Saturday 29 October 2016

طہارت اور پاکیزگی سے بوڑھا کیسے متاثر ہوا

*طہارت اور پاکیزگی سے بوڑھا کیسے متاثر ہوا*

 اسلام چند  انفرادی یا  کچھ اجتماعی عبادات کا نام  نہیں بلکہ  ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ دین  انسانوں کو رہن سہن، برتاؤ، تعلق، رشتے ناطے، اٹھنا بیٹھنا  اور اوڑھنا پہننا  تک سکھاتا ہے۔ اگر کوئی  شخص یہ سب کچھ جانتا تو ہے مگر اس  شخص کے رویوں سے ان خصائص کا اظہار جھلکتا نہیں ہے تو اسکا بس ایک  ہی مطلب ہے کہ وہ اسلام کا نام لیوا تو ہے مگر اسلام پر کاربند نہیں ہے۔اس  بات کو ہم یوں کرتے ہیں کہ؛  ہم کہتے تو ہیں کہ،   یہ ہمارے دین اسلام کی  بنیادی تعلیم ہے کہ،  ہمارا دین  دیانتداری کا دین ہے۔  مگر ہم دیانتداری اپناتے نہیں ،  صرف کہہ دینے سے  کیا دیانتداری کا فریضہ ادا   ہو جائے گا؟  یا ہم یوں کہیں کہ اسلام صفائی کا مذہب ہے۔ کہہ دینے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر کیا ہم صفائی کو اپناتے اور اس کا احترام بھی کرتے ہیں؟  بات شخصی سے اجتماعی درجے تک لے جائی جائے، اور اگر ہم کسی اور  کیلئے مثال بننا چاہیں ،  تو سب سے پہلے ہمیں یہ اصول  اپنے آپ پر لاگو کرنا پڑیں گے ورنہ ہمارا رویہ، ہماری گفتگو اور ہماری دعوت و تبلیغ منافقت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوگی۔اس سلسلے میں، میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جسے میں نے اپنے پسندیدہ شیخ عریفی صاحب کے خطاب میں سنا۔ کہتے ہیں آج سے بیس سال پہلے ان کا ایک عزیز تعلیم کے سلسلے میں امریکہ میں مقیم تھا،  اس نے ایک بار مجھے  بتایا کہ جس عمارت میں اس نے کچھ دیگر طلاب کے ساتھ مل کر کرائے کے ایک فلیٹ میں  رہائش اختیار کر رکھی تھی،  اسی عمارت میں کئی ایک دوسرے سعودی، کویتی، خلیجی، مصریوں کے علاوہ ، ملیشین، ترکی ، انڈین، سری لانکی، افریقی ، ایرانی اور چینی طالب علموں نے بھی فلیٹ لے رکھے تھے۔ عمارت کے بیس سے زیادہ فلیٹوں میں طلاب مل کر گروپ کی صورت میں رہتے بستے تھے۔ طالب علموں  کیلئے  مخصوص اس بلڈنگ میں ہر رنگ و نسل اور مذاہب کے طالب علم رہائش پذیر تھے،ادھر  کوئی مسلم گروہ رہ رہا  تھا تو ادھر کوئی  ہندو، بدھ مت، کرسچین ،  یہودی، پارسی  اور حتیٰ کہ دہریا  بھی۔عمارت کے فلیٹ چھوٹے،  بہت ہی سادہ سے اور مختصر رقبہ والے  تھے۔ مکینوں کیلئے  کئی ایک خدمات  تو  موجود ہی نہیں تھیں جن میں ایک کپڑے دھونے کیلئے مشین  کا نا ہونا بھی شامل تھا۔ تاہم اسی عمارت کے نیچے بیسمنٹ میں  ایک جگہ بنی ہوئی تھی جہاں کپڑے دھونے کی مشینیں لگی ہوئی تھیں، یہاں  عمارت کے مکین مشینوں میں پیسے ڈال کر اپنے کپڑے دھوتے تھے۔ اس جگہ پر ایک ریٹائرڈ بوڑھا بیٹھا رہتا تھا تھا۔ اکثر طالبعلم اپنے کپڑے اس کے پاس لا کر رکھ چھوڑتے۔ اگر دو ڈالر مشین  کی اجرت بنتی تو ان دو ڈالرکے ساتھ  کچھ اور پیسے   اضافی پیسے اس  بوڑھے کو  دیدیتے۔ بوڑھا کپڑے دھو کر، سکھا کر واپس تھیلوں میں ڈال کر رکھ دیتا اور یہ لوگ واپسی پر اس سے اٹھا  لےجاتے۔ یہ سلسلہ بہت عرصہ سے چل رہا تھا کہ ایک دن اس بوڑھے نے مجھے روکا اور کہا  مجھے ایک بات پر حیرت ہوتی ہے جس کے بارے میں ، میں  تم سے بات کرنا اور کچھ پوچھنا چاہتا ہوں؛  تم جوفلیٹ نمبر 13کے سعودی مکین ہو کیا تمہاری فلیٹ نمبر 18 کے کویتیوں سے کوئی تعلق یا مشترکہ ناطہ ہے؟ یا تمہارا اوپر رہنے والے خلیجیوں یا مصریوں یا ملیشی طلاب کے ساتھ کوئی مشترکہ تعلق  ہے؟ کیونکہ تم سب لوگوں میں ایک ایسی چیز مختلف ہے جو باقی سب میں موجود نہیں ہے۔ میں نے کہا بتاؤ تو وہ  کیا چیز ہے جو تمہیں ہم ان سب لوگوں میں مشترک  یا مختلف نظر آتی ہے؟ بوڑھا کہنے لگا ؛ اس کے باوجود کہ تم سب لوگوں کی زبانیں مختلف ہیں۔ تم سب لوگوں کی ثقافت، عادتیں  اور رسم و رواج  ایک دوسرے سے مختلف ہیں، حتیٰ کہ تم سب لوگوں کا میرے ساتھ اخلاق اور برتاؤ بھی مختلف ہے  مگر ایک ایسی چیز ہے جو تم سب میں مشترک اور دوسروں سے مختلف ہے۔میں نے پھر پوچھا کہ اچھا بتاؤ تو سہی وہ کیا چیز ہے تو کہنے لگا کہ تم لوگ جب بھی میرے پاس اپنے اندرونی کپڑے یا زیر جامے دھونے کیلئے چھوڑ جاتے ہو تو میں دیکھتا ہوں کہ ان میں نا تو پیشاب و پاخانے کی بو اور   آثار ہوتے ہیں نا ہی پیشاب و پاخانے وغیرہ کا رنگ لگا ہوتا ہے۔ تم سب لوگوں کے زیر جامے بہت صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسرے بدھ مت، ہندو  یا دیگر لوگ اپنے زیر جامے دھونے کیلئے لاتے ہیں تو ان کی حالت بہت ہی خراب ہوتی ہے اور ان  میں رنگ،  آثار یا بدبو  نمایاں ہوتی ہے۔میں نے بوڑھے کی طرف پوری توجہ سے دیکھا اور اسے کہا کہ  یہ اس لئے  ہے کہ ہمارا دین  ہمیں صفائی کا احترام سکھاتا ہے۔  اور ہمیں طہارت و پاکیزگی اختیار کرنے کا درس دیتا  ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے دین کا حصہ ہے کہ میں جب قضائے حاجت کیلئے جاؤں تو  فراغت کے بعد اپنے جسم کو خوب صاف  کروں۔ یہ اس لئے نہیں ہے کہ کوئی میری طہارت، صفائی یا پاکیزگی کی تعریف کرے بلکہ اس لئے ہے ہمارے دین نے ہمیں  ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ قبر کے عذاب کا بڑا سبب پیشاب سے احتیاط نا برتنا ہوگا۔  اور میں کافی دیر اس بوڑھے سے اس موضوع پر بات کرتا رہا۔بھائیو؛ اسلام کی بنیادی تعلیمات کا  ناصرف احترام کرنا بلکہ انہیں اپنے آپ پر لاگو کرنا ہی  اسلام ہے۔  زبانی جمع خرچ منافقت اور  جھوٹ  ہے۔ اگر اسلام سچائی کا دین ہے تو سچ کیوں نہیں بولتے؟ جھوٹ بول کر کس دین کی پیروکاری کرتے ہو؟  دین کا احترام کرو۔ اگر دین صفائی کا نام ہے تو پھر یہ پیلے دانت، گندے کپڑے، جسم سے بدبو کے بھبھکے اٹھتے ہوئے،  اڑے ہوئے بال کس دین کی نمائندگی کر رہے ہیں؟  دین  مسکراہٹ کا نام ہے پھر آپ کے ماتھے پر کیسے بل ہیں؟ آپ کی ایک مسکراہٹ آپ کی طرف سے صدقہ اور آپ کیلئے دوزخ کے عذاب سے نجات بن سکتی ہے۔  اگر دین حلم، برد باری، صلہ رحمی، بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے شفقت، راستوں پر نا بیٹھنے، سلام کو پھیلانے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، بھٹکوں کو راہ دکھلانے، مریضوں کی تیمارداری کرنے ، غمگینوں کی دلجوئی کرنے کا نام ہے، تو  پھر یہ نخوت، تکبر، مغروری، بے حسی، بے ایمانی، بے راہ روی،  کم تولنا، جھوٹ بولنا، وعدے توڑنا، کسی کے کام نا آنا ، احترام و شفقت کے رویوں سے دور رہنا کیسا دین ہے؟ دیکھ لیجیئے دین اپنایا ہے تو منظر، مظہر، برتاؤ، اوڑھنے، پہننے، کھانے پینے الغرض سب رویوں سے ان خصائل اور خصائص کی عکاسی بھی ہو ورنہ آپ کو  اپنے آپ پر اور اپنی مذہبی حیثیت پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔   
بشکریہ:حاجی سلیم صاحب
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...