Sunday 30 October 2016

مذاہب اربعہ کی فقہی تقسیم اور تناؤ

*مذاہب اربعہ کی فقہی تقسیم اور تناؤ*
(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ حجۃ اللہ البالغۃ:
ج ۱ ص۴۳۸ فرماتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ النَّاسَ قَبْلَ الْمِائَۃِ الرَّابِعَۃِکَانُوا غَیرَ مُجْمَعِینَ عَلَی التَّقْلِیدِ الْخَالِصِ لِمَذْہَبٍ وَاحِدٍ بِعَیْنِہِ۔
آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ مسلمان چوتھی صدی ہجری سے قبل کسی ایک مذہب کی تقلید خالص پر متفق نہ تھے۔
آپ فرماتے ہیں کہ جونہی حنفی، شافعی ، حنبلی اور مالکی کی اصطلاحات متعارف ہوئی ہیں ہمارا یہ خیال ہے کہ اسلامی فقہ کا عظیم دور گزر گیا اور اس کی جگہ مذہبی دور آ گیا۔ ہو سکتا ہے کئی سیاسی اور عقلی عوامل اس مذہبیت کے پیچھے ہوں مگر بعد میں شخصیت پرستی(تقلید) کی روح عوام میں بتدریج سرایت کرگئی۔ جس میں علماء بھی شامل ہوگئے اور یوں فہم دین میں بتدریج زوال آنا شروع ہوا۔
*فقہی مذاہب کا آغاز:*
دوسری صدی ہجری کے آخیر میں فقہ اسلامی کا رنگ بدل گیا۔ علمی سرگرمیوں کے نتیجے میں ماحول وشخصیات کی فکر کے تعلق سے دو اہم مدارس وجود میں آگئے: جو مدرسہ حدیث اور مدرسہ رائے کہلائے۔ ان مدارس نے اپنی فکر کے انتشار میں جو تگ و دو دکھائی اور اصول بنائے اور اپنی فقہ کی عمارت انہی اصولوں پر قائم کی۔ اس کا تفصیلی تذکرہ امام شہرستانی رحمہ اللہ (۵۴۸ھ) جو امت اسلامیہ میں مختلف فرقوں اور مذاہب کے بننے اور بگڑنے پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ اسی موضو ع میں لکھی گئی اپنی مستند کتاب الملل والنحل میں یوں فرماتے ہیں:ائمہ مجتہدین کی دو ہی قسمیں ہیں تیسری کوئی قسم نہیں: اصحاب حدیث اور اصحاب رائے۔ 
۱۔ اصحاب حدیث کا مسکن حجاز ہے جن میں امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے شاگرد، سفیان الثوری اور ان کے رفقاء، امام احمد کے ساتھی اور امام داؤد اور ان کے خدام، انہیں اصحاب حدیث اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ حدیث اور اخبار کی طرف ہے ، یہ لوگ احکام کی بنیاد نصوص پر رکھتے ہیں۔ جب حدیث موجود ہو تو یہ لوگ قیاس جلی ہو یا خفی اس کی پروا نہیں کرتے۔ 
۲۔ اہل عراق کو اصحاب رائے کہا جاتا ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ ہیں، انہی میں امام محمد، امام ابویوسف قاضی، زفربن ہذیل، حسن بن زیاد، ابن سماعہ، قاضی عافیہ، ابو مطیع البلخی اور بشر المریسی وغیرہ شمار ہوتے ہیں۔ انہیں اصحاب رائے اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس اور معانی کے استنباط کی طرف ہے یہ لوگ احکام کی بنیاد قیاس پر رکھتے ہیں اور بسا اوقات قیاس جلی کے سامنے خبر واحد کی بھی پروا نہیں کرتے۔
*تقسیم کی وجہ :*
ائمہ کرام کے بعد یہ مسلمان علماء کیسے منقسم ہوئے؟ وجوہات کیا تھیں؟ تاریخ کے امام مشہور مورخ وناقد علامہ ابن خلدون (۸۰۸ھ) کا درج ذیل اقتباس بھی اس وجہ کو سمجھانے کے لئے قابل غور ہے ۔ فرماتے ہیں:
پہلوں میں فقہ کے دوطریقے رائج ہو گئے۔ ایک طریقہ اہل عراق (کوفہ وغیرہ) والوں کا ہے اور دوسرا محدثین کا جو حجاز (مکہ و مدینہ) والوں کا ہے۔ اہل عراق میں جیسا کہ پہلے ذکرہو چکا ہے۔ حدیث کا ذوق کم تھا۔ لہٰذا انہوں نے بکثرت قیاس سے کام لیا اور اسی میں مہارت حاصل کی۔ جس کی وجہ سے انہیں اہل الرائے کہا گیا۔ اس جماعت کے سرخیل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ قرار پائے۔ ان میں اور ان کے شاگردوں میں مذہب نے قرار پکڑا۔ اہل حجاز (مکہ و مدینہ) والوں کے پیشوا امام مالک رحمہ اللہ اور پھر امام شافعی رحمہ اللہ ٹھہرے۔ (مقدمہ ابن خلدون: ۳۸۹)
خیر القرون میں ہر فقیہ کا یہ حق تھا کہ وہ صورت مسؤلہ کا جواب دے اس لئے کہ لوگ اس سے فقہی سوالات کا حل مانگتے تھے۔ اور جب اس نے اجتہاد کیا تو اپنے علم کے مطابق یہی سمجھا کہ میری نظر میں یہی حق ہے۔بعد میں فقہاء کرام کی یہ کوششیں انفرادی حیثیت اختیار کر گئیں جو ہر شہر میں اپنے اپنے مسلک کی تھیں۔ وہ اپنے ماحول اور حالات کے لحاظ سے معذور بھی تھے۔ان تک صحیح احادیث رسول نہیں پہنچ سکیں بلکہ وہ احادیث ضعیفہ ، آثار اور فتاوی پر اکتفاء کرتے رہے۔انہی حالات میں تدوین حدیث ہوئی اور ضعیف وموضوع یا مرسل ومنقطع روایات بے وزن ہوگئیں مگر بعض علماء، نے پھر بھی انہیں اپنی کتب کی زینت بنایا اور بعض حضرات بھی اپنے خطبوں میں ان کا تذکرہ کرتے رہے۔ مکہ کے فقہاء ہوں یا مدینہ کے، عراق کے ہوں یا یمن کے، مصر کے ہوں یا شام کے سب کی فقہی جزئیات اور قابل اعتماد ذرائع علیحدہ علیحدہ تھے۔ کوئی جامع ضابطہ نہ تھا جو حدیث کی صحت وضعف کا معیار قائم کرسکتا اور نہ ہی کوئی اصول وقواعد تھے۔ بلکہ ہر شہر کا فقیہ اور فقہ علیحدہ علیحدہ تھی۔ اجتہاد، افتاء اور استنباط مسائل کے لئے احادیث صحیحہ کے مقابلے میں مرسل، منقطع اور موقوف روایات پر اعتماد وانحصار تھا۔ اسی بناء پر امام زرکشی رحمہ اللہ نے المحصول میں مسلکی فقہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
ہُوَ مَعْرِفَۃُ أحْکامِ الْحَوَادِثِ نَصًّا وَاسْتِنباطًا عَلَی مَذْہَبٍ مِنَ الْمَذَاہِبِ۔
جدید مسائل کے احکام کو نصوص واستنباط کے ذریعے سے کسی بھی مذہب کی روشنی میں جاننا۔۱/۱/۹۴
ان تمام ائمہ کی طرف نسبت سے فقہ مدون ومرتب ہوئی جوفقہ حنفی،فقہ مالکی،فقہ شافعی فقہ جعفری اورفقہ حنبلی کے نام سے موسوم ہوکروجود میں آئی۔ اس طرح ہر فقہ ایک ہی مسلک کی محدود فقہ بن گئی۔
مذہبی شدت : شاہ صاحب نے تقلید کے زمانہ کی جو تحدید کی ہے ہمارا خیال یہ ہے کہ غالبا اس کا آغاز ائمہ حضرات کے دور میں ہی ہو چکا تھا۔ اس مذہبی فقہ کا قاری بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مسئلہ اور اس کا رد عمل، اندلس میں مالکی فقہاء اور مشرق میں حنفی فقہاء کی اپنے اپنے قاضیوں کی مناصب پر تعیین اوران کی پیشگی شرائط، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے فقہی مناظرے، امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں مالکی فقہاء کی بد دعائیں، کتب فقہیہ میں مناظرانہ رنگ اور علمی احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے پر شدید ردود، اپنے فقہاء کے بارے میں غلو اور دوسروں کی اہانت، شاعرانہ چشمک نے یہ مذہبی عصبیت شروع ہی سے پیدا کردی تھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ کو ان کے آخری ایام میں بخارا سے بدر کروانے میں شاید یہی عوامل کارفرما تھے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے فتاوی نصوص پر تھے جن کے مقابلہ میں حنفی علماء کے فتاوی اپنے مسلک کے مطابق تھے کیونکہ سلطنت عباسی کے سایہ شفقت میں بخارا وسمرقند میں فقہ حنفی کا تسلط تھا۔ فقہاء وعلماء کے درمیان ایسی صورت حال پیدا ہوتی رہی جو ایک دوسرے کے لئے پریشان کن تھی۔ مثلا: بعض فقہاء کا یہ فتوی تھا کہ مدہوشی کی حالت میں طلاق مؤثر ہوتی ہے ان کے مقابل یہ فتوی دیا گیاکہ حالت نشہ میں دی گئی طلاق غیر مؤثر ہوتی ہے۔ فقہاء نے وجہ یہ بتائی کہ لفظ طلاق کی ساتھ نیت ضروری نہیں۔دوسروں نے کہا: نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: انما الاعمال بالنیات۔ عمل کے مؤثر ہونے کا دارو مدار نیت پر ہے۔مے نوش جب حالت نشہ میں طلاق دیتا ہے تو اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں ہوتی لہٰذا اس کے الفاظ ، لغو الفاظ ہیں اور طلاق مؤثر نہیں۔ 
اسی طرح ایک فتویٰ یہ بھی سامنے آیا کہ جبر، تشدد اور اکراہ سے حاصل کی گئی طلاق مؤثر ہے۔ یہ فتوی بھی یہ کہتے ہوئے رد کر دیا گیا کہ یہ طلاق غیر مؤثر ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبری طلاق نہیں ہوتی۔
فقہاء نے کہا: نکاح کے لئے لڑکی کی رضا ضروری نہیں ہے۔ دوسروں نے فتوی دیا: نکاح کے لئے لڑکی کی رضا ضروری ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کا نکاح کالعدم قرار دیا تھا جس نے اظہار کراہت کیا تھا۔ اور کراہت کا ضد لفظ رضا ہے ، اجازت نہیں ہے۔
یہ فتویٰ بھی سامنے آیا: نکاح سے قبل طلاق دینا جائز ہے۔دوسرے فقہاء نے فرمایا ایسا کرنا درست نہیں اس لئے یہ قرآن کے حکم کے خلاف ہے نکاح سے قبل طلاق کا جواز ہی نہیں بلکہ ایسی طلاق لغو ہے۔
فقہاء نے کہا: نکاح وطلاق میں قاضی کا فیصلہ ظاہر وباطن میں نافذ ہوتا ہے۔دیگر فقہاء نے فتوی دیا یہ بھی درست نہیں۔ عمداً جھوٹ بول کر یا عمدا ًجھوٹے گواہ بنا کر اگر عدالت کا فیصلہ لے لیا جائے تو عورت بیوی نہیں بنتی۔ جب کہ پہلوں نے کہا وہ بیوی بن جاتی ہے۔ 
یہ بھی فتویٰ سامنے آیا: ایک قطرہ دودھ پینے سے عورت رضاعی ماں بن جاتی ہے۔جواب میں کہا گیا یہ بھی غلط ہے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ایک دو گھونٹ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
 یہ وہ چند مثالیں تهی جو فقہاء کے فتوے آپس میں ٹکرانے لگے-اسی طرح سینکڑوں مسائل باہم جو ایک دوسرے کے متصادم اور قرآن حدیث کے سرا سر خلاف ہیں -
مذہبی شدت کے یہ انمٹ آثار ہماری ان کتب کی زینت ہیں جنہیں ہمارے ہاں قابل قدر اثاثہ وسرمایہ سمجھ کر پڑھایا جاتا ہے۔امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ حنبلی مسلک رکھتے تھے کسی مسئلہ پر تحقیقی وعلمی اندازسے سوچا تو امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے وقیع ومدلل نظر آئی چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق فتوی دے دیا۔ صبح جب اپنے کمرے سے باہر آنا چاہا تو حنبلیوں نے راتوں رات ان کے دروازے پر دیوار چن دی۔ مالکیوں نے امام بقی رحمہ اللہ بن مخلد محدث اندلس کے ساتھ جو کچھ کیا کہ اندلس میں اس عالم حدیث کا وجود تک برداشت نہ کرسکے۔ماضی میں معمولی فقہی مسائل پر شوافع اور احناف کے درمیان باقاعدہ میدان جنگ سجے اور بزعم خود شہادتوں کے ڈھیر لگے۔ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کے تاخت وتاراج کے پس منظر میں یہی فرقہ واریت ہی توہے۔ ہاتھ چھوڑ کر نماز مالکی پڑھتے ہیں۔ پوچھا جائے کہ اس کی دلیل تمہارے پاس کیا ہے جب کہ امام محترم اپنی کتاب موطا میں ہاتھ باندھنے کی حدیث بطور دلیل کے پیش فرماتے ہیں اور وہ خود بھی اس پر عامل رہے؟ ان کا جواب یہی ہے کہ چونکہ ہمارے امام کا یہ آخری عمل ہے۔اس لئے ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ بعض کتب فقہ میں بڑے بڑے ائمہ مجتہدین کے خلاف ایسا تلخ وترش لب ولہجہ استعمال ہوا ہے جوکسی بھی طرح ایک طالب علم کو علماء وفقہاء اور محدثین کے ادب و احترام کا خوگر نہیں بناتا بلکہ دیگر مسالک سے تعصب اور نفرت کا داعیہ پیدا کرتا ہے۔کسی کو گمراہ قرار دینے یا کفر تک پہنچانے کے رجحانات بھی بہت تیز وشدید پائے جاتے ہیں۔ عموما ًیہ رجحان فروعات کے بارے میں ہے جب کہ فروعی مسائل میں اختلاف کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
اسی طرح مسانیدابی حنیفہ رحمہ اللہ کے نام سے ایک کتاب ساتویں ہجری میں ایک حنفی عالم ابو المؤید الخوارزمی نے مرتب کی۔ اولاً تو اس کتاب کی ثقاہت بیشتر علماء ومحدثین کے نزدیک محل نظر ہے جس کی تفاصیل ہمیں حجۃ اللہ البالغۃ میں مل جائیں گی۔ نیز اس کی بیشتر احادیث سنداورمتن دونوں اعتبار سے محدثین کے ہاں ضعف اور وضع سے بھر پور ہیں۔ پھر بھی مؤلف مرحوم کا تصنیفی داعیہ ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں:
مخالف یہ دعوی کرتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی مسند نہیں ہے۔ نیز یہ کہ وہ چند احادیث ہی کو روایت کرتے تھے۔ تو مجھے دین کی ربانی غیرت نے اور حنفی نعمانی عصبیت نے للکارا اورجوش دلایا۔ اس بنیاد پر میں نے چاہا کہ ان پندرہ مسانید کو جمع کرڈالوں(مقدمہ جامع المسانید از خوارزمی)
جس فقیہ کے یہ الفاظ ہوں اس نے کیا جمع کیا ہوگا؟۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ تمام فقہاء کی کاوشوں اور اجتہادات سے بھرپور فائدہ اٹھا کر فقہ کو محدود کرنے کی بجائے وسیع کیا جاتاجو کم ازکم اسلامی فقہ تو کہلاتی۔ اس لئے کہ ان فقہاء کرام نے یہ سب کاوشیں دین اسلام کے لئے کیں نہ کہ اپنی ذات یا اپنے مسلک کو رواج دینے کے لئے۔ جب چاروں فقہاء برحق ہیں توایک مسلک سے جڑ کر ان کی فقہ کو اسلامی فقہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟۔
سوال یہ ہے کہ ان مذہبی اختلافات سے بچنے اور تمام فقہاء کرام کو ان کا جائزمقام واحترام دینے کی آخر سبیل کیا ہے؟ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک صائب مشورہ ہے کہ:
ہرمذہب کے تین حصے کرلیجئے۔
وہ حصہ جس میں حق واضح ہو اور کتاب وسنت کے موافق ہو شرح صدر سے اس کے مطابق فتوے دیجئے۔
دوسرا وہ حصہ جو مرجوح ہے اور دلائل کے اعتبار سے بہت کمزور۔ اس کے مطابق نہ فتوی دیا جائے اور نہ ہی مسائل بتائے جائیں بلکہ اس حصے کو تو ذہن سے ہی نکال دینا چاہئے۔
تیسرا حصہ وہ جس میں دلائل کی کشش دونوں طرف موجود ہے اس میں جیسے طبیعت چاہے فتوی دیا جاسکتا ہے یا اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی خیال میں رہے کہ مذہبی فقہ کے مراتب مختلف ہیں۔ نیز بیشتر مسائل میں استاد شاگرد کا اصولی ونظری اختلاف بھی موجود ہے جو اس کی استدلالی حیثیت کومشکوک بنا دیتا ہے اس لئے یہ مذہبی فقہ کسی بھی مقام پر رد وقبول کے لئے معیار نہیں قرار پا سکتی۔ ہاں اگر مقدار وپیمانہ کا تعین ہو جائے تو درایت کے اعتبار سے مذہبی فقہ قابل قبول ہو سکتی ہے۔
(ماخوذ :فقہ اسلامی از ڈاکٹر ادریس زبیر)
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...