Sunday 10 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،69


اسلام اور خانقاہی نظام

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے انسان کی زندگی کا مقصود اور اس کی کامیابی کا دارومدار ایمان اور عمل صالح کو قرار دیا ہے.اور ان دونوں چیزوں کی وضاحت کیلئے اپنی آیات بینات نازل فرمائی.جن کے بعد نہ کوئی ابہام باقی رہ جاتا ہے اور نہ شک و شبہہ,نبی اکرم ﷺکی زندگی اللہ تعالی کے احکام کی تشریح و تفسیر ہے,نبی اکرم ﷺکی زندگی میں اللہ تعالی نے اپنے دین کے مکمل ہونے کا اعلان فرما دیا:اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ،ترجمہ:آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت کا تم پر اتمام کر دیا اور اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند کر لیا (سورہ المائدہ:3)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس دن پر صحیح معنوں میں عمل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اس امت کی عزت و عظمت اور شان و شوکت خالص دین پر عمل کرنے میں مضمر ہے.جب ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور پهرآج کے مسلمانوں کے عقائد اور اعمال کو دیکهتے ہیں تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے .صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں نہ قبروں پر مزار تهے.نہ کوئی اہل قبور کے سامنے اپنی حاجات و مناجات رکهتا تها.نہ قبروں پر عرس و میلے اورتہوار تهے.ان کا زمانہ انسانی تاریخ کا سب سے بہتر زمانہ اور ان کا دور اسلامی تاریخ کا سب سے عظیم الشان دور تها.کائنات ارضی پر سب سے افضل قبر (نبی اکرم کا روضہ اطہر) ان کے قریب موجود تهی.مگر وہ سب صرف اور صرف اللہ تعالی کے سامنے دست سوال دراز کرتے تهے.اپنی مشکلات کے وقت صرف اور صرف اللہ تعالی کو پکارتے تهے، کبهی کسی صحابی نے آپ کی قبر پر آ کر اے اللہ کے رسول میری مدد کیجئے مجهے اولاد دیجئے وغیرہ نہیں کہا..سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کا مسلمان قبروں پر جو عبادت سرانجام دے رہا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیوں ان سے غافل رہے...؟پاکستان میں جگہ جگہ خود ساختہ ولیوں کی قبریں مشکل کشائی کا مرکز بنی ہوئی ہیں، تو صحابہ کرام نبی اکرم کی قبر اطہر پر مشکل کشائی کیلئے حاضری کیوں نہیں دیتے تهے..؟ ہمارا طرز عمل بہتر ہے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز زندگی ..؟حقیقیت یہ ہے کہ آج کا مسلمان اولیا ء کی عقیدت میں حد سے آگے نکل چکا ہے،اسے اس چیز کا ادراک ہی نہیں کہ محبت کے رنگ میں جو کچھ  کر رہا ہے ، وہ سراسر شرک ہے، قبروں پر جو کچھ کیا جا رہا ہے اس کا اللہ کے نازل کردہ دین اور نبی اکرم کی شریعت کے ساتھ دور کا بهی واسطہ نہیں.ہم اس سلسلہ میں اپنے قارئین کے سامنے جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ کسی عداوت کا نتیجہ نہیں بلکہ اپنے بهایئوں کی خیر خواہی کے جزبے سے پیش کر رہے ہیں.ہم سینکڑوں معبودوں کی غلامی سے نجات دلا کر ایک اللہ کی غلامی کی طرف لانا چاہتے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ یہ پیشانی صرف اور صرف اپنے خالق کے سامنے جهکے، دست سوال محض کائنات کے رب کے سامنے دراز ہو، ہم چاہتے ہیں کہ شیطان کے مکروفریب کے جال جو اس نے خانقاہی سلسلوں کی صورت اور درباروں کی شکل میں بچها رکهے ہیں ،انہیں اسی طرح کاٹ پهنکا جائے جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے لات و منات کی غلامی سے یہ کہہ کر نجات حاصل کی تهی:کہ ہم نے لات و عزٰی سب کو چهوڑ دیا اور عقلمند آدمی اسی طرح کرتا ہے.ان درباروں کا سب سے بڑا تحفہ شرک ہے.جس سے انسانیت کو بچانے کیلئے اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور یہ شرک بهی وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے کے بعد مسلمان اپنے آپ کو سعادت مند سمجهتا ہے، کیا مزاروں کا طواف نہیں ہو رہا...؟ جو صرف ایک اللہ کیلئے ہے، کیا اہل قبور کو سجدے نہیں ہو رہے ...؟ جو صرف اللہ کی الوہیت کو روا ہیں.کیا مال و جان کے نذرانے پیش نہیں ہو رہے...؟ جو صرف اللہ کیلئے خاص ہیں.دنیا  میں معمولی سا حکمران یہ گوارا نہیں کرتا کہ کوئئ دوسرا اس کے اختیارات میں مداخلت کرے ، اور اس کے ہم پلہ ہونے کا دعوی کرے .مگر ہم ہیں کہ مخلوق کو رب کائنات کے عرش پر بٹهانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے اختیارات کو اپنے تئیں غیروں میں بانٹ رہے ہیں یہ اللہ تعالی کی قدرت سے ٹکرانے والی بات نہیں تو اور کیا ہے...؟ میں ان بهایئوں سےکہنا چاہوں گا جو پاکپتن کے خود ساختہ دروازے کو بہشتی دروازہ سمجهتے اور اس سے گزرتے ہیں کہ اگر یہ آپ کے خیال کے مطابق واقعتا بہشتی دروازہ ہے تو سارا سال بند کیوں رہتا ہے...؟ اگر بہشتی دروازہ ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  تابعین رحمہ اللہ اور پوری چھ صدیوں کے لوگ اس سے گزرنے کی سعادت سے کیوں محروم رہے ...؟ یہ نبی اکرم کے زمانے میں کیوں نہیں بنایا گیا..؟ اگر یہ بہشتی دروازہ ہے تو کتاب و سنت میں اس کا ذکر کیوں نہیں آیا...؟ جہاں تک حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ء رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردہ  روایت کا تعلق ہے تو یہ نبی اکرم پر افتراء ہے یہ بہتان کس نے باندها ہےطاس جعلی روایت کا موجد کون ہے...؟اس کا تعلق تحقیق کے ساتھ ہے جو آئندہ کسی وقت انشاءاللہ منظر عام پر لائی جائے گی.البتہ تاریخ کی قدیم اورقابل ذکر کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ، وہ مصنفین جو اس روایت کو حضرت نظام الدین اولیاء کی طرف منسوب کرنے پر مصر ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ کسی ایسی کتاب سے حوالہ پیش کریں  جو حضرت نظام الدین اولیاء کی اپنی لکهی ہوئی ہو یا ان کے زمانے میں کسی نےلکهی ہو.بایں ہمہ محدثین کے اصول کے مطابق حدیث وہ ہے جست روایت کرنے والا صحابی ہو.کشف کے ذریعے سے دنیا میں ایک روایت بهی ایسی نہیں جس کو نبی اکرم کی حدیث کا درجہ دیا گیا ہو.قارئیں کرام! فتنہ و فساد اوربدعات و خرفات کے ہنگاموں میں ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا ہو کر حیلوں بہانوں سے جنت کی خواہش نہیں کرنی چاہیئے بلکہ اپنے ایمان اور عمل صالح کے اس راستے پر چل کر اللہ تعالی کی جنت کو تلاش کرنا چایئے جس راستے پر امام کائنات نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الوداع کہا تها.جو شخص اللہ کا فرمانبردار بن کر اس دنیا میں رہے گا وہ مرنے کے بعد جنت میں داخل ہوگا.اور جو نا فرمان بنے گا وہ اللہ کا کوئی نقصان نہ کرے گا بلکہ اپنے آپ کو جنت سے محروم کر لے گا.شیطان جس نے آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی (ہماری اماں)کو جنت سے نکلوایا تها'اسے ہر گز یہ گوارا نہیں کہ اولاد آدم گم کردہ جنت کو حاصل کر لے چنانچہ اس نے مکروفریب کا ایک ایسا جال پهیلا رکها ہے کہ انسان اس میں بری طرح پهنس کر اللہ کی رحمت   سے دور ہو جائے.اور جنت میں داخل نہ ہو سکے.انسان کی جلد باز طبیعت سے پورا پورا فائدہ اٹهاتے ہوئے شیطان نے اسے ایک دهوکہ یہ بهی دیا کہ وہ شریعت کی پابندی کیے بغیر موت آنے سے قبل بهی جنت میں داخل ہو سکتا ہے، وہ شخص جس پر شریعت کا التزام اور حلال و حرام کی پابندیاں گراں گزرتی ہوں اسے بهلا اور کیا چاہیئے چنانچہ اس کرہ ارضی پر ایسے لوگ بهی آئے ہیں جنہوں نے اس دارفانی میں جنت بنائی اور اسے اپنے مزموم و مقاصد کیلئے استعمال کیا مگر ان کے دجل و فریب کی قلعی جلد کهل گئی، اب شیطان نے یہ راہ دکھائی کہ جنت بنانے کی بجائے ایک ایسا جنتی دروازہ بنا لیا جائے جس میں سے بلاتفریق مذہب گزرنے والا ہر شخص جنتی بن جائے ،اس  طرح ایک تیر سے دو شکار کیے گئے ،ایک طرف تو دین اسلام کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی گئی کہ غیر مسلم بھی مذکور دروازے سے گزر کر جنت میں جا سکتے ہیں ،دوسری طرف مسلمانوں کے بے عملی اور شرک کی راہ پر لگادیا گیا،
جار ی ہے۔۔۔۔۔
بشکریہ :فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...