Saturday 30 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,89


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر89)
۔مائی جو گوٹھ :یہ ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ایک گائوں ہے۔ اس کے نام کی وجہ ایک مائی ہے جو منتیں مانگنے والوں کو دھاگوں پر پھونک کر انہیں گنڈے دیا کرتی تھی تاکہ انکی مرادیں پوری ہو جائیں۔حالانکہ یہ سادہ لوح سیاح یہ نہیں سوچتے کہ اس مائی نے اپنی غریبی اور لا چاری  دور کرنے کے لئے کوئی گنڈا کیوں نہیں بنالیا۔
اور اب اندهیرا چها رہا تها اور اب خوف کا ماحول بن رہا تها دور دور تک کوئی روشنی بهی نظر نہیں آ رہی تهی .....  شاید اسی خوف کی بنا پرماضی اور حال کے لوگ شرک کی جانب مائل ہوئے۔ انہوں نے بزرگوں، روحوں، قبروں اور دیگر پر اسرار چیزوں کو طاقت کا منبع سمجھا اور ان کو خوش کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ اندیکھی ارواح انہیں ان جانے خطرات سے محفوظ کرسکیں۔ چونکہ اللہ کا وجود نظروں سے اوجھل تھا لہٰذا لوگ اس مفروضے پر مبنی دیومالا میں الجھ کر رہ گئے ۔ حالانکہ اللہ ان کی رگ جاں سے بھی زیادہ قریب تھا اور وہ اگر اس کو پکارتے تو اپنی مرادیں پالیتے۔ بہرحال میں نے تو تنہا رب ہی کو پکارا کہ مجھے اس خوف سے نجات دے اور اس نے  میری مدد کی۔ اور وہ وقت بھی کٹ گیا یہاں تک کہ صبح ہوئی اور جان میں جان آئی۔
لاہوت لامکاں“لاہوت لامکاں “ہماری اگلی منزل تھی۔لاہوت لامکاں تصوف کی ایک مشہور اصطلاح ہے جس کا مطلب اس مادی دنیا سے ماورا ایک ایسی روحانی دنیا ہے جہاں وقت اور مکان نہیں ہوتا ۔لیکن بہرحال نورانی میں یہ ایک بڑےسے غار کا نام ہے جہاں مقامی لوگوں کی کئی زیارتیں ہیں جو انکی روایات کے مطابق نورانی بابا اور دیگر بزرگوں سے منسوب ہیں۔اور ان تمام مقامات پر شرک و خرافات عام ہیں...
 ۔جب ہم ایک بڑهی سی غار میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں ڈھلان میں ایک طویل اور تنگ سی سرنگ تھی جو غار سے باہر جانے کا متبادل راستہ تھا۔سرنگ کی تنگی کی بنا پر اس میں سے ایک آدمی بھی بمشکل نکل پاتا۔اس کے بارے میں بھی یہ روایت مشہور تھی کہ جو کوئی اس میں داخل ہو اور نکل جائے تو وہ اپنے ماں باپ کی جائز اولاد ہے اور اگر کوئی پھنس جائے تو وہ ناجائز اولاد  ہے۔سب سے دلچسپ چیز ایک چھوٹا سا پتھر کا ٹیلا تھا ۔ اس کو دیکھ کر یوں لگتا گویا کہ کوئی اونٹ بیٹھا ہو۔ اس کا اگلا حصہ اونٹ کے منہ سے مشابہ تھا جس پر اصلی اونٹ کی کی طرح کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔اس کا پچھلا حصہ ایک بیٹھے ہوئے اونٹ کے دھڑ سے ملتا جلتا تھا ۔ لوگو ں کی روایت کے مطابق یہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی تھی جو پتھر کی بن گئی تھی۔ لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ کہ حضرت صالح علیہ السلام تو عرب کے علاقے میں تھے وہ اور انکی اونٹنی یہاں کس طرح آ گئی۔شاید وہاں موجود لوگوں کو اس قسم کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ ان میں سے کوئی  چراغ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور کوئی اونٹنی کے سامنے عجز کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ یہ سب کچھ روایات پر مبنی تھا۔ لیکن کسی کو جاننے کی فرصت نہ تھی کہ حقیقت تک پہنچ جائے اور دیکھے کہ وہ درست کر رہا ہے یا غلط۔ ۔اس غلطی میں شاید  ان پڑھ لوگوں کا اتنا قصور نہ تھا جتنا مذہبی طبقے اور مصلحین کا تھا۔ ان راہنمائوں کی مجرمانہ خاموشی اور اصلاح میں غفلت کی بنا پر معاملات اس نہج تک پہنچ گئے تھے۔ماضی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت قریش کا یہی استدلال تھا کہ ہم ان صدیوں سے رائج رسوم و رواج اور شرک کی علامات کو کیسے چھوڑ دیں جبکہ ہم نے ان پر اپنے آبا و اجداد کو ان پر چلتے ہوئے پایا ہے۔ان سے پوچھا جاتا کہ اگر آبا و اجداد اور بڑے بزرگان غلط تھے تب بھی کیا باطل کی پیروی کی جائے گی؟۔ تو اس بات کا جواب ان کے پاس کچھ نہ ہوتا سوائے ہٹ دھرمی کے۔ آج ہمارے مذہبی حلقوں میں بھی یہ آبا پرستی پوری طرح سرایت کر گئی ہے۔ آج رسم و رواج کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے دین کو بدعات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس کی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ اگر یہ کام غلط تھا تو فلاں بزرگ نے کیوں کیا؟۔غار میں ایک مقام پر صفیں بچھی ہوئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ نماز پڑھنے کی جگہ ہے لیکن کسی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور لوگ اس کونے میں رش لگا کر کھڑے تھے جہاں نورانی بابا نے چلہ کاٹا تھا۔ یعنی اللہ سے زیادہ اللہ کے بندے کی اہمیت ہو گئی تھی۔ قریش کے لوگ بھی جب اپنی کھیتی یا گوشت نذر کرتے تھے تو کچھ حصہ اپنے شرکا اور کچھ حصہ اللہ کے لئے نکالتے تھے۔ اگر تولتے وقت اس میں سے کچھ نیچے گر جاتا تو وہ کسی کا بھی ہو، اسے شریکوں کے حصے میں شامل کردیا جاتا تھا ۔ یعنی اللہ پس پشت اور اس کے فرضی شرکا ء زیادہ اہم ہوگئے تھے۔
اب لوگوں کی تعداد میں  آہستہ آہستہ اضافے کی بنا پر گھٹن بڑھ رہی تھی۔اور اب ہم نے واپس   آنے کیلئے سفر شروع کیا واپسی کا سفر بهی کافی دشوار تها البتہ لوگوں کے مسلسل چلنے کی وجہ سے زمین پر مخصوص نشان بنے ہوئے تهے. چنانچہ لوگ انہی نقش قدم پر چلتے ہوئے  اپنی منزل تک پہنچنے میں رواں دواں تهے ۔ زندگی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگر آپ پیغمبروں کے نقش قدم پر چلیں گے تو منزل تک پہنچ جائیں گے جبکہ ابلیس کی شاہراہیں جہنم کے دہانے پر پہنچا دیتی ہیں۔
بہرحال کافی مشکل اور تهکان کے ساتھ ہم  بسوں کے اڈے تک پہنچ گئے۔شام پانچ بجے روانہ ہونا تھا اور اس وقت ڈھائی بج رہے تھے۔ہم نے نماز پڑھی۔ واپسی کا سفر کچھ اچھا نہ تھا کیونکہ تھکان بہت زیادہ تھی۔ اسی لئے وہ مناظر جو آتے ہوئے دل کو بھا رہے تھے جاتے وقت اچھے نہیں لگ رہے تهے۔ وقت وقت کی بات ہے کبھی آدمی کسی چیز پر فدا ہوتا ہے لیکن بعد کے حالات اس کی دلچسپی کو ختم کر دیتے ہیں۔ہم نے اس رب کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں خیریت کے ساتھ یہ سفر اور ایڈوینچر طے کروایا۔ اللہ کا بے پایاں شکر ہے کوئی رسمی شکریہ نہیں بلکہ یہ اپنی کمزوری، کم علمی اور بے بسی کا درست ادراک ہے اس ہستی کے سامنے جو طاقت کی مالک ہے، جو علم کا منبع ہے ، جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ اسکی مدد نہ ہوتی تو ہم وہیں پہاڑیوں میں بھٹکتے ہوئے فنا ہو جاتے، پہاڑوں سے پھسل کر ہڈیاں تڑوا لیتے۔ وہ اللہ ہی ہے جو تمام تعریفوں کے لائق ہے کیونکہ ہر بھلائی اور اچھائی اسی کی جانب سے ہے۔سبحان اللہ و الحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر......
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...