ایک نگہبان مقرر کیا جاتا ہے جو اسکے دل و اعضاء کی نگرانی کرتا ہے، جبکہ خالی دعوں کی محبت اسوقت تک ان سہولیات سے عاری ہوتی ہے، جب تک وہ محبت میں سچا نہ ہو جائے، چنانچہ جیسے ہی محبت میں سچائی پیدا ہو تو انسان برائیوں سے دور رہتے ہوئے اطاعت گزاری کرتا ہے، جبکہ جھوٹی محبت سے انسان اپنے تئیں تو بڑا خوش باش نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اسکے اثرات سے بالکل عاری ہوتا ہے، اس لئے انسان کبھی اپنے دل میں اللہ کی محبت تو پاتا ہے لیکن یہ محبت اسے برائیوں سے نہیں روک پاتی۔
 اسکی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ محبت میں سچائی نہیں، اللہ کی تعظیم اور جلالت اس میں شامل نہیں، جبکہ محبت کے ساتھ ساتھ اللہ کی عظمت اور جلالت مل جائے تو یہ اللہ کی بہت بڑی اور افضل ترین نعمت ہے ، وہ جسے چاہے یہ نعمت عنائت فرماتاہے۔
 جب محبت عاجزی ، انکساری سے عاری ہوتو وہ صرف زبانی جمع خرچ ہے؛ جسکی کوئی وقعت نہیں، یہی حال ہے ان محبت کے دعوے داروں کا جو اپنے دعوے کے مطابق اللہ کے احکامات کی پاسداری نہیں کرتے، اور نہ ہی اپنی زندگی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ، اور سنت کے مطابق ڈھالتے ہیں۔
 لہذا جس شخص نے اپنی زندگی میں آئیڈیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نا بنایا ؛ اس نے اللہ سے محبت ہی نہیں کی، اس طرح تو یہود و نصاری دعوے کیا کرتے تھے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں [المائدة: 18]
دعوی کرنے میں تو ہر کوئی شیر ہے، جبکہ اللہ تعالی نے ان تمام زبانی دعوں کی جڑ اکھیڑ کر رکھ دی ، اور سب پر حقیقت عیاں کردی فرمایا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ آپ کہہ دیجئے: کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے [آل عمران: 31]محبت ِ الہی کی علامت یہ ہے کہ ، اسکے نیک بندوں سے محبت کی جائے ، اولیاء اللہ سے تعلق قائم کیا جائے،مگر اسلامی اصولوں کے مطابق،  بدکاروں سے دوری اختیار کی جائے، فرائض کی ادائیگی میں مکمل جد و جہد کی جائے، اللہ کے دین کی مدد کرنیوالوں کا ہاتھ بٹایا جائے، جس قدر دل میں حُبِ الہی کی جڑیں مضبوط ہونگی یہ کام بھی اسی قدر زیادہ ہونگے۔
 یہاں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کونسے اسباب ہیں جو اللہ کی محبت دل میں پیدا کرتے ہیں؟
1) سب سے پہلے اللہ کی لا تعداد و بے شمار انعام کردہ نعمتوں کو جانیں، فرمانِ باری تعالی ہے : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گننا [١٩] چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ سکو گے [النحل: 18]، وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے [القصص: 77]
 2) اللہ کے اسماء و صفات کے بارے میں علم حاصل کیا جائے؛ جس نے اللہ کو پہچان لیا اس نے محبت شروع کردی، اور جو محبت شروع کر دے اسکی اطاعت بھی کریگا، اور جواسکی اطاعت کرے اس پر اپنی کرم نوازی بھی کریگا، اور جس پر کرم نوازی ہوگئی ؛ اسے اپنے قریب جگہ دے گا، اور جسے اللہ کے قریب جگہ مل جائے اسکے تو وارے نیارے ہونگے۔
3) اہم ترین سبب یہ ہے کہ اللہ کی آسمان و زمین پر بادشاہت اور ان میں موجود مخلوقات وغیرہ پر غور و فکر کیا جائے جنہیں اللہ تعالی نے اپنی قدرت، جلالت،کمال ، کبرئیائی، رحمت و لطافت کی نشانی بنایا ہے، غور و فکر کے باعث جتنا معرفتِ الہی میں اضافہ ہوگا؛ اسی قدر محبت سے بھرپور اطاعت میں بھی اضافہ ہوگا۔
4) اسی طرح اگر اللہ کے ساتھ تعلق مکمل سچائی اور اخلاص پر مبنی ہو اور نفسانی خواہشات انسان کی راہنما نہ ہوں تو اللہ کی محبت حاصل ہو سکتی ہے۔
5) کثرت سے ذکرِ الہی میں مشغول رہنے سے بھی اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ محبوب کی یاد محبت کی علامت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ غور سے سنو! اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے[الرعد: 28]اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...