*تقلیدی فرقوں کی انتہاء پسندی اور خانقاہی نظام کا اجراء*
(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ)
اس بے اعتنائی کی طرف اشارہ کرتے ہوے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " حجة اللہ البالغہ" میں جو لکھا ہے اس کے مطابق یہ بے اعتنائی شخصی تقلید کی صورت میں چار سو سال بعد شروع ہوئی.... پھر دھیرے دھیرے اس نے ایسی اندھی صورت اختیار کرلی کہ چھٹی صدی ھجری میں تصنیف ہونے والی احناف کی مشہور کتاب "الھدایہ" کو قرآن کے مثل قرار دے دیا گیا ہے۔ ۔ ۔
مشہور حنفی عالم شامی کا کلام ملاحظہ کیجے، لکھتے ہیں:
اٙلْھِدایةُ کالْقرآن قٙدْ نٙسٙخٙتْ ما صٙنّفُوا قٙبْلٙھا فِی الشّرْعِ مِنْ کِتاب ھِدایٙة
ترجمہ : ہدایہ قرآن کی طرح ہے ، جس نے اپنے سے پہلے جو کتب لکھی گئیں وہ سب منسوخ کردیں۔ ۔
یعنی جیسے قرآن کے آنے سے تورات اور انجیل منسوخ ہوگئیں ایسے ہی ہدایہ کی تصنیف سے حدیث کی اور دیگر تمام اسلامی کتب منسوخ ہوگئیں ۔ ۔
(نعوذ باللہ) ایک نے کہا :
کُلّ آیٙة اٙوْ حدیث تُخٙالِفُ مٙذْھٙبٙنا فٙھُوٙ اِمّا مُؤٙوّل اٙوْ مٙنْسُوْخٙة ۔ ۔ ( اصول سرخسی )
ترجمہ : ہر وہ آیت قرآنی اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے مذہب کے مخالف ہوگی یا تو اس کی تاویل کی جائے گی یا اسے منسوخ سمجھا جائے گا ....
دوسرے نے کہا :
عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو " یٙحْکُمُ بِالْمٙذْھٙبِ الْحٙنٙفیّ ( مقدمة دار المختار )
ترجمہ : وہ حنفی مذہب کے مطابق فیصلہ کریں گے ۔ ۔ ۔
شیخ الھند اور شیخ القرآن مولانا محمود الحسن دیوبندی نے تو کمال کردیا ۔ ۔ ایک مسئلہ میں امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کی آراء کا ذکر کیا تو اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے حدیث کے مطابق تھی اس لیے اس بات کا ذکر کرتے ہوے فرماتے ہیں:
اٙلْحٙقّ وٙالْاِ نْصٙافُ فِی ھٰذِہ ِالْمٙسْئٙلٙةِ مٙعٙ الْاِمامِ الشّافِعِیّ وٙ نٙحْنُ مُقٙلّدُوْنٙ ۔ ۔ یٙجِبُ عٙلٙیْنٙا تٙقْلٙیْدٙ اِمامِنٙا اٙبِیْ حنیفةٙ ۔ ۔( تقریر للترمذی )
ترجمہ : اس مسئلہ میں حق اور انصاف امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھ ہے لیکن چونکہ ہم امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں تو ہم پر ان کی تقلید واجب ہے ۔ ۔
یعنی حق اور انصاف کو تسلیم کر کے بھی نہیں ماننا...
اماموں کی تقلید کا ایک بھیانک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ مقلد علماء اسلام کے مجتھد بننے کے بجائے اپنے اپنے تقلیدی مذھب کے مجتھد بننے لگے ، یہ مجتھد فی المذھب کے نام سے معروف ہوے ، یعنی قرآن و حدیث جو اصل اسلام ہے اس کے مجتھد نہیں بلکہ اپنے امام کے اقوال اور اپنی مذھب کی لکھی ہوئی کتابوں کے مجتھد بننے لگے ۔ ۔
اس طرز عمل کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں کے سامنے جس مسئلہ میں قرآن و حدیث کے فرامین اور ان کے اماموں کے فرامین میں اختلاف واقع ہوا تو یہ مقلدین احادیث رسول کو اپنے اماموں کے اقوال کے مطابق ثابت کرنے لگے ۔ ۔
گویا وہ اپنے مذہب کی رنگین عینک لگا کر تقلیدی خراد کی مشین پر حدیث کا حلیہ بگاڑنے لگے۔۔ اور جب اس کے باوجود بس نہ چلا تو حنفیوں کی معتبر کتابوں " نور الانوار " اور " مراٰة الاصول مع شرح مرقاة الاصول " میں یوں لکھنے لگے :
جناب ابو ہریرہ اور جناب انس کی خلاف قیاس حدیثیں ردّ کردی جائیں گی کیونکہ یہ دونوں فقیہ نہیں ہیں۔۔
اب مقلدین کا قیاس تو یہی ہے کہ ہر حدیث کو فقہ حنفی کے مطابق ہونا چاہیے اور جس صحابی سے روایت ہونے والی حدیثیں ان کے قیاس پر پوری نہ اتریں تو کس قدر ڈھٹائی اور گستاخی کی حد ہے کہ پھر ان صحابہ رضی اللہ عنھم کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد ہیں انہیں فقیہ ماننے سے ہی انکار کردیا جائے۔۔ !!!!
ہمیں بتاو تو صحیح کہ اگر صحابہ ( یعنی دین کی سمجھ رکھنے والے ) نہیں ہیں تو پہر دنیا میں فقیہ ہے کون !!!!
فقیہ کی رٹ لگانے والے مقلد اس کا کیا جواب دیں گے ؟؟؟؟
غرض اس انتہاء پنہچنے کے بعد پہر تقلیدی فرقے آپس میں لڑنے لگے ۔ ۔ اپنے اپنےامام ، اپنے اپنے مذہب ، اور اپنی اپنی فقہی کتابوں کے تحفظ میں فرقہ پرستی کے تقلیدی دنگل میں کود پڑے اور اس حد تک پنہچ گئے کہ بیت اللہ کو بھی معاف نہ کیا اور اللہ کی توحید کی بنیاد پر انسانیت کی وحدت کے مرکز میں ان لوگوں نے قرآن و حدیث یعنی اسلام کے ایک مصلے کو ہٹا کر چار مصلے اپنے اپنے تقلیدی فرقوں کے نام پر بچھا ڈالے ۔ ۔ ۔
*خانقاہی نظام کا اجراء*
تقلید پرست علماء کی انتہاء پسندی اور ان کے مناظراتی جنگ و جدل سے تنگ آنے والے لوگ دوسری انتہاء پسندی کے شکار ہوگئے۔ ۔ اب علماء کی بجائے صوفیاء وجود میں آنے لگے ، خانقاہیں تعمیر ہونے لگیں .... شریعت و طریقت کے نام سے دین کے دو حصے کردیے گئے۔۔ ۔۔ باطنی سلسلے مختلف صوفیوں کے ناموں سے منظر عام پر آنے لگے ان سلسلوں کے علم بردار لوگوں سے بیعت لے کر انہیں اپنے اپنے حلقہ ارادت میں داخل کرنے لگے۔۔۔ ۔۔۔
ان سلسلوں کو تقدس کا روپ دینے کے لیے اکثر پیران طریقت اپنے اپنے سلسلوں کا سلسلہ نسب جناب علی تک پنہچانے لگے اور یوں سید کے نام سے خاندان نبوت کی پوجا ہونے لگی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
ان لوگوں کا تضاد ملاحظہ کیجے :
کہ یہ وہ لوگ ہیں جو جناب معاویہ کی خلافت کو اس وجہ سے ملوکیت کے نام سے تعبیر کرتے ہیں کہ جناب معاویہ نے یزید رحمہ اللہ کو اپنا ولی عھد بنا لیا تھایہ لوگ خود اپنی خانقاہوں کے وراثتاً گدّی نشین اور سجادہ نشین بننے لگے ،صاحبزادے ، سیدزادے اور شہزادے کہلوانے لگے ۔ ۔ ۔
مزاروں پر عرس ، میلے ، نذر و نیاز اور چادروں کے چڑھاوے شروع ہوگئے ، قبریں غلافوں میں لپٹنے لگیں ہیں ، عمل کے بجائے عملیات اور کرامات کے واقعات ملفوظات کی صورت میں مرتب ہونے لگے جن میں لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے ولی کی شان جلالی کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص بے پرواہی یا بے سمجھی سے حضرت کا احترام کما حقہ ادا نہیں کرتا تو فوراً اس پر غضب الٰہی نازل ہوجاتا ہے.....!!!
حضرت کی شان جلالی تسلیم نہ کرنے والوں کی کبھی ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں تو کبھی یہ ہوتا ہے کہ ماننے والے عقیدتمندوں کی جانب سے نذر و نیاز نہ ملنے کی بناء پر بھینس کے تھنوں سے دودھ کی بجائے خون آنا شروع ہوجاتا ہے۔....!!
احکام الٰہی کی تو صریحاً خلاف ورزی ہوتی ہے اور شہنشاہ کائنات خاموش ہےلیکن پیر صاحب کی ذرا سی بے ادبی مصیبتوں کا طوفان لے کر نازل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ان کا تو مقام اس قدر بلند ہے کہ ان کی نظرِ کرم سے قوموں کی قسمت بدلتی ہے اور شان جلالی کے اظہار سے سلطنتوں کے تختے الٹے جاتے ہیں...!!
ایک بزرگ کو جب ملتان کے ایک نانبائی نے گوشت کی بوٹی بھون کر نہیں دی تو حضرت نے اپنا ہاتھ بلند کیا تو سورج سوا نیزے پر آگیا ، شہر کے سب مرد عورتیں اور بچے جل کر کباب ہوگئے...!! مگر حضرت نے اپنی بوٹی تو روسٹ کرلی لیکن اس کے لیے سارے شہر کے باسیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا.....
غرض اس قسم کے من گھڑت قصوں سے مسلمان توہم پرستی کا شکار ہوتے چلے گئے اور ان میں شرکیہ اور کمزور عقیدے جنم لینے لگے کہ جو کبھی مشرکوں اور کافروں کا طرہ امتیاز ہوا کرتے تھے اور انہی عقائد کی بناء پر غیروں کے ہاتھوں ذلیل ہوئے.... اور آج اُلٹی گنگا یوں بہنے لگی کہ ان شرکیہ نظریات کو مسلمان کہلوانے والوں نے اپنانا شروع کردیا اور احادیث کی بجائے بزرگوں کے باطل کشف الہام کو دین سمجھ بیٹھے.....-
ماخوذ از: آسمانی جنت اور درباری جہنم،
امیر حمزہ کی کتاب "
www.dawatetohid.blogspot.com