Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ


* تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ*
(قسط نمبر 9)
تصوف کے دیگر امور
اہل تصوف کو دوطرح کے امور سے واسطہ پڑتا ہے: ایک توابع اور دوسرے موانع۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔
توابع
توابع سے مراد وہ امور اور کیفیات ہیں جن سے ایک سالک (راہ تصوف میں سفر کرنے والا) کو واسطہ پڑ سکتا ہے۔  ان میں بعض امور ایسے ہوتے ہیں، جن میں سالک یا کسی اور کو نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے اور بعض امور ایسے ہوتے ہیں جن میں نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔ وہ امور یہ ہیں: وحدت الوجود ؛ سکر اور صحو؛ کشف  اور الہام؛ استغراق؛ تصرف؛ قبض و بسط؛ کرامت؛ مشاہدہ؛  وجد؛ دعاؤں کا قبول ہونا اور فہم و فراست؛ اچھے خواب؛ فناء و بقاء؛ عملیات۔
اب ہم انہیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں:
*وحدت الوجود (Pantheism)*
وحدت الوجود ایک فلسفہ ہے  جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف ایک ہی وجود حقیقی ہے اور وہ اللہ تعالی کی ہستی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی کائنات ہمیں نظر آتی ہے، یہ سب محض ایک وہم اور دھوکہ ہے۔  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ فلسفہ درست ہے تو پھر نہ تو انسان کا کوئی حقیقی وجود ہے اور نہ ہی شیطان کا۔ اس کے بعد نہ تو دین کا کوئی تصور باقی رہ جاتا ہے، نہ رسالت کا  اور نہ آخرت کی جزا و سزا کا۔  اس کے بعد نعوذ  اللہ رحمان اور شیطان بھی ایک ہو جاتے ہیں اور  تمام کے تمام انسان، حیوانات، جمادات سبھی اسی ایک وجود باری تعالی کا حصہ بن جاتے ہیں اور نہ کوئی خالق رہتا ہے اور نہ مخلوق۔ اکثر ہندوؤں کا بھی یہی عقیدہ ہے جس کے باعث وہ بہت سے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں اور انہیں بھگوان ہی ایک شکل (Incarnate) قرار دیتے ہیں۔ اسلام کے ساتھ اس کھلے تصادم کے باوجود صوفیاء کے ایک بڑے حلقے میں اس فلسفے کا بڑا زور رہا ہے اور اب تک ہے۔
بعض صوفی بزرگ اس نظریے کی توجیہ یہ کرتے ہیں  کہ جب ایک سالک صوفیانہ طریق پر فنا فی اللہ کے مقام پر پہنچتا ہے تو پھر اس پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ اسے اللہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ معاملہ حقیقت نہیں ہوتا بلکہ محض اس سالک کی کیفیات ہوتی ہیں۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ فی الحقیقت ان تمام مخلوقات کا اپنا ایک وجود ہے اور یہ اللہ تعالی کی تخلیق ہیں۔ سالک پر فنا فی اللہ کے  مقام پر پہنچ کر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ اسے اللہ تعالی کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا ہے مگر فی الحقیقت وہ سب موجود ہوتا ہے۔ اس تصور کو مشہور صوفی بزرگ شیخ احمد سرہندی معروف مجدد الف ثانی (971-1034/1564-1624) نے "وحدت الشہود" کا نام دیا۔ بعض صوفیاء کہتے ہیں کہ یہ دونوں اصطلاحات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔حقیقت ان کی ایک ہی ہے-
وحدت الوجود کے بارے میں صوفیاء کے ہاں دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ان کا ایک گروہ تو وحدت الوجود پر ایمان رکھتا ہے اور  یہ سمجھتا ہے  کہ فی الواقع صرف ایک ہی وجود ہے۔ یہی تصور ان کی تحریروں و افکار  میں چھلکتا ہے۔
دوسرا گروہ وحدت الشہود پر یقین رکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ معاملہ صرف ایک سالک کی کیفیات کا ہے، فی الحقیقت  ایک وجود کا یہ گروہ قائل نہیں ہے۔زمانہ قدیم سے نظریہ وحدۃالوجود کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہا ہے ۔ البتہ اس کو پوری شرح و بسط کے ساتھ ابن عربی نے پیشں کیا-
جبکہ ناقدین کا کہنا ہے؛مولانا اقبال کیلانی لکھتے ہیں:بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہےاس عقیدے کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔ عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے، اور وہ دونوں(خدا اور انسان) ایک ہو جاتے ہیں، اس عقیدے کو “وحدت الشہود“ یا فنا فی اللہ کہاجاتاہے، عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہا جاتا ہے۔ ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہانسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار بدھ مت کے عقیدہ نرواں اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ (یہودی اسی فلسفہ حلول کے تحت عزیر کو اور عیسائی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (جزء) قرار دیا دیکھیں [سورۃ التوبۃ:30) اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ (مولانا اقبال کیلانی:کتاب التوحید اور شریعیت و طریقت-)
امام ابن تیمیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔ ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آرہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین ، ص 160)
وحدۃالوجود اور وحدۃ الشھود:وحدۃالوجود کی سادہ اور آسان تعریف کریں تو اس سے مراد "ایک ہو جانا" ہے یعنی اللہ تعالی کی ہستی میں گم ہو جانا۔اور وحدۃالشہود سے مراد "ایک دیکھنا ہے"یعنی چاروں طرف" تو ہی تو "ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے-
عقیدہ وحدۃالوجود اور وحدۃ الشھود تفصیلی بحث آگے آرہی ہے-
سکر اور صحو
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک سالک جب فنا کے مقام پر پہنچتا ہے تو اس پر بے خودی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اسے "سکر" کہا جاتا ہے۔ سکر سے باہر نکل کر نارمل ہونے کو "صحو" کہا جاتا ہے۔ اگر سکر کی حالت مستقل رہے تو ایسا صوفی "مجذوب" کہلاتا ہے۔ مجذوب حضرات دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتے ہیں، کبھی برہنہ ہو کر گلیوں میں گھومتے ہیں اور پوشیدہ اعضاء کی نمائش بھی کر دیتے ہیں، کبھی سخت گرمی میں آگ کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں، کبھی غلیظ گالیاں دیتے ہیں اور کبھی  ایسی گفتگو کرتے ہیں جو کسی سمجھ میں نہیں آتی۔ ایسے مواقع پر بعض صوفیاء خدا ہونے کا دعوی بھی کر بیٹھتے ہیں۔ صوفیاء کا وہ گروہ جو وحدت الوجود کا قائل ہے، اس بات کو حقیقی سمجھ بیٹھتا ہے اور ان کے خدائی کے دعوے کو درست سمجھ بیٹھتا ہے۔ 
مشہور صوفی منصور حلاج  (244-309/858-922)نے انا الحق یعنی "میں خدائے حق ہوں" کا نعرہ لگایا جس  کی پاداش میں انہیں موت کی سزا دی گئی لیکن یہ بات معلوم و معروف ہے کہ وہ حالت سکر میں نہیں تھے ورنہ انہیں یہ سزا نہ دی جاتی کیونکہ اس حالت میں تو بے شمار صوفیاء نے ایسے دعوے کیے ہیں۔ ایک صوفی بزرگ ابو یزید بسطامی (188-260/804-874) کے بارے میں صوفیاء کی کتب میں لکھا ہے کہ انہوں نے "سبحانی ما اعظم شانی" یعنی "میں پاک ہوں، میری شان کیا بلند ہے!" کا اعلان کر دیا۔ جب ان کی کیفیت درست ہوئی تو انہوں نے ان کلمات سے اظہار براءت کیا۔
جو گروہ وحدت الشہود کا قائل ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ وحدت الوجود میں اگر کوئی شخص بے خودی یا سکر کی کیفیت میں ہو، تو اسے معذور سمجھنا چاہیے اور اس کی باتوں کو محض "دیوانے کی بڑ" سمجھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بے خودی کے عالم میں وحدت الوجود کی کیفیت کو مضر سمجھتے ہیں، ہاں اگر بے خودی کی کیفیت نہ ہو، تو پھر اس کیفیت میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں۔
کشف اور الہام
کشف الہی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات اور صفات سے متعلق علوم، اسرار و معارف کا انسان کے قلب پر وارد ہونا۔ کشف کونی سے مراد یہ ہے کہ ایسی چیزوں کو حالت کشف یا خواب میں دیکھنا جو عام لوگوں کو نظر نہیں آتیں جیسے مستقبل کا کوئی واقعہ، ماضی کا کوئی پوشیدہ راز وغیرہ۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ باطن کی آنکھ سے کچھ چیزوں  کا مشاہدہ کر رہا ہے یا پھر ہاتف غیبی سے آنے والی آواز اس کی راہنمائی کر رہی ہے۔ اسے حالت بیداری یا خواب میں مستقبل کے واقعات دکھائے جا رہے ہوتے ہیں، اور غیبی آواز اس سے کلام کر رہی ہوتی ہے۔
بہت سے صوفیاء کو دیکھا گیا ہے کہ وہ کشف کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے بھی اپنے دعوی نبوت کی بنیاد کشف پر ہی رکھی تھی۔جس طرح احمدی مذہب برصغیر کے اندر اہل سنت کے اندر پیدا ہوا اسی طرح بہائی مذہب ایران میں اہل تشیع کے اندر پیدا ہوا-جیسے احمدی مذہب کا آغاز 1891ء مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت(نبوت)سے ہوا ، بالکل اسی طرح بہائی مذہب کا آغاز 1863ء میں بہاء اللہ صاحب کے دعویٰ نبوت سے ہوا-
مزید اسی طرح اٹھارویں صدی میں امریکہ میں غلامی کے خاتمے کی تحریک شروع ہوئی جو ڈیڈھ دو سو برس کی جدوجہد کے بعد 1860ء کے عشرے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی 1930ء کے عشرے میں عظیم معاشی ڈپریشن کے نتیجے میں امریکہ میں غربت کا اضافہ ہوا-ویلس ڈی فرڈ محمد(c.1877- 1934 )ایک سیاہ فام سیلز مین تهے جنہوں نے اس زمانے میں سیاہ آبادی کو اکهٹا کیا اور انہیں منظم کر کے ان کی اصلاح کی طرف توجہ کی-ویلس ڈی فرڈ محمد 1934ء میں اچانک غائب ہو گئے -کہا جاتا ہے کہ امریکی ایجنسیوں نے انہیں ہلاک کر دیا تها-ان شاگرد علی جاہ محمد (1995-1897ء) نے 1935ء میں نیشن آف اسلام (NOI)کی بنیاد رکهی-انہوں نے خود کو اللہ کا پیغمبر قرار دیا-اور دعویٰ کیا کہ عیسائی اور یہودی جس مسیحا کے منتظر ہیں وہ میں ہی ہوں-NOI کے حلقوں میں احمدیوں کے لاہوری فرقہ کا بانی مولانا محمد علی کا ترجمہ قرآن ، مجموعہ حدیث اور دیگر کتب ذوق و شوق سے پڑهی جاتی ہیں-
ان تینوں گروہوں کی شخصیات کا دعویٰ نبوت کی بنیاد کشف اور الہام ہی تهی-(جس کی مکمل تفصیلات کے لئے کتاب؛بہائیت اور معتقدات مصنف پروفیسر نذیر احمد بهٹی اور انکار سنت ، انکار ختم نبوت اور اسلام مصنف محمد نذیر کا مطالعہ کریں)
پابند شریعت صوفیاء کشف کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اس بات کو مانتے ہیں کہ کشف کو تبھی درست مانا جائے گا جب یہ شریعت کے مطابق ہو۔ سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں:
کشف کسی پردے والی چیز کے ظاہر ہونے کو کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بہت ساری چیزیں پیدا کی ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں یا بہت سارے واقعات ہوئے ہیں، ہو رہے ہیں یا ہوں گے اور ان پر پردے پڑے ہوئے ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کو کسی پر ظاہر کردیں تو یہ "کشف کونی" کہلاتا ہے۔اس میں کافر و مسلمان کی بھی تخصیص نہیں۔کیونکہ یہ دنیا کی چیزیں ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بعض کی نظر تیز اور بعض کی کم رکھتے ہیں اسی طرح کسی پر زیادہ چیزوں اورواقعات کو ظاہر کرتے ہیں کسی پر کم۔ اس طرح بہت سے علوم و معارف اور اسرار ہیں جو عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں اور بعض خوش قسمتوں کو ان میں سے کچھ عطا فرما دیتے ہیں۔اس کو "کشف الٰہی" کہتے ہیں۔ یہ البتہ ایک عظیم نعمت ہے لیکن غیراختیاری ہونے کی وجہ سے کوئی اس کے بھی درپے نہ ہو کیونکہ قبولیت کا دارومدار معلوم چیزوں میں خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر ہے۔ پس جتنا علم ضروری ہے اس کا تو حاصل کرنا ضروری ہے اور وہ کسبی اور اختیاری ہے اور جو غیر اختیاری ہے اس کے بارے میں فیصلہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیئے۔
عمل شریعت کے مطابق ہونا چاہیئے، چاہے اس کو کشف ہو یا نہ ہو کیونکہ شریعت وحی سے ہے اور ہمارے کشف کا کوئی اعتبار نہیں۔ٹھیک بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی ۔پس یقینی کے مقابلے میں ظنی کی کیا حیثیت ہے!
استغراق:
استغراق ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں سالک خود کو اور اپنے ماحول کو فراموش کر کے  اپنےصوفیانہ مشاہدات میں غرق ہوتا ہے۔ ایک صوفی بزرگ عبدالقدوس گنگوہی (d. 943/1537) کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اتنے مستغرق رہا کرتے تھے  کہ انہیں نماز کے اوقات کا علم بھی نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے ایک خادم کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ہر نماز کے وقت ان کے کان میں "حق، حق" کہے۔ اسے سن کر وہ استغراق سے باہر آتے اور نماز ادا کرتے۔ "تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...