Thursday 27 October 2016

ہم سلفی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، باذ ن اللہ!


ہم سلفی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، باذ ن اللہ! 

  فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی ,
مصدر: نعم، نحن سلفيون ولن نزال بإذن الله۔
پیشکش:توحید خالص ڈاٹ کم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم نے وہ بات سنی اور پڑھی بھی جو کہ صاحب السمو الملکی امیر نایف بن عبدالعزیز آل سعود "([1]) (جو کہ ولی عہد اور نائب وزیر مجلس وزراء ووزیر داخلہ تھے) نے کانفرنس بعنوان ’’السلفية منهج شرعي ومطلب وطني‘‘ کے افتتاح کے موقع پر فرمائی، جس کا انعقاد جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، ریاض میں کیا گیا تھا۔اور یہ ایک خالص، کھری اور سچی بات ہے جس کا مضمون یہی ہے کہ یہ مملکت سعودی عرب الحمدللہ سلف صالحین کے منہج پر قائم تھی اور اب تک ہے، حقیقتاً صرف دعویٰ نہیں۔ اسی کی وجہ سے اسے یہ بقاء حاصل ہے الحمدللہ، اگرچہ اسے کتنے ہی کٹھن امتحانات سے گزر کر پاک ہونا پڑا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کے ساتھ غزوۂ احد، الاحزاب اور حنین میں ہوا، اور جیساکہ یہ اللہ تعالی کی سنت رہی ہے اپنے بندوں میں تاکہ خبیث سے طیب کو الگ الگ کرکے دکھا دے، اور مومنوں کو ثابت قدمی حاصل ہو اور منافقوں کوبےیارومددگار چھوڑ دیا جائے۔ آپ رحمہ اللہ نے وضاحت فرمائی  کہ بلاشبہ حقیقی سلفیت وہ منہج ہے کہ جو اپنے احکام کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ہر اس چیز  سے الگ ہوکر جو اس پر بطور تہمت چسپاں کی جاتی ہے اور ہر اس چیز سے بھی علیحدہ ہوکر جس پر نام نہاد سلفیت کے دعویدار گامزن ہيں نمایاں ہوکر اور نکھر کر سامنے آتی ہے۔ کیونکہ آج سلفیت کے دعویدار تو بہت ہیں لیکن اصل بات تو یہ ہےکہ کون سچائی کے ساتھ واقعی اس دعوے کو ثابت بھی کرتا ہے۔  جس کا صرف یہی طریقہ ہے کہ پہلے اسے سلفی منہج کی بالکل صحیح معرفت ہو، پھر اس پر وہ چلتا بھی ہو۔والدعاوى إذا لم يقيموا   عليها بينات أهلها أدعياءاللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا  ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ﴾  (التوبۃ: 100)(اور مہاجرین اور انصار میں سےسابقین( سبقت کرنے والے ) اولین (سب سے پہلے ) لوگ  اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے)سلف صالحین یہی مہاجرین وانصار ہیں اور جنہوں نے ان کی احسن طور پر پیروی کی یعنی مکمل اچھے طریقے سے اتباع کی، اس طرح کہ  پہلے ان کے منہج کو اچھے طریقے سے جانا ، ایسے نہيں کہ محض جہالت و لاعلمی میں ان کے منہج کی (اپنے گمان میں) پیروی کیے جارہے ہیں، چناچہ وہ صحیح طور پر اس سے تمسک اختیار کرتے ہیں، اور اس پر مکمل طور پر صابر وثابت قدم رہتے ہیں اگرچہ انہیں اس راہ میں کتنی ہی رکاوٹوں کا اور بے یارومددگار چھوڑ دیے جانے کا سامنا کرنا پڑے۔ ساتھ ہی وہ ان تمام چیزوں سے بیزاری وبرأت کا اظہار کرتے ہيں جو بعد والے خلف نے اس میں ایجاد کردیں جیسے عقائد وعبادات میں بدعات ومحدثات، جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:’’فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُم بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ، وَكُلَّ ضَلاَلَةٍ فِي النَّارِ‘‘([2])(کیونکہ بلاشبہ تم میں سے جو زیادہ عرصہ زندہ رہا تو وہ عنقریب بہت اختلاف دیکھے گا، پس تمہیں چاہیے کہ میری سنت اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اس سے تمسک اختیار کرو اور اسے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامے رہو، اور تم (دین میں) نئے نئے کاموں سے بچو، کیونکہ (دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ (جہنم کی) آگ ہے)۔لہذا جو حقیقی سلفیت ہے وہ ہر قسم کے غلو وانتہاء پسندی اسی طرح سے ہر قسم کے تساہل وکوتاہی سے بری ہے۔ اور یہ جو دونوں انتہائی طرفیں ہیں ان میں سے ایک نے (جو تشدد اپناتے ہیں) اپنی بنیاد اور دعوت کو دین داری اور دین کو مضبوطی سے پکڑنے سے تعبیر کیا  اور دوسرے نے (جو تساہل وکوتاہی والے ہیں) اپنی بنیاد اور دعوت کو دینی آسانی وسہولت سے تعبیر کیا۔ (مگر حقیقت حال یہ ہے کہ)۔وكل يدعي وصلا بليلى  وليلى لا تقر لهم بذاكاپھر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:اس مملکتِ مبارکہ کی اساس امام محمد بن سعود کے ہاتھوں سلفی منہج پر ہوئی اور یہی ان کا اور امام محمد بن عبدالوہابرحمہما اللہ کا باہمی معاہدہ بھی تھا، اور آج تک یہ مملکت اسی سلفی منہج پر قائم ہے اور اسے ہی اپنے لیے باعث شرف سمجھتی ہے۔میں (الفوزان) یہ کہتا ہوں کہ: بالکل اس وطن کو اپنے دین ودنیا میں پسماندگی، غربت اور تفرقہ بازی کا سامنا رہا۔ اور یہ بھی اپنے عقیدے ،عبادت  اور حکم میں مذہب خلف پر تھا کہ جس کی نہ کوئی حدود تھی نا ہی کوئی استقرار حاصل تھا۔ اس کے علماء کی غالب اکثریت اپنے عقیدے میں مذہب خلف پر گامزن تھی اور ان کے درمیان عبادات میں شرک وخرافات عام پھیلے ہوئے تھے، اور حکم کے معاملے میں بھی افراتفری ولاقانونیت ہی چھائی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے دعوت توحید کے ذریعے امام مجدد محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور جنہوں نے آپ کی اس میں نصرت وتائید فرمائی جیسے امام محمد بن سعود رحمہ اللہ کے ذریعے اپنا کرم واحسان فرمایا، چناچہ یہ ایک مبارک مملکت منہج کتاب وسنت پر قائم ہوگئی جیسا کہ امیر نایف رحمہ اللہ نے فرمایا، اور یہ اب تک اسی پر قائم ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ اسی پر قا‏ئم رہے گی جب تک کہ وہ انہی بنیادوں پر گامزن رہے۔پھر آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس سے آپ کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوگیا ہوگا کہ جو بھی اس کے منہج پر تنقید کرتا ہے یا اس کے ارد گرد شبہات وتہمتیں ابھارتا ہے تو وہ نرا جاہل ہے کہ جسے حقیقت سے آشکارا کرنا واجب ہے۔اور میں یہ کہتا ہوں:یہ مبارک مملکت جب سے قائم ہوئی ہے اسی وقت سے اسے اس کے منہج کے بارے میں شبہات ابھارتے رہنے اور تہمتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ خود نبی رحمتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی یہود ونصاریٰ ومشرکین کے شبہات اور تہمتوں میں سے بہت سوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا اور اس کا رد کرکے ان شبہات کو توڑا۔ بالکل اسی قسم کی چیزوں کا اس مملکت کو بھی اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے منہج کے بارے میں دشمنوں، حاسدوں، منافقین، بدعتیوں وخرافیوں کی طرف سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔  جیسا کہ اس کی گواہی اس کی تاریخ اور اس کے علماء کی کتب دیتی ہيں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے عہد سے لے کر آج کے دن تک۔  ہمیں چاہیے کہ ہم پڑھ دیکھیں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتاب کشف الشبہات  اور ان کے بعد جو جو کتب اس قسم کے شبہات وتہمتوں کے رد پر لکھی گئیں۔پھر آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس جامعہ کا قیام او راس پر اس منعقدہ کانفرنس کا بھی اضافہ کرلیں خود یہ بھی اسی بیان اور حقائق کی وضاحت کے تسلسل کا ایک جزء ہے جو اس نہج قویم کو واضح کرتا ہے جس کے ذمے جھوٹ وبہتان طرازی سے کام لیتے ہوئے ایسی ایسی جھوٹی وباطل باتیں لگا دی گئیں اور ایسے مغالطہ آمیز مفاہیم اس کی طرف منسوب کیے گئے جیسے تکفیر، غلو ودہشتگردی وغیرہ، اور وہ کچھ کیا گیا جو ہم پر اس بات کو واجب قرار دیتا ہے کہ ہم سب مل کر اس کے سامنے ایک صف ہوجائيں، اور ان شبہات اور باطل پروپیگنڈوں  کو یوں جواب دیں  کہ وہ ان کا بھانڈا پھوڑ دیں اور ان کی عدم حقیقت کو واضح کردے۔اور میں یہ کہتا ہوں:الحمدللہ ان تمام باطل باتوں اور شبہات کا اس دعوت کے علماء اور ان کے دیگر بھائیوں نے جو دوسرے ممالک میں علماء کرام ہیں  انہوں نے قلع قمع فرمایا ہے، اور وہ سب شائع ہوتی ہیں اور لوگوں میں عام ہیں۔ جامعۃ الامام کو یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اس مبارک کانفرنس کے تتمہ کے طور پر انہیں دوبارہ سے طبع کرکے تقسیم کیا جائے۔اگرچہ جو بھی اس دعوت کے سامنے حائل ہوا سو ہوا، مگر آخرکار اس نے شکست کھائی الحمدللہ، اس دعوت کے ساتھ کھڑے ہونے والے اور تائید کرنے والے ہر علاقے کے ثقہ اور معتبر علماء کرام تھے جیسے شام، مصر اور ہندوستان وغیرہ۔ اور وہاں ایسی جماعتیں قائم ہوئی جو اس مبارک دعوت کے منہج کی طرح توحید کی جانب دعوت دیتی جیسے اہلحدیث جماعت ہندوستان میں، انصار السنۃ جماعت مصر وسوڈان وغیرہ میں، اہل سنت والتوحید جماعت یمن میں۔ لہذا مکرکرنے والوں کا مکر شکست کھا کر انہی کی طرف پلٹ گیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ﴾  (التوبۃ: 32)(وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ تعالی ہر صورت اپنے نور کو پورا کرکے  ہی رہے گا، خواہ کافر لوگ برا جانیں)پھر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:میرے عزیز بھائیو! ہم آپ کو یہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ بلاشبہ یہ مملکت اللہ کے اذن سے اب بھی صحیح سلفی منہج پر چلتی رہے گی، اس سے کبھی بھی سرموانحراف نہیں کرے گی،  نہ ہی دستبردار ہوگی، یہی تو اس کی عزت، توفیق ورفعت کا اصل مصدر ہے۔ جیسا کہ بے شک یہی اس کی ترقی وخوشحالی کا بھی مصدر ہے۔ اس طرح کہ اس نے اپنی اصلیت کو اور زمانے سے ہم آہنگی کو باہم جمع کررکھا ہے۔ اور یہ شرعی ودینی منہج ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی منہج بھی ہے کہ جو اسباب کو اختیار کرکے ترقی کرنے کی دعوت دیتا ہے اور دوسروں کے ساتھ پر امن طور پر ایک ہی معاشرے میں حقوق کا احترام کرتے ہوئے بسنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔میں یہ کہتا ہوں:اس بات میں آپ عزت مآب کی طرف سے وعدہ کیا گیا ہے اس ملک میں بسنے والے اور اس کے علاوہ بھی اہل سنت کے ساتھ کہ یہ مملکت سعودی عرب اس منہج سلف صالحین پر ہمیشہ ثابت قدم رہے گی جس پر یہ قائم ہوئی تھی، اللہ تعالی اسے توفیق دے۔ اس میں اس مملکت کے دشمنوں کے لیے نامرادی ہے کہ جو اسے اس کے صحیح اور بہترین منہج سے ہٹا کر ان منحرف مناہج کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جن مناہج کو حزبیوں میں سے ان لوگوں نے بنایا ہے جو اس کی حکومت کو چھین لینا چاہتے ہیں، اور جو اس ملک سے سنت کو جڑ سے اکھاڑ کر اس کی جگہ بدعات، تصوف اور خرافات کو لانا چاہتے ہیں  جیسے صوفیت اور خرافات پسند جماعتیں، اور وہ جماعتیں جو اسے اعتدال سے ہٹا کر غلو وانتہاء پسندی کی طرف لے جاناچاہتی ہيں جیسے جہاد اور متشددین کی جماعتیں، یا پھر تساہل، کوتاہی ومذموم نرمی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جیسے مرجئہ، لادینی اور لبرل جماعتیں۔آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کیونکہ جس منہج پر یہ ہے وہی اس کی عزت، توفیق اور رفعت کا اصل مصدر ہے۔اور میں کہتا ہوں کہ:اس بات کی گواہی وہ حالات دیتے ہيں جن سے یہ ملک اس مبارک مملکت کے قیام سے پہلے دوچار تھا جیسے افراتفری، لاقانونیت، ضیاع کاری، محرومی، تفرقہ بازی وغربت۔اور آپ رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ یہ منہج اپنی اصلیت اور دور حاضر سے ہم آہنگی کو باہمی جمع کرتا ہے۔میں یہ کہتا ہوں کہ:کیونکہ یہ دین ہر زمان ومکان کے لیے بھرپور قابل عمل وکارآمد ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’لا يصلح آخر هذه الأمة إلا ما أصلح أولها‘‘(اس امت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہوسکتی مگر اسی طرح سے جس طرح سے اس کے پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی)۔آپ رحمہ اللہ فرماتے ہيں:چناچہ یہ شرعی ودینی منہج ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی منہج بھی ہے کہ جو اسباب کو اختیار کرکے ترقی کرنے کی دعوت دیتا ہے۔میں یہ کہتا ہوں :اس کے مصداق یہ فرمان باری تعالی ہے:﴿اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ﴾  (المائدۃ: 3)(آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل  کردیا ہے)اور اس فرمان الہی میں:﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ﴾  (الانفال: 60)(اور ان کے مقابلے کے لیے طاقت بھر قوت کی تیاری کرو)﴿وَخُذُوْا حِذْرَكُمْ﴾  (النساء: 102)(اور اپنے بچاؤ کا سامان پکڑے رکھو)اور فرمایا:﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ﴾  (البقرۃ: 195)(اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو)اور آپ رحمہ اللہ کا یہ فرمانا:اور دوسروں کے ساتھ پر امن طور پر ایک ہی معاشرے میں حقوق کا احترام کرتے ہوئے بسنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔میں یہ کہتا ہوں کہ:یہ بات بھی اللہ تعالی کے اس فرمان کے ضمن میں آتی ہے کہ:﴿وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ﴾  (البقرۃ: 190)(اور زیادتی مت کرو، بےشک اللہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا)اور فرمایا:﴿فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَهُمْ﴾ (التوبۃ: 7)(پس جب تک وہ (غیرمسلم) سیدھے رہیں تمہارے لیے، تو تم بھی سیدھے رہوان کے لیے)اور فرمایا:﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا  ۭاِعْدِلُوْا   ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى﴾ (المائدۃ: 8)(اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو ۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے)اور فرمایا:﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ﴾  (الممتحنۃ: 8)(اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے)اللہ تعالی آپ عزت مآب کو برکت عطاء فرمائے اور جو کچھ آپ نے فرمایا اسے آپ کے میزان حسنات میں جگہ عطاء فرمائے، وصلى الله وسلم على نبينا محمد۔کتبہصالح بن فوزان الفوزان(رکن کبار علماء کمیٹی)[1] جب شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے یہ مقالہ لکھا اس وقت جناب امیر نایف " حیات تھے۔ صحیح ترمذی 2676 وغیرہ۔
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...