Sunday 23 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ



*تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ*
(قسط نمبر 4)
صوفی سلسلے:
تصوف میں پیر اور مرید کا رشتہ اساسی نوعیت کا حامل ہے۔ اہل تصوف کے نزدیک  نسبت اور تعلق کی اہمیت بہت زیادہ ہوا کرتی ہے۔ ایک مرید اپنے مرشد سے وابستہ ہوتا ہے، وہ اپنے مرشد سے، اور وہ اپنے مرشد سے۔ اس طرح یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے۔ اسے تصوف کی اصطلاح میں "سلسلہ" کہا جاتا ہے۔ ہر سلسلے کو اپنے کسی مشہور بزرگ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے صوفیاء میں زیادہ تر چار سلسلے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور سلسلہ چشتیہ ہے جو خواجہ معین الدین چشتی (535-627/1141-1230)سے منسوب ہے۔ اس کے علاوہ نقشبندی، قادری اور سہروردی سلسلے بھی پائے جاتے ہیں جو بالترتیب خواجہ بہاء الدین نقشبند(717-791/1318-1389)، شیخ عبدالقادر جیلانی (470-561/1077-1166) اور شیخ شہاب الدین سہروردی (543-632/1148-1234) سے منسوب ہیں۔چشتی، قادری اور سہروردی سلسلوں کا کہنا یہ ہےکہ وہ  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے اپنا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قائم کرتے ہیں جبکہ نقشبندی سلسلہ کے شیوخ کا موقف یہ ہے کہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وساطت سے ایسا کرتے ہیں۔ یہی سلسلہ وسطی ایشیا اور ترکی میں بھی پھیلا ہوا ہے۔
ان میں سے ہر سلسلے کی پھر متعدد شاخیں ہیں۔ مثلاً چشتی سلسلے کی دو بڑی شاخیں ہیں جو صابری اور نظامی کہلاتی ہیں۔ صابری، شیخ صابر کلیری  (592-690/1196-1291)سے اور نظامی حضرت نظام الدین اولیاء  (635-725/1238-1325) سے منسوب ہیں۔ نقشبندی سلسلے کی مشہور ترین شاخ مجددی ہے جو شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجدد الف ثانی (971-1034/1564-1624)سے منسوب ہے۔ برصغیر کے زیادہ تر نقشبندی حضرات کا تعلق مجددی شاخ سے ہوتا ہے۔ وسطی ایشیا میں اس کی اور شاخیں بھی پائی جاتی ہیں۔
جنوبی ایشیا سے باہر متعدد سلسلے پائے جاتے ہیں جن میں رفاعی، شاذلی، تیجانی، بختاشی،  مولوی، سنوسی، تیجانی، نعمت اللہی، قلندری، نور بخشی سلسلے مشہور ہیں۔ شام، لبنان، کویت  اور مصر میں بالعموم رفاعی اور شاذلی  سلسلے زیادہ پھیلے ہوئے ہیں۔  ترکی میں زیادہ تر مولویہ سلسلہ پایا جاتا ہے جو مولانا روم  (603-671/1207-1273) سے منسوب ہے۔ شمالی افریقہ میں سنوسی  اور تیجانی ،  ایران میں نعمت اللہی، مشرقی یورپ میں بختاشی اور انڈونیشیا میں  نقشبندی اور قادری سلسلے زیادہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں بعض سلسلے، مشہور سلسلوں ہی کی شاخیں ہیں۔
ان معروف سلسلوں کے علاوہ ایک سلسلہ اویسیہ بھی ہے جس میں شامل شیوخ کا کہنا یہ ہے کہ وہ  براہ راست حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی روح سے فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں جو کہ ایک تابعی بزرگ تھے۔ دیگر سلسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد بالعموم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اویسی سلسلے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک مرید ، صدیوں پہلے کے کسی شیخ سے براہ راست تعلق قائم کرنے کا دعوی کر سکتا ہے جبکہ باقی سلسلوں میں یہ ضروری ہے کہ مرید کسی ایسے شیخ سے تعلق رکھے، جو اس کے زمانے میں موجود ہو۔
ان صوفی سلسلوں میں تصوف کے بنیادی مقاصد کے بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ بعض امور جیسے اوراد و اشغال، ذکر کے طریقے اور روحانی مشقوں کے بارے میں ان میں کچھ فرق پائے جاتے ہیں مگر ان تمام سلسلوں کےلوگ دوسرے سلسلوں کا احترام کرتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ اپنے اپنے سلسلوں ہی کو سب سے افضل سمجھتے ہیں۔اور اسی کے متعلق تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں-
تصوف کے مآخذ اور امہات کتب:
اہل تصوف کی غالب اکثریت کا موقف یہ ہے کہ  ان کے عقائد و نظریات اور اعمال کا ماخذ قرآن و سنت ہی ہے۔ اس کے علاوہ صوفیاء، سابق صوفی بزرگوں کی کتب ، حالات زندگی، واقعات، عمل اور ملفوظات (اقوال) کو بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
صوفیاء کے ہاں کتابیں لکھنے کا رواج کم ہی رہا ہے تاہم بعض بڑے صوفی بزرگوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان میں سے بعض کتب کو امہات فن (یعنی کسی فن کی اساسی کتب) کا مقام حاصل ہے۔ ان میں سے مشہور یہ ہیں:
قوت القلوب
یہ چوتھی صدی ہجری کے بڑے صوفی بزرگ ابو طالب مکی (d. 386/996) کی تصنیف ہے۔ مصنف نے  اس کتاب کو قُوت القلوب یعنی دلوں کی غذا قرار دیا ہے۔ کتاب کے شروع کے ابواب میں فاضؒ مصنف نے تفصیل سے صوفیاء کے اشغال کا ذکر کیا ہے جن میں نفلی نمازیں، روزے، ذکر اور اوراد شامل ہیں۔ بعد کے ابواب میں انہوں نے صوفیانہ سفر کے مقامات، مراقبہ، عقائد، گناہ کبیرہ، شریعت کی پابندی، اخلاص، ترک دنیا وغیرہ جیسے امور پر روشنی ڈالی ہے۔  آخری ابواب میں انہوں نے دنیاوی زندگی کے اہم امور پر بحث کی ہے جن میں شادی، حمام میں نہانا، خرید و فروخت اور حلال و حرام سے متعلق معاملات شامل ہیں۔ یہ کتاب تصوف کی بنیادی کتب میں سے ایک ہے۔
رسالہ قشیریہ
یہ پانچویں صدی ہجری کے ایک بہت بڑے صوفی بزرگ ابو القاسم القشیری (376-465/986-1072) کی تصنیف  ہے۔  انہوں نے کتاب کا آغاز توحید کے مباحث سے کیا ہے، پھر شریعت کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور اس کے ضمن میں بہت سے صوفی بزرگوں کے احوال درج کیے ہیں جنہوں نے شریعت کو اپنی زندگی میں اہمیت دی۔ اس کے بعد ایک باب میں انہوں نے تصوف کی اصطلاحات کی شرح و وضاحت کی ہے۔ بعد کے ابواب تزکیہ نفس سے متعلق ہیں جن میں توبہ، مجاہدہ، تقوی، زہد، خوف، رجاء، حسد، غیبت، توکل،فنا ،بقا ،قبض ،بسط ،وقت ،حال ،وجد ،وجود ،بے خودی ،اثبات ،تجلی ، محاضرہ ،کشف ،تکوین ،حقیقت وغیرہ سے متعلق ابواب ہیں۔ کتاب کے آخر میں  انہوں نے اہل تصوف کے آداب بیان کیے ہیں جن میں فقر، ترک دنیا، سماع، کرامات اور شیوخ کے ساتھ تعلق سے متعلق مباحث شامل ہیں۔ یہ کتاب فن تصوف میں بنیادی کتاب مانی جاتی ہے۔
کشف الْمحجوب
یہ لاہور میں مدفون مشہور بزرگ حضرت علی ہجویری (c. 379-465/990-1072) کی تصنیف ہے جو کہ داتا گنج بخش کے لقب سے مشہور ہیں۔ اصل کتاب فارسی زبان میں ہے۔ یہ تصوف کی مشہور ترین کتب میں سے ایک ہے اور اس میں وہ تمام امور زیر بحث لائے گئے ہیں جن کی ایک صوفی کو ضرورت پڑتی ہے۔
منازل السائرین
یہ عبداللہ انصاری الہروی (d. 481/1088) کی تصنیف ہے جو کہ شرعی علوم کے ایک بڑے عالم تھے اور شیخ الاسلام کے منصب پر فائز تھے۔  مصنف نے کتاب کو دس حصوں میں تقسیم کیا ہے جن کے لیے وہ "قسم" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ کتاب کا آغاز "قسم البدایہ" نامی حصے سے ہوتا ہے جس میں مصنف توبہ، محاسبہ، تفکر، ریاضت، ذکر جیسے مباحث زیر بحث لائے ہیں۔ دوسرے حصے "قسم الابواب" میں مصنف حزن، خوف، خشوع، زہد جیسےمعاملات پر بحث کرتے ہیں۔ پھر "قسم المعاملات" ہےجس میں مراقبہ، اخلاص، استقامت اور توکل جیسے مضامین پر گفتگو ہے۔ اس کے بعد "قسم الاخلاق" ہے جس میں صبر، شکر، حیاء، صدق، تواضع وغیرہ بیان کیے گئے ہیں۔  بقیہ اقسام میں متعدد نفسی امور زیر بحث آئے ہیں۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ بعض ناقدین تصوف کے ہاں بھی مقبول رہی ہے اور مشہور ناقد تصوف علامہ ابن قیم (691-751/1292-1350) نے اس کی شرح "مدارج السالکین" کے نام سے لکھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شیخ ہروی، علوم شرعیہ کے بھی بہت بڑے عالم تھے۔
احیاء العلوم الدین
یہ مشہور ترین صوفی عالم ، ماہر نفسیات اور فلسفی امام غزالی (450-505/1058-1111)کی تصنیف ہے اور اس درجے کی تصنیف ہے کہ بعد کی صدیوں میں پورے ایک ہزار برس تک امت مسلمہ کے ذہین ترین افراد کے طرز فکر پر یہ کتاب چھائی رہی ہے۔ مصنف ایک اعلی درجے کے ماہر نفسیات تھے، اور ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے انسانی نفسیات سے متعلق اپنے علم کو تزکیہ نفس کے لیے استعمال کیا ہے۔ بعد کے صوفی حلقوں میں جہاں جہاں علم نفسیات کو تزکیہ نفس کے لیے استعمال کیا گیا، اس کی بنیاد اسی کتاب میں ملتی ہے۔ اس کتاب میں غالباً پہلی مرتبہ کسی مصنف نے دین اسلام کو ایک مکمل  عقلی نظام کے طور پر پیش کیا۔
فاضل مصنف اپنی کتاب کا آغاز علم کی اہمیت سے کرتے ہیں اور اس سے متعلق مباحث کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسلامی عقائد پر گفتگو کرتے ہیں۔ پھر دین کے ایک ایک حکم جیسے نماز، زکوۃ وغیرہ کو لے کر نہ صرف ان کے احکام بیان کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے اسرار اور حکمتیں بیان کرتے ہیں۔  کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کی علمی تاریخ میں غزالی غالباً پہلے عالم ہیں جنہوں نے احکام کی عقلی حکمتوں اور وجوہات کو باقاعدہ موضوع بنا کر اس پر کتاب لکھی۔  اس کے بعد مصنف اپنی کتاب کو فقہ کی کتابوں کے ابواب پر ترتیب دیتے ہوئے زندگی کے ہر ہر گوشے سے متعلق ایسی ہی تفصیلات بیان کرتے چلے جاتے ہیں جن میں نماز، زکوۃ، روزہ، حج، نکاح و طلاق، امر بالمعروف، تجارت، معیشت، سیاست، حکومت، احتساب، خور و نوش وغیرہ  تمام معاملات شامل ہیں۔  یہ موضوعات کتاب کی پہلی دو جلدوں پر محیط ہیں۔ مصنف نے ان امور سے متعلق محض فقہی مسائل ہی بیان نہیں کیے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ان کے فلسفہ، علم مکاشفہ روح اور ان کی اخلاقی حدود و قیود پر بھی بحث کی ہے۔ اس اعتبار سے اس کتاب کا درجہ فقہ کی عام کتابوں سے کہیں بلند ہے۔
کتاب کا تیسرا حصہ  غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور نفسیات  سے متعلق مصنف کے علم کا شاہکار ہے۔ مصنف نہایت تفصیل کے ساتھ قلب انسانی کی بیماریوں کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کا علاج تجویز کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس میں وہ تفصیل سے ان روحانی امراض پر بھی گفتگو کرتے ہیں جن میں  ان کے دور کے مذہبی علماء گرفتار تھے۔ ان امراض میں تکبر، حسد، غیبت، اقتدار کی خواہش، مال کی محبت، ریاکاری وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ معاشرے کے دیگر طبقات جیسے امراء و سلاطین، تاجروں وغیرہ میں پائی جانے والی بیماریوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان روحانی امراض کے بیان تک ہی خود کو محدود نہیں رکھتے بلکہ ان امراض کی نفسیاتی وجوہات، علامات، اثرات اور نتائج سبھی پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں۔ کتاب کا چوتھا حصہ انسانی شخصیت میں مثبت قوتوں کے فروغ سے متعلق ہے۔ ان میں صبر، شکر، خوف خدا، امید، زہد، توکل، اخلاص، محاسبہ اور غور و فکر جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
احیاء العلوم کو جہاں علمی حلقوں میں غیر معمولی فروغ حاصل ہوا، وہاں اس پر شدید تنقید بھی ہوئی۔جس کی تفصیل آگے آئے گی، غزالی کے بعض ہم عصر علماء نے تو ان پر کفر کا فتوی تک عائد کیا۔ تاہم بعد میں یہ رجحان کم ہوا اور اس کتاب کو اس درجہ کی مقبولیت عامہ حاصل ہوئی کہ یہ مسلمانوں کی فکری قیادت کے دل و دماغ پر ایک ہزار برس سے چھائی رہی ہے۔  احیاء پر یہ اعتراض اب بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں بہت کثیر تعداد میں ایسی احادیث موجود ہیں جنہیں محدثین نے "ضعیف" یعنی غیر مستند قرار دیا ہے۔ان میں بعض روایات "موضوع" یعنی جعلی بھی ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض طالع آزماؤں نے اس میں کئی عبارات اپنی طرف سے ملا دی تھیں جس کے نتیجے میں کتاب میں بعض تضادات پیدا ہو گئے ہیں۔  اس کی مثال جلد دوم میں حلال و حرام کی بحث ہے۔ ایک جانب غزالی مشتبہ مال سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بیان کر دیتے ہیں کہ وسوسوں سے بچنا چاہیے اور ان کی بنیاد پر وہم میں نہیں پڑ جانا چاہیے۔ دوسری  طرف وہ بعض بزرگوں کے ایسے واقعات کو بطور آئیڈیل بیان کرتے ہیں جو خود اس قسم کی وسوسوں کا شکار تھے۔
عوارف المعارف
یہ سہروردی سلسلہ کے امام شیخ شہاب الدین سہروردی (543-632/1148-1234) کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے تفصیل سے صوفیاء کے اخلاق پر بحث کی ہے اور دینی احکام کے اسرار پر گفتگو کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ صوفیاء کے مخصوص معاملات جیسے سماع، صحبت اور روحانی احوال کو زیر بحث لائے ہیں۔
فصوص الحکم
یہ ساتویں صدی ہجری کے بہت بڑے صوفی محی الدین ابن عربی (558-638/1164-1240) کی تصنیف ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے بعد کی صدیوں کے اہل تصوف کے عقائد و نظریات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور کم و بیش سات سو برس تک اہل تصوف کے دل و دماغ پر چھائی رہی۔ یہ ایک نہایت ہی متنازعہ کتاب رہی ہے اور اس کی بعض عبارتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف ختم نبوت کا انکار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابن عربی پر بعض بڑے علماء، جن میں امام ابن تیمیہ (661-728/1263-1327)بھی شامل ہیں، نے کفر کا فتوی عائد کیا۔  ابن عربی کے عقیدت مند ان عبارات کو "الحاقی" قرار دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان عبارات کو بعد میں کسی شخص نے مصنف کی کتابوں میں شامل کر دیا ہے۔ ابن عربی اور بھی بہت سی کتب کے مصنف تھے۔ انہوں نے ہی وحدت الوجود کا وہ نظریہ پیش کیا جو کہ اہل تصوف پر تنقید کا باعث بنا۔ اس کی تفصیل کا مطالعہ ہم اگلے اسباق میں کریں گے۔
مثنوی مولانا روم
یہ تصوف کی مقبول ترین کتاب ہے جو کہ مولانا جلال الدین رومی (603-671/1207-1273) نے فارسی زبان میں تصنیف کی۔ پوری کتاب ہزاروں اشعار پر مشتمل ایک طویل نظم پر مشتمل ہے۔  مصنف ترکی کے ایک بہت بڑے صوفی اور عالم تھے۔ انہوں نے نہایت خوبصورت اسلوب میں صوفیانہ نکات کو چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی صورت میں بیان کر دیا ہے۔  بہت کم کتابوں کو اس درجے کی مقبولیت حاصل ہوئی ہو گی جو مثنوی کے حصے میں آئی۔ مصنف کے زمانے سے لے کر آج تک اہل تصوف اس کتاب کا درس دیتے چلے آئے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزالی کی احیاء العلوم اور مولانا روم کی مثنوی ، پچھلے آٹھ سو برس سے امت مسلمہ کی فکری قیادت کے دل و دماغ پر راج کرتی چلی آ رہی ہیں۔
مکتوبات امام ربانی
یہ شیخ احمد سرہندی (971-1034/1564-1624) کے خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اپنے ساتھیوں اور مریدوں کو وقتاً فوقتاً لکھے۔  شیخ احمد "مجدد الف ثانی" کے نام سے معروف ہیں۔ اس میں تصوف کے بہت سے دقیق مسائل زیر بحث آئے ہیں۔ مصنف ابن عربی کے وحدت الوجود کے مقابلے میں ایک الگ مسلک "وحدت الشہود" کے بانی تھے، اس وجہ سے ان کی اہل تصوف میں ایک خاص اہمیت ہے۔ ان کی کاوشوں سے تصوف کی دنیا میں ایک غیر معمولی انقلاب برپا ہوا اور وحدت الوجود سے ہٹ کر ایک نئے طرز تصوف کی بنیاد پڑی۔ جنوبی اور وسطی ایشیا کے صوفیاء کے طرز فکر پر اس کتاب کے اثرات غیر معمولی ہیں۔اور اس وقت بهی برصغیر وغیرہ میں عقیدہ واحدت الوجود اور عقیدہ واحدت الشہود پر ایک بہت بڑا طبقہ کاربند ہے-جس کی بهی آگے آ رہی ہے-
شاہ ولی اللہ (1703-1762) نے تصوف کے موضوع پر پانچ کتابیں لکھیں  جس میں انہوں نے تصوف کے اہم مباحث اور اور اس کی تاریخ کا خلاصہ کر دیا ۔  ان کے پوتے شاہ اسماعیل  (1779-1831)نے "عبقات" کے  نام سے ان کی تمہید لکھی۔ ان کتب نے بھی برصغیر کے شریعت پسند صوفیاء  کی فکر پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔
ان کتب کے علاوہ اہل تصوف کے ہاں تقریباً ہر اہم صوفی شیخ کے حالات و واقعات پر مبنی تذکروں کی کتابیں ملتی ہیں۔ ان میں ان بزرگ کے حالات زندگی اور کرامات وغیرہ درج ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف شیوخ کے مریدین ان کی محفلوں میں ان کے قول و فعل کو نوٹ کر لیتے ہیں اور پھر اسے کتاب کی شکل میں شائع کر دیتے ہیں۔ انہیں "ملفوظات" کہا جاتا ہے۔ اہل تصوف عام طور پر اپنے سلسلے کے بزرگوں کے تذکروں اور ملفوظات کی کتب سے عام استفادہ کرتے ہیں۔ برصغیر کے چشتی سلسلہ کے صوفیاء میں حضرت نظام الدین اولیاء (635-725/1238-1325)کے ملفوظات پر مشتمل کتاب "فوائد الفوائد" کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور اسے دیگر سلسلوں کے صوفیاء بھی تصوف کی امہات کتب میں شمار کرتے ہیں۔
ابو عبدالرحمن السلمی نے تصوف پر ایک کتاب "کتاب السنن" کے نام سے لکهی جس میں تصوف کی سنتوں، اس کے فرائض اور اس کے طریق کار کے بارے میں بحث کی گئی ہے-
ابو نصرالسراج نے بهی ایک کتاب "لمع الصوفیہ"کے نام سے لکهی جس میں مختلف قسم کے عقائد لکهے گئے جس کی تفصیل آگے آئے گی-
ابو طالب مکی نے "قوت القلوب"کے نام سے ایک کتاب لکھی اس کتاب کو بهی ناقدین نے تنقید کا نشانہ بنایا-اس کتاب میں حضرت ابوبکر،حضرت عثمان،حضرت عمر،حضرت علی رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام کو صوفی کہا گیا ہے-
محمد بن طاہر الممدسی نے ایک کتاب "صفوہ التصوف"کے نام سے لکهی-
عبدالوہاب شعرانی اہل تصوف میں ایک سند کا درجہ رکهتے ہیں جو بہت سی کتب کے مصنف ہیں جن میں "طبقات کبری"بڑی مشہور کتاب ہے-
اس کے علاوہ بے شمار کتب اور بهی ہیں لیکن یہ ذکر کردہ کتب اہل تصوف کی بنیادیں ہیں ان اقوال کی بنیاد پر اہل تصوف کی عمارت کهڑی ہے-
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...