Sunday 23 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ

*تصوف اور ناقدین' تقابلی مطالعہ
(قسط نمبر 3 )
تصوف کی اصطلاحات
مناسب ہو گا کہ آگے بڑھنے سے پہلے ہم اہل تصوف کی چند اصطلاحات کا معنی بیان کر دیں تاکہ بعد کی بحثوں میں ان کا مفہوم سمجھنے میں مشکل نہ ہو۔
سیر: سفر ، نقل و حرکت یا پراگریس۔ اہل تصوف کے نزدیک "سیر" انسان کی اس سفر میں پراگریس کا نام  ہے، جو اللہ تعالی کی جانب ہو۔ اسی کو "راہ سلوک" بھی کہا جاتا ہے۔ تصوف وہ فن ہے جس کی مدد سے یہ سفر طے کیا جاتا ہے۔
سالک: راہ سلوک پر چلنے والا۔ وہ شخص جو اللہ تعالی کی جانب سفر کرنے کا عزم کرے۔
مرشد: راہ سلوک میں راہنما۔ اسے ہماری عام زبان میں "پیر" یا "شیخ" بھی کہا جاتا ہے۔
مرید: وہ شخص جو راہ سلوک پر چلنے کے لیے کسی  مرشد کی راہنمائی حاصل کرنے کے اس کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ اسے تصوف کی زبان میں "مسترشد" بھی کہا جاتا ہے جس کا معنی ہے ہدایت کا طالب۔
بیعت: بیعت کا لفظی معنی ہے بیچنا۔ اصطلاحی مفہوم میں اس کا مطلب ہوتا ہے کسی کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا جس میں  اس کی حمایت کا عزم کیا گیا ہو۔ اہل تصوف کی اصطلاح میں بیعت اس معاہدے کو کہتے ہیں جس میں ایک مرید، اپنے پیر کے ساتھ یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس کی پیروی کرے گا جبکہ پیر اس سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ راہ سلوک میں اس کی راہنمائی کرے گا۔ اس طرح مرید ، گویا خود کو پیر کے ہاتھوں بیچ دیتا ہے۔
صحبت: ساتھ رہنا۔ اہل تصوف کے نزدیک اس کا مطلب صوفی حضرات کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔
خانقاہ: یہ ایک تربیت گاہ یا ادارہ ہوتا ہے جہاں ایک صوفی شیخ اپنے مریدین اور سالکین کی تربیت کرتا ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں جو خانقاہیں بنیں، ان میں مسجد، مزار اور  رہائشی کمرے موجود ہوتے تھے۔ ہر خانقاہ کا خاص حصہ لنگر ہوا کرتا تھا جو کہ ہر خاص و عام کے لیے جاری ہوتا اور کوئی بھی  شخص یہاں آ کر کھانا کھا سکتا تھا۔ اب بھی متعدد خانقاہیں پائی جاتی ہیں  مگر ان میں تربیت کا وہ سلسلہ اور معیار نہیں رہا جو قرون وسطی کی صوفی خانقاہوں میں ہوا کرتا تھا۔ عربوں کے ہاں خانقاہ کو "رباط" کہا جاتا ہے جبکہ شمالی افریقہ میں اس کا نام "زاویہ" ہے۔
شریعت: دین کے وہ احکام جو ظاہر و باطن دونوں کے لیے ہیں۔
طریقت: شریعت کے علاوہ وہ اضافی طریقے جن کے ذریعے  اللہ تعالی تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ان میں اذکار و اوراد، وظائف، مراقبہ وغیرہ شامل ہے۔
حقیقت: دل پر بعض اعمال اور اشیاء سے متعلق حقائق کے انکشاف کو حقیقت کہا جاتا ہے۔
معرفت: خدا اور بندے کے درمیان تعلق کا ادراک۔
ان کے علاوہ اہل تصوف کی متعدد اصطلاحات ہیں، جن کی تفصیل ہم اپنے اپنے مقام پر بیان کریں گے۔
تصوف کا مقصد:
اہل تصوف ، تصوف کا مقصد وہ بیان کرتے ہیں جو قرآن کریم کی ان آیات کریمہ میں بیان ہوا ہے:
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا (7) فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (8) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا (10)
نفس کی قسم اور اس [اللہ] کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس نے اس کی برائی اور اس کا تقوی اس کی جانب الہام کر دیا۔ جس نے اسے پاکیزہ کر لیا، وہ فلاح پا گیا اور جس نے اسے دبا دیا، وہ نامراد ہوا۔  (الشمس)
اہل تصوف کا کہنا یہ ہے کہ اسی نفس انسانی کو سنوارنے اور اس کا تزکیہ کرنے کا نام تصوف ہے۔ تمام دینی احکام کے دو پہلو ہوتے ہیں: ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔ مثال کے طور پر زکوۃ کو لیجیے۔ ایک اس کا ظاہری پہلو ہے جس میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کب دینی ہے؟ کتنی دینی ہے؟ کس مال پر زکوۃ عائد ہو گی اور کس پر نہیں؟ ان سب سوالات کا جواب "علم الفقہ" میں ملتا ہے۔ زکوۃ کا باطنی پہلو یہ ہے کہ زکوۃ خالصتاً اللہ تعالی کے لیے دی جائے۔ اس میں دکھاوا نہ ہو اور نہ ہی جس شخص کو مال دیا جائے، اسے ذلیل کیا جائے۔  اہل تصوف کا کہنا یہ ہے کہ اس باطنی پہلو کی اصلاح "علم التصوف" کا کام ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے صوفی بزرگ سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں:
حقیقت میں کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ظاہراً کرنے کے ہوتے ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ۔ اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو کہ دل کے اعمال ہوتے ہیں جن کا پتہ کسی اور کو نہیں چلتا اس کا پتہ صرف اللہ تعالیٰ کو یا کرنے والے کو ہوتا ہے اور ان ہی اعمال پر ظاہری اعمال منحصر ہوتے ہیں۔اگر کسی کے یہ دل والے اعمال درست نہ ہوں تو چاہے اس کے ظاہر کے اعمال کتنے ہی درست ہوں وہ قبولیت کا درجہ نہیں پاتے۔ یا بعض دفعہ یہ ظاہری اعمال ان باطنی اعمال کی خرابی کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ان باطنی یعنی دل کے اعمال کا درست کرنا بھی ضروری بلکہ اشد ضروری ہوا۔ پس وہ طور طریقے اختیار کرنا جن سے یہ دل والے اعمال درست ہوجائیں تصوف کہلاتا ہے۔ شریعت کے طور طریقوں کو چونکہ فقہ بھی کہتے ہیں لہٰذا ان معنوں میں تصوف کو فقہ الباطن بھی کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔
اس کو کوئی زہد کہہ دے یا تقویٰ، احسان کہہ دے یا تصوف، اس میں کام دلوں کی صفائی کا کیا جاتا ہے۔دل میں کان ،زبان ،ناک اور ذہن کے ذریعے ہر دم جو آلودگیاں آتی ہیں ان کا تدارک اور تلافی کی جاتی ہے ،انسان کو انسان اور مسلمان کو مسلمان بنایا جاتا ہے۔دلوں سے تکبر ،عجب، حسد ،کینہ ، ریا ء،بدگمانی ،خود پسندی وغیرہ کو نکال کر اس میں تواضع ،مسکینی ،اخلاص، نیک گمانی، تفویض، توکل اور خو د احتسابی پیدا کی جاتی ہے۔دوسرے لفظوں میں انسان کے دل کو مادہ پرستی سے نکال کر خداپرستی کی طرف ڈالا جاتا ہے۔اس کو ہر دم یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تو کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا ہے؟ اور جہاں جانا ہے وہاں کیا ہوگا اور اس کے لئے کیا کرنا ہے ؟بس کرنا تو وہی شریعت کی اتباع ہے کہ ہمیں اسی کے لئے تو پیداکیا گیا ہے لیکن تصوف میں اس پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔
سادہ الفاظ میں فاضل مصنف کے نزدیک تصوف کا معنی ہے، انسانی شخصیت میں موجود چھپی ہوئی برائیوں سے اسے پاک کرنا اور اس میں موجود نیکیوں کو نشوونما دینا۔ اسے قرآن مجید میں "تزکیہ نفس" کا نام دیا گیا ہے اور اسی کو دین اسلام  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔
تزکیہ نفس کے مفہوم  میں غیر صوفی اور صوفی علماء کے مابین کچھ فرق پایا جاتا ہے۔ غیر صوفی علماء کے نزدیک "تزکیہ نفس" سے مراد اپنی اصلاح کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے قلب کو برائیوں سے پاک کر کے ان میں نیکیوں کو نشوونما دے۔ اس کے برعکس  صوفی بزرگوں کے نزدیک ، "تزکیہ نفس" صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں آگے ہے۔
صوفیاء  کے نزدیک تصوف ایک سفر ہے جو کہ اللہ تعالی کی طرف ہے۔ اسے وہ "سیر الی اللہ" کے عنوان سے تعبیر کرتے ہیں جس کا مطلب ہے "اللہ کی جانب سفر"۔  عربی میں "سیر" نقل و حرکت، سفر  یا آگے بڑھنے (Progression) کو کہتے ہیں۔ اس سیر کے دوران سالک (یعنی سفر کرنے والا) اپنے مرشد کی نگرانی میں اپنا تزکیہ نفس کرتا ہے اور  ایسا کرتے ہوئے  وہ ایک خاص مقام پر  پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ "سیر فی اللہ" کہلاتی ہے یعنی "اللہ میں سفر"۔ اس کی کوئی حد ان کے نزدیک مقرر نہیں ہے۔اس مقام پر پہنچ کرسفر کرنے والا، جو کہ "سالک" کہلاتا ہے، اللہ تعالی کے انوار و تجلیات کا براہ راست مشاہدہ کرتا ہے۔   یہ سیر، صوفی حضرات کے نزدیک تزکیہ نفس کے مفہوم میں داخل ہے۔سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں:
سیر الی اللہ کے بعد قلب کے اندر تزکیہ اور تقویٰ سے ایک خاص جلاء اور نور پیدا ہوتا ہے اور سالک برابر قلب کو ماسواء اللہ [یعنی جو کچھ اللہ کے سوا ہے] سے فارغ کرتا رہتا ہے تو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال نیز حقائق کونیہ [یعنی کائنات کی حقیقتیں] اور حقائق اعمال شرعیہ [یعنی شرعی احکام کی حقیقتیں] سالک کے دل پر منکشف ہوجاتے ہیں، جس سے اس کا خالق کے ساتھ قرب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وہ عین الیقین [یعنی دیکھ کر یقین کرنا] سے حق الیقین [یعنی تجربہ کر کے یقین کرنا] تک سفر کرتا رہتا ہے۔ اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں جتنا حصّہ جس نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی استعداد کے مطابق پایا وہ اس کا حصّہ ہے۔موت تک سالک کی یہ سیر جاری رہتی ہے اور تفرید [کسی چیز کو اپنی طرف منسوب نہ کرنا] اور تجرید [دنیاوی و اخروی اغراض کو ترک کر دینا] کے ذریعے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے۔اس میں چاہے شیخ سے مرُید بڑھ جائے،یہ بھی ممکن ہے۔
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...