Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ

* تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ*
(قسط نمبر 8)
یاد رہے فکر اور تفکر  بهی مراقبہ ہی کا نام ہے۔ ابتدائی مراقبہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے ذہن کو کسی ایک نقطہ پر یکسو کیا جاتا ہے اور عارفین کا مراقبہ یہ ہے کہ کھلی آنکھوں سے ہر چیز کا نظارہ کرتے ہیں جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی کا فرمان ہے کہ میں چالیس سال تک اللہ تعالیٰ سے محو کلام رہا لوگ یہ سمجھتے رہے کہ میں ان سے باتیں کر رہا ہوں۔(شمس الفقرا)حضرت سخی سلطان باھو  نے اپنی تصنیفات میں غور و فکر کے بارے میں بہت سی اصطلاحیں استعمال فرمائی ہیں۔مثلاً1۔مراقبہ2۔فکر 3 ۔ تفکّرمراقبہ تفکّر ہی کی ایک قسم ہے لیکن مراقبہ اور تفکّر میں فرق صرف یہ ہے کہ مراقبہ کے لیے خلوت کا ہونا، آنکھیں بند کرکے قلب کو ایک نکتہ پر یکسو کرنا ضروری ہے۔ جب اس طریقہ سے تفکّر پختہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ وہ راز اس شخص پر عیاں کر دیتا ہے جس کے بارے میں تفکّر کیا جارہا ہوتا ہے لیکن فکر یا تفکّر کے لیے خلوت کا ہونا یا آنکھیں بند کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس میں طالب ہر لمحہ ہر آن، تنہائی میں، ہجوم میں، دنیا کے معاملات کے وقت ایک ہی بات پر غور و فکر یا سوچ بچار کر رہا ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس پر وہ راز عیاں کرتا چلا جاتا ہے جس کے بارے میں وہ تفکّر کرتا رہتا ہے۔ یعنی کھلی آنکھوں سے ہر شے کو دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے رازوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ یہ مراقبہ سے اعلیٰ مرتبہ ہے آپ یوں کہہ سکتے ہیں مراقبہ ابتدا ہے اور تفکّر انتہا ہے۔ فقر کا راستہ تفکّر ہی کا راستہ ہے۔ تفکّر سے ہی اس راہ کے راز کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے طالبِ مولیٰ ہر لمحہ تفکّر میں گم رہتا ہے ۔ اور ہر لمحہ نئی منزل تفکّر کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔مراقبہ میں استغراق یا غیب کی کیفیت بظاہر خواب سے ملتی جلتی ہے اور عام طور پر احوال بھی یکساں ہوتے ہیں۔ البتہ خواب میں دل کی نگہبانی و حفاظت میں اس قدر احتیاط نہیں رہتی اس لئے مراقبہ خواب سے زیادہ قوی اور کہیں زیادہ غالب ہوتا ہے۔حضرت سخی سلطان باھو  فرماتے ہیں :خواب و مراقبہ کی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہے بلکہ مراقبہ خواب سے زیادہ گہرا ہوتا ہے کہ صاحبِ خواب تو شورو غوغا سے بیدار ہو جاتا ہے لیکن جس پر مراقبہ غالب آ جاتا ہے وہ نورِ وحدانیتِ ذات کے مشاہدہ میں غرق ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر کوئی تن سے اس کا سر بھی اڑا دے تو اسے خبر نہیں ہوتی۔ لیکن موت کی مثل ہوتے ہوئے بھی صاحبِ مراقبہ میں شعور بیدار رہتا ہے اور جواب باصواب پاتا رہتا ہے۔ مراقبہ سے عارفوں کو نورِ معرفت کی سرفرازی نصیب ہوتی ہے۔
تصور شیخ:
تصور شیخ کا مطلب ہے آنکھیں بند کر کے شیخ کا اس طریقے سے تصور کرنا کہ گویا انسان شیخ کی مجلس میں بیٹھا اس کی باتیں سن رہا ہے۔ عام طور پر صوفیاء کے ہاں اس کا جو طریقہ رائج ہے، اسے بیان کرتے ہوئے مشہور صوفیانہ تحریک "دعوت اسلامی" کے مقالہ نگار مولانا احمد رضا خان بریلوی (1856-1921) کے حوالے سے لکھتے ہیں:
خلوت [یعنی تنہائی] میں آوازوں سے دور، رو بہ مکان شیخ [یعنی مرشد کے گھر کی طرف منہ کر کے]، اور وصال ہو گیا ہو تو، جس طرف مزار شیخ ہو ادھر متوجہ بیٹھے۔ محض خاموشی، باادب، بکمال خشوع و خضوع، صورت شیخ کا تصور کرے اور اپنے آپ کو ان کے حضور جانے، اور یہ خیال جمائے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے انوار و فیض، شیخ کے قلب پر فائض ہو رہے ہیں۔ اور میرا قلب، قلب شیخ کے نیچے، بحالت دریوزہ گری [یعنی گداگری] میں لگا ہوا ہے۔ اور اس میں سے، انوار و فیوض، ابل ابل کر، میرے دل میں آ رہے ہیں۔
اس تصور کو بڑھائے، یہاں تک کہ جم جائے اور تکلف کی حاجت نہ رہے۔ اس کی انتہا پر، صورت شیخ [یعنی پیرومرشد کا چہرہ مبارک] خود متمثل ہو کر مرید کے ساتھ رہے گی۔ اور ان شاء اللہ عزوجل [اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عطا سے] ہر کام میں مدد کرے گی۔ اور اس راہ میں جو مشکل اسے پیش آئے گی اس کا حل بتائے گی۔
بریلوی مکتب فکر کے صوفی حلقوں میں تصور شیخ سے بالعموم کام لیا جاتا ہے اور اسے بڑی برکت کا باعث سمجھا جاتا ہے البتہ دیوبندی مکتب فکر کے حلقوں میں اس سے پرہیز کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ موجودہ حالات میں تصور شیخ بعض خطرات کا باعث ہے، اس وجہ سے اس سے بچنا چاہیے۔ سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں:
اس میں خطرہ شیخ کو حاظر ناظر سمجھنے کا ہے۔کیونکہ سالک اپنے محبوب شیخ کے ساتھ محبت میں بہت کچھ وابستہ کرلیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جب سالک کے اخلاص اور طلب کی وجہ سے کسی موقعہ پر مدد کرتا ہے تو سالک اس کو شیخ کی طرف سے سمجھنے لگتا ہے جو آہستہ آہستہ شرک کی طرف چلا جاتا ہے۔تصویر کو بھی تو اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ آہستہ آہستہ شرک میں بدلنے لگتی ہے۔ یہ محبت ایسی چیز ہے کہ عقل کو سلب کردیتی ہے اور شیخ کے ساتھ محبت فطری ہے اس لیے اگر اس کی تصویر دل میں بسا لی جائے تو یہ بھی آہستہ آہستہ خطرے کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے نزدیک یہ شغل خواص کے لیے تو مفید ہے لیکن عوام کے لیے سخت مضر کیونکہ اس میں صورت پرستی تک بات جا سکتی ہے جو کہ شرک کا زینہ ہے۔ کثرت تصور سے بعض اوقات کوئی صورت مثالیہ  ظاہر ہو سکتی ہے جو بعض اوقات محض خیال ہوتا ہے اور بعض دفعہ کوئی لطیفہ غیبی اس شکل میں متمثل ہو جاتا ہے جس کا بسا اوقات شیخ کو پتہ بھی نہیں ہوتا، لیکن سالک اس کو حاضر ناظر سمجھ کر اپنا نقصان کر سکتا ہے، اس لیے اس سے بچنا اولی ہے۔ اس کے مقاصد کو حاصل کرنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ شیخ کے ملفوظات اور کتابیں پڑھے یا پھر اپنے پیر بھائیوں [اپنے پیر کے دوسرے مرید] سے اس کا تذکرہ کرے۔
عشق مجازی:
بعض اہل تصوف کے ہاں یہ تصور موجود ہے کہ عشق مجازی، عشق حقیقی کی سیڑھی ہے۔ عشق مجازی سےمراد وہ عشق ہے جو انسان کو کسی اور انسان سے ہو جاتا ہے اور عشق حقیقی سے مراد وہ عشق ہے جو انسان کو اللہ تعالی سے ہوتا ہے۔ عام طور پر عشق مجازی صنف مخالف سے ہوتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی جنس کے دوافراد کے مابین ایسا عشق ہو جائے۔ اپنے پیرومرشد سے سبھی صوفی عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ صوفی خانقاہوں میں  ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ آتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑی عمر کا کوئی شخص کسی کم عمر خوبصورت لڑکے پر عاشق ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کے شیخ کے لیے ایک مشکل کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیانہ تربیت میں امرد پرستی
(خوبصورت لڑکوں سے عشق) کی مذمت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔
بعض صوفی بزرگوں کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ کسی خاتون یا لڑکے کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں انہوں نے زبردست قسم کی شاعری کر دی۔ بعض صوفی بزرگوں سے عشق مجازی کی تعریف میں اشعار بھی منقول ہیں جیسے مولانا جامی کا شعر ہے: متاب از عشق رد گرچہ مجازیست۔۔۔۔ کہ آن بہر حقیقت کارساز یست۔ یعنی عشق سے اعراض نہ کرو چاہے مجازی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ عشق حقیقی کے لیے سبب ہے۔ اس کے متعلق سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں:
ان بزرگوں کا عشق مجازی کی تائید سے صرف اتنا مراد ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی کو عشق مجازی ہو جائے تو پھر اس سے کام لینا چاہیے تاکہ اس کو ہی عشق حقیقی کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس مردار [معشوق] کے ساتھ تو بالکل تعلق نہ رکھا جائے بلکہ ہو سکے تو تعلق توڑ دیا جائے اور اس سے جو سوز و گداز پیدا ہو، اس کو عشق حقیقی کے لیے استعمال کیا جائے۔ سب سے بہتر طریقہ تو اس میں یہ ہے کہ اگر شیخ کامل ہو تو اس کی راہنمائی حاصل کی جائے، ورنہ وضو کر کے خوشبو لگا کر خوب دل کے ساتھ 500 سے ایک ہزار تک ذکر نفی اثبات اس طرح کرے کہ لا الہ کے ساتھ سوچے کے میں نے اس مردار کی محبت کو دل سے نکال دیا اور الا اللہ کے ساتھ یہ تصور کرے کہ اپنے دل میں اللہ تعالی کا محبت داخل کیا۔  اس میں ضرب بھی ہو ۔
سماع
اہل تصوف بالخصوص چشتی اور سہروردی سلسلے کے صوفیاء میں سماع کو غیر معمولی حیثیت حاصؒل ہے۔ سماع کا مطلب ہے اچھی آواز میں گانا اور رقص کرنا۔ اس کی مختلف شکلیں رائج ہیں جیسے برصغیر میں سماع عام طور پر قوالی کی شکل میں ہوتا ہے جس میں سازوں کےساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے۔ دعوت اسلامی کے حلقوں میں یہ اجتماعی نعت خوانی کی شکل میں رائج ہے۔  اس سماع میں لوگ بے حال ہو کر رقص بھی کرنے لگتے ہیں اور کبھی بے خود ہو کر تڑپنے لگتے ہیں۔ اسے "حال کھیلنا" کہتے ہیں۔ ترکی کے صوفی درویش لمبے لمبے فراک پہن کر باقاعدہ  گردش کرتے ہوئے رقص کرتے ہیں۔جبکہ یہ طریقہ برصغیر کی خانقاہوں پر بهی دیکها جا سکتا ہے-
مشہور صوفی بزرگ امیر خسرو  (650-725/1253-1325) کو کئی سازوں  جیسے ستار وغیرہ کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔
سازوں والی موسیقی کے ساتھ سماع کے معاملے میں پابند شریعت صوفیاء کے دو  نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ان میں سے جو لوگ سازوں کو مطلقاً حرام سمجھتے ہیں، وہ سازوں کے ساتھ قوالی کو بھی حرام ہی قرار دیتے ہیں۔ جن اکابر صوفیاء سے سماع ثابت ہے، ان کے اقوال کی وہ یا تو تاویل کرتے ہیں یا پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ان اقوال و افعال کو ان کی جانب غلط طور پر منسوب کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس صوفیاء کا دوسرا گروہ، جس میں زیادہ تر چشتی سلسلہ کے صوفی علماء شامل ہیں، موسیقی کے ساتھ(طبلہ، سرنگی، ڈهول، گٹار،تالی وغیرہ موجودہ دور کے جدید آلات) سماع کو جائز سمجھتے ہیں۔
جس کی وہ دلیل بخاری ، کتاب الاشربہ ، حدیث 5268-بخاری کتاب العیدین، حدیث 907-بخاری کتاب المغازی، حدیث نمبر3779-ان احادیث سے موسیقی کے جواز کے قائلین  یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کی اگر موسیقی میں فحاشی یا کوئی اور برائی نہ ہو تو سازوں کا استعمال جائز ہے-جس میں صوفیاء اور معتدل جدید علماء کا طبقہ شامل ہے-
جبکہ ناقدین سورہ لقمان:31:6-بخاری کتاب الاشربہ ،حدیث 5268-ترمذی ،کتاب التفسیر، حدیث3195-وغیرہ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں-مفسرین
نے اس سے مراد ہر وہ چیز لی ہے جس میں انسان مگن ہو کر غافل ہو جائے-گانا قوالی اس کی مثال ہے-اس پر تفصیلی تقابلی بحث مبشر نذیر کی کتاب فکری،ثقافتی،معاشی اور قانونی مسائل ماڈیول CS07 میں موسیقی کی بحث میں ملاحظہ کریں۔
وہ مزید کہتے ہیں  کہ خواجہ معین الدین چشتی (535-627/1141-1230) اور ان کے مریدین نے سماع کی مدد سے بڑی تعداد میں ہندوؤں کو اسلام کی جانب راغب کیا کیونکہ ان کے ہاں موسیقی کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔
رقص اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، وہ علماء و صوفیاء جو موسیقی کے جواز کے قائل ہیں وہ ایسے رقص کے جواز کے بهی قائل ہیں-جبکہ ناقدین اس کی بهی پر زور مذمت کرتے ہیں-جس کی تفصیلی بحث آگے آ رہی ہے-
قسط نمبر 7اور8کے حوالہ جات:  سید شبیر احمد کاکا خیل۔ فہم التصوف۔ ص 147۔ راولپنڈی: خانقاہ امدادیہ۔  www.tazkia.org (ac. 24 Apr 2011)
    حوالہ بالا۔ ص 180
    حوالہ بالا۔ ص 199-203
    حوالہ بالا۔ ص 204-206
   حوالہ بالا۔ ص 220-221
    حوالہ بالا۔ ص 221
   مجلس علمی۔ آداب مرشد کامل۔ حصہ 3، ص 9۔  www.dawateislami.net
   سید شبیر احمد کاکا خیل۔ تصوف کے بارے میں عام پوچھے جانے والے سوالات۔  www.tazkia.org (ac. 24 Apr 2011)
    سید شبیر احمد کاکا خیل۔ فہم تصوف۔ ص 224
   حوالہ بالا۔ ص 224-225.
مراقبہ تفکر کی مزید تفصیلات www.sultan-bahoo.com
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...