Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین تقابلی مطالعہ

* تصوف اور ناقدین تقابلی مطالعہ *
(قسط نمبر 15)
*وحدت الوجود  کی توجیہات*
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ بعض پابند شریعت صوفیاء نے  وحدت  الوجود کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کے دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ حقیقی وجود صرف اللہ تعالی کا ہے اور بقیہ ہر چیز کا وجود مجازی ہے۔ اس کے لیے وہ انسانی تخیل اور خواب کی مثال دیتے ہیں۔ دوسرا نقطہ نظر وحدت الشہود کا ہے۔ اب ہم دیکھیں گے کہ ان دونوں نظریات پر ناقدین تصوف  کیا تنقید کرتے ہیں؟
وجود کی حقیقی و مجازی تقسیم 
صوفیاء کا نقطہ نظر
بعض صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالی کا وجود حقیقی ہے اور  ساری مخلوق کا وجود مجازی ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی  کرتے ہوئے سنی بریلوی عالم،  علامہ احمد سعید کاظمی (1913-1986) لکھتے ہیں:
اس پر سوال ہوتا ہے کہ یہ زمین، آسمان، چاند، سورج، چرند، پرند، انسان، حیوان، نور، ظلمت، ہدایت و گمراہی، خیر و شر ان سب کا وجودہے اور اگر ہم ان کا وجود نہ مانیں تو اللہ کی صفت تخلیق کا انکار لازم آئے گا اور اس طرح ہم شرک سے بچ کر کفر کا شکار ہو جائیں گے۔
اس کے جواب میں عرض ہے کہ وجود حقیقی تو اللہ ہی کا ہے، باقی تمام کائنات کا وجود حقیقی نہیں مجازی ہے۔ حقیقت وجود، وجود واحد کے سوا موجود نہیں۔ آئینہ خانے میں جہاں ہر طرف، ہر سمت بے شمار آئینے جڑے ہوں، ایک شمع روشن ہو تو وہ ہر آئینے میں جگمگاتی نظر آتی ہے، ہر عکس اس ایک شمع کا محتاج ہے، وہ ایک شمع بجھ جائے تو ہر سو اندھیرا چھا جائے۔ ساری جگمگاہٹ اور روشنی اسی ایک شمع کی مرہون منت ہے۔ لیکن اس مثال پر اعتراض ہو کہ آئینوں کا تو اپنا وجود ہے، اس لیے اس بات کو دوسرے انداز میں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ آپ ایک کمرے میں تشریف رکھتے ہیں، آپ کے سامنے چارپائی ہے، پیچھے دروازہ ہے، دائیں طرف کھڑکی ہے اور بائیں طرف الماری ہے، آپ کے اوپر چھت ہے اور نیچے فرش ہے۔ اگر آپ رخ پھیر لیں تو آگے، پیچھے، دائیں،  بائیں کا مفہوم بدل جائے گا اور اسی طرح اگر آپ چھت پر چلے جائیں تو اوپر نیچے کا تصور بھی تبدیل ہو جائے گا۔ یہ آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر ، نیچے ، ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے۔ آپ ہیں تو یہ سمتیں اور جہتیں بھی ہیں، اگر آپ نہیں تو یہ بھی نہیں۔ آپ جب کمرے میں داخل ہوئے تو ان سمتوں کو ساتھ لے کر نہیں آئے کہ ان کا اپنا علیحدہ کوئی وجودنہیں ہے، آپ کے وجود کے باعث یہ از خود متصور ہو گئی ہیں۔
اگر ریاضی کے حوالے سے سوچیں تو تمام اعداد "ایک" کے مرہون منت ہیں۔ بلکہ کمپیوٹر میں تو ایک اور صفر، صرف یہی عدد استعمال ہوتے ہیں۔ "ایک" وجود ہے، "صفر" عدم ہے۔ باقی تمام اعداد و شمار اسی ایک وجود کے مرہون منت ہیں۔ وجود حقیقی وہی ایک وجود ہے، باقی سب کچھ اس کی صفات کا جلوہ ہے، اس کی قدرت کی کرشمہ سازی ہے، کہیں اس کی صفت جلال جلوہ نما ہے، کہیں اس کے جمال کی جلوہ آرائی ہے۔ ّ
جدت پسند اذہان کی تسکین کے لیے اسی بات کو ایک دوسرے انداز میں عرض کرتا ہوں۔ کسی مسئلہ کی تحقیق کے لیے کچھ چیزیں فرض کر لی جاتی ہیں۔ فرض کرو ایک شخص ہے، اس کے فلاں فلاں اہل خانہ ہیں، فلاں حالات سے وہ گزرتا ہے اور فلاں صورتحال پیش آتی ہے، اس صورت میں اس شخص کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ علماء جانتے ہیں کہ مسائل کے استنباط کے لیے اس نوعیت سے چیزیں فرض کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یا جیسے حساب و کتاب کے معاملات میں سوال حل کرنےکے لیے چند چیزیں فرض کر لی جاتی ہیں۔ الجبرا میں کہتے ہیں کہ اس چیز کی قیمت خرید فرض کر لی جو برابر ہے "لا [X] " کے۔ اب سب جانتے ہیں کہ "لا" کا مفہوم ہے "نہیں"۔ لیکن جب قیمت "لا" فرض کر لی جاتی ہے تو سوال حل ہو جاتا ہے اور جواب تلاش کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔
یہ تمام چیزیں جو ہم فرض کرتے ہیں، ان کا حقیقتاً کوئی وجود نہیں ہوتا۔ لیکن عالم فرض میں ایسی بے شمار اشیاء آن واحد میں متحقق ہو جاتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی جب کسی شے کی تخلیق کا ارادہ فرماتا ہے تو فرماتاہے ، "کن" تو وہ چیز ہو جاتی ہے۔  إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔"اس  کا حکم یہی ہے۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرمائے تو اس سے کہے ، ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔"
ظاہر ہے کہ حقیقی اشیاء کے بنانے میں وقت صرف ہوتا ہے، فرضی اشیاء کی تخلیق میں نہیں۔ فرق اتنا ہے کہ جتنی ہماری حیثیت اور وقعت ہے، اتنی حیثیت  ہماری  فرض کی ہوئی چیزوں کی ہے اور خدا کی تخلیق کردہ اشیاء اس حقیقی وجود کے مقابلے میں فرضی ہونے کے باوجود "موجود" معلوم ہوتی ہیں۔ دیکھیے شاعر بتاتے ہیں اور صوفیاء کرام نے کہا ہے کہ یہ دنیا دراصل عالم خواب ہے۔ جب ہماری موت آئے گی تو یوں کہیے کہ ہماری آنکھ کھلے گی تو اس کائنات کو بھی اسی انداز میں خواب تصور کیجیے۔ لیکن یہ خواب دکھانے والا وہ قادر مطلق ہے۔ اس لیے اس خواب کو خواب سمجھنا بھی خواب و خیال کی بات معلوم ہوتی ہے۔
بہر کیف اس تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام کائنات مجاز ہے، فرضی چیز ہے اور حقیقی وجود صرف اس کا ہے۔
اب غور کیجیے کہ وحدت الوجود پر یقین رکھنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شرک کیا، کہ یہ چونکہ صرف رب کے وجود کو مانتے ہیں، اس لیے انہوں نے گویا ہر موجود شے کو خدا تسلیم کر لیا، ان کے کہنے کے مطابق جب خدا کے سوا کچھ نہیں تو پھر جو کچھ ہے، وہ خدا ہی ہے، پھر ہر شے خدا ہے۔ دراصل یہ مغالطہ ہے، شرک تو اس وقت ہو گا جب خدا کے سوا کسی شے کو مانو گے، تسلیم کرو گے، پھر اسے خدا کی ذات و صفات میں شریک ٹھہراؤ گے، جب تمہارا عقیدہ یہ ہو گا کہ خدا کے سوا کچھ نہیں، یہ کائنات رنگ و بو، یہ عالم آب و گل، یہ زمین و آسمان، یہ ستارے، یہ کہکشاں، یہ نباتات و جمادات، یہ انسانوں کی فوج ظفر موجد، یہ حشرات الارض، یہ سیم و زر کے انبار، یہ اجناس و اثمار، یہ شجر و حجر، یہ سب مجاز ہیں، یہ سب فرضی چیزیں ہیں، یہ ذہن و نظر کا فریب ہے، یہ ساری کائنات اعتباری ہے، حقیقی نہیں، خدا کے سوا کچھ نہیں ہے، جب تم اس کے سوا کسی کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کی ذات میں کسی شریک کیسے کر سکتے ہو۔  جس کو تم شریک کرنا چاہو گے، پہلے اس کے وجود کو تو مانو گے، جو چیز ہے ہی نہیں، وہ خدا کی ذات و صفات میں شریک کیسے ہو سکتی ہے؟  

*ناقدین تصوف کا جواب*
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ اول تو حقیقت و مجاز کی یہ بات قرآن و حدیث میں کہیں بیان نہیں ہوئی۔  اگر اللہ تعالی ہی وجود حقیقی ہے اور باقی سب کچھ محض نظر کا فریب ہے تو پھر اللہ تعالی کو خود ہی یہ بات بتا دینی چاہیے تھی۔ اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ قرآن مجید اس کائنات کی ہر ہر چیز کا وجود تسلیم کرتا ہے اور اس کے بارے میں بتاتا ہے کہ اللہ تعالی ان تمام اشیاء کا خالق ہے۔
اگر اللہ تعالی وجود حقیقی ہے اور بقیہ ساری کائنات وجود مجازی اور محض  ایک خواب ہی ہے تو پھر جزا و سزا کے کیا معنی ہیں؟  کیا جزا و سزا ایک فریب نظر ہی ہے؟ کیا جنت و دوزخ کا بھی حقیقی وجود نہیں ہے اور یہ سب محض ایک وہم اور مجاز ہی ہے؟  اللہ تعالی نے جو پیغمبر اس دنیا میں بھیجے، کیا وہ سب کے سب مجاز ہی تھے؟ نیکی اور بدی کی قوتیں جو ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں، کیا وہ سب بھی مجاز ہی ہے؟ اگر سب کچھ  اللہ تعالی کے ہاں مجازی طور پر  ہی میں ہو رہا ہے تو پھر ہمیں کس بات کی جزا یا سزا ملے گی؟ اس توجیہ کو مان لینے کے بعد انسانی ارادہ کی کلیتاً نفی ہو جاتی ہے اور اس سےقیامت اور جزا و سزا کا پورا عقیدہ بھی غلط ہو کر رہ جاتا ہے۔  قرآن مجید اس سے بالکل مختلف مقام پر کھڑا ہوا ہے اور اس کی پوری دعوت اس بات پر مبنی ہے کہ  ہر چیز کا ایک الگ وجود ہے اور یہ تخلیق اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو اللہ تعالی کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ 
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ (12) ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (13) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَاماً فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (14) ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (16) وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنْ الْخَلْقِ غَافِلِينَ (17) وَأَنزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ (18) فَأَنشَأْنَا لَكُمْ بِهِ جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ لَكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (19) وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَيْنَاءَ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِلآكِلِينَ (20) وَإِنَّ لَكُمْ فِي الأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (21) وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ (22)
ہم نے انسان کو مٹی کی پیسٹ سے بنایا ، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کو ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دُوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے  اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اُٹھائے جاوٴ گے۔
اور تمہارے اُوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے۔ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ہم اُسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں۔ پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیز پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو۔ اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طوُرِ سیناء سے نکلتا ہے، تیل بھی لیے ہوئے اُگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی۔
اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ہم تمہیں پلاتے ہیں، اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دُوسرے فائدے بھی ہیں۔ اُن کو تم کھاتے ہو اور اُن پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو۔  (المومنون)
ناقدین تصوف کہتے ہیں کہ یہ مضمون قرآن مجید میں بکثرت بیان ہوا ہے۔ ان آیات اور اسی مضمون کی دیگر آیات کو پڑھتے چلے جائیے۔ کیا یہ تصور کہیں ملتا ہے کہ یہ سب جو ہمیں نظر آ رہا ہے، محض نظر کا فتور اور دماغ کا فریب ہے؟ اس کے برعکس اللہ تعالی ان سب چیزوں کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش فرما رہا ہے کہ ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ. ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونََ. یعنی "پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اُٹھائے جاوٴ گے۔" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی مخلوقات کا وجود ہے  اور یہ سب فریب نظر نہیں ہے۔ "تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
www.dawatetohid.blogspot.com
جاری ہے......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...