Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ



*تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ*
(قسط نمبر 6)
تصوف کے ذرائع
جیسا کہ ہم پچھلی اقساط میں بیان کر چکے ہیں کہ تصوف کا مقصد "وصول الی اللہ" یعنی اللہ تعالی تک پہنچنا ہے۔ ذرائع سے مراد وہ عملی اقدامات اور تدابیر ہیں جنہیں اس مقصد کے حصول کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اہل تصوف کا کہنا یہ ہے کہ وصول الی اللہ کے راستے تین قسم کے ہیں:
طویل ترین: نماز روزے کی کثرت، تلاوت قرآن مجید، حج، جہاد یعنی شریعت کے احکام کے نتیجے میں انسان اللہ تعالی تک پہنچ جاتا ہے مگر یہ راستہ طویل ترین ہے۔ یہ راستہ اخیار (اچھے لوگوں) کا ہے۔
اوسط: اس راستے میں سفر جلدی طے ہو جاتا ہے مگر شرعی احکام کے علاوہ کچھ اور مجاہدات کرنا پڑتے ہیں۔ یہ راستہ ابرار (نیک لوگوں) کا ہے۔
اقل و اقرب: یہ طریق عشق ہے جس میں سالک دنیا کو چھوڑ کر خلق سے دور چلا جائے اور اپنی زندگی ذکر، فکر، درد، شوق اور محبت الہی میں گزار دے۔ اس راستے سے سالک بہت جلد اللہ تعالی تک پہنچ جاتا ہے ۔
اس تصور کو سمجھانے کے لیے اہل تصوف ٹرین کی مثال دیتے ہیں۔ بعض ٹرینیں تیز رفتار ہوتی ہیں اور بعض نارمل رفتار سے چلتی ہیں۔ سالک اگر تیز رفتار ٹرین پر سوار ہوجائے تو اس کا سفر جلدی طے ہو جاتا ہے مگر اس کا ٹکٹ زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر سالک اوسط یا مختصر راستے پر سفر کرتا ہے تو اسے اس کی اضافی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
وصول الی اللہ کے لیےجو ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں، وہ بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں:
مجاہدہ اور فاعلہ۔  مجاہدے سے مراد نفس کو کنٹرول کرنے کے لیے اسے اذیت دینا ہے اور فاعلہ سے مراد کچھ اضافی تراکیب ہیں جو روحانی قوتوں میں اضافہ کے لیے صوفیاء سر انجام دیتے ہیں۔ ان میں ذکر، شغل اور مراقبہ سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ سماع، تصور شیخ اور عشق مجازی بھی انہی میں شامل ہیں۔ ان سب کی تفصیل یہ ہے:
مجاہدہ
مجاہدہ کا مطلب  یہ ہوتا ہے کہ اپنے جسم کو اذیت دی جائے تاکہ نفس قابو میں آ جائے۔ تمام برائیوں کا منبع چونکہ انسانی نفس اور شیطان ہیں اور یہی دونوں انسان کو برائیوں پر اکساتے ہیں، اس وجہ سے ضروری ہے کہ  انہیں کنٹرول کیا جائے۔  انسانی نفس کی خواہشات اندھی ہوتی ہیں، اس وجہ سے یہ آسانی سے شیطان کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ انسانی نفس کی تہذیب کر کے اس پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا جائے تاکہ شیطان اس نفس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔
نفس کو کنٹرول کرنے سے متعلق اہل تصوف گھوڑے کو سدھانے کی مثال پیش کرتے ہیں۔  جیسے گھوڑا اگر اڑیل ہو اور انسان کے قابو میں نہ آ رہا ہو تو اس کی تربیت کی جاتی ہے۔ کبھی اسے پیار کیا جاتا ہے تو کبھی مارا جاتا ہے، کبھی دانہ دیا جاتا ہے اور کبھی بھوکا رکھا جاتا ہے، کبھی اسے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور کبھی اس پر بوجھ لادا جاتا ہے  تاکہ  یہ مالک کے اشاروں پر چلنے لگے۔ بالکل اسی طرح جب نفس قابو میں نہ آئے تو اسے قابو میں لانے کے لیے اسے اذیتیں بھی دی جاتی ہیں اور کبھی اس کی بات مان بھی لی جاتی ہے۔ اسے صوفیاء کی اصطلاح میں "مجاہدہ" کہا جاتا ہے۔
مختلف صوفی سلسلوں میں مجاہدے کی متعدد شکلیں ہوتی ہیں: کبھی نفس کا پسندیدہ کھانا بند کر دیا جاتا ہے، کبھی طویل عرصے تک روزے رکھے جاتے ہیں، کبھی چپ کا روزہ رکھ لیا جاتاہے، کبھی نیند کم کر دی جاتی ہے، کبھی جنسی تعلق کو منقطع کر دیا جاتا ہے، کبھی ساری ساری رات عبادت کی جاتی ہے، کبھی لاکھوں کی تعداد میں ذکر و درود  کا ورد کیا جاتا ہے، کبھی جوتا پہننا چھوڑ دیا جاتا ہے، تو کبھی گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں ٹھنڈے علاقے میں بے سرو سامانی میں وقت گزارا جاتا ہے۔کبهی لباس اتار کر مختصر لباس پہنا جاتا ہے-کبهی جسم کے مختلف وہ حصے  جو بڑهتے ہیں مثلاً بال ناخن وغیرہ ان کو کئی کئی سال تک کاٹا نہیں جاتا-کبهی کئی کئی سال غسل نہیں کیا جاتا-کبهی کئی کئی سال کسی سے ملا نہیں جاتا وغیرہ
بعض صوفی بزرگ مجاہدے کے تین اصول بیان کرتے ہیں: تقلیل طعام، تقلیل منام (سونا) اور تقلیل کلام۔  ان کا موقف یہ ہے کہ ان چیزوں سے نفس نرم پڑ کر قابو میں آ جاتا ہے۔
صوفیاء کی کتب میں ان کے واقعات پڑھے جائیں تو ان کے ہاں بڑے غیر معمولی مجاہدوں کا ذکر ملتا ہے۔  امام غزالی کی تصانیف  ایسے مجاہدوں کے ذکر سے بھری  ہوئی ہیں۔ بعض صوفی کئی کئی سال تک سوئے نہیں تو کئی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ایک عرصے تک کبھی بات نہیں کی۔ ایک صوفی ساری عمر ننگے پاؤں رہے۔ ایک اور صوفی کا واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے  اپنا پسندیدہ کھانا ترک کر دیا اور ساتھ ہی اپنے نفس سے وعدہ کر لیا کہ اگر وہ انہیں تنگ نہ کرے تو  وہ دس سال بعد اسے کھانے کو وہی پسندیدہ کھانا دیں گے۔  دس سال بعد جب وہ اپنا وعدہ پورا کرنے لگے تو نفس نے کہا کہ میں آخر دس سال بعد جیت ہی گیا۔ انہوں نے وہیں اس کھانے کو پھینک دیا اور نفس کی خواہش پوری نہ کی۔
مجاہدات کے ضمن میں صوفیاء کا کہنا یہ ہےکہ سالک کو مجاہدہ خود نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے لیے اپنے مرشد سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ مرشد کو بھی چاہیے کہ وہ سالک کی جسمانی صحت، نفسیاتی حالت اور سماجی و معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے مناسب مجاہدہ تجویز کرے۔
مجاہدے کا یہ تصور دیگر مذاہب کے تصوف میں بھی ہے بلکہ عیسائی، بدھ اور ہندو راہبوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے ہاں اس معاملے میں غیر معمولی شدت پائی جاتی ہے۔ کئی کئی سال نہ سونا، خارش کر دینے والا لباس پہنے رکھنا، ہمہ وقت زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے رہنا،  چالیس چالیس دن تک بغیر افطار کیے روزہ رکھنا، سالوں کسی دوسرے شخص کا منہ نہ دیکھنا-پوری زندگی برہنہ رہنا-جسم کے بعض اعضاء کو حرکت نہ دینا-سر داڑھی کے بالوں کو اپنے ہاتھ سے نوچنا یعنی کهنیچ کھینچ ختم کر دینا وغیرہ جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے- اور اس قسم کے بے شمار مجاہدات ان کے ہاں ملتے ہیں۔ مسلم صوفیاء کے حالات زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو بعض حضرات کے ہاں اسی درجے کے مجاہدات کا ذکر ملتا ہے مگر کئی صوفیاء کے ہاں اس معاملے میں اعتدال پایا جاتا ہے۔
فاعلہ
فاعلہ سے مراد وہ تراکیب ہیں جن میں اہل تصوف روحانی قوت میں اضافہ کے لیے مشغول رہتے ہیں۔ ان میں ذکر، شغل اور  مراقبہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بعض طریقے اور بھی ایسے ہوتے ہیں  جن کا شمار فاعلہ میں کیا جاتا ہے مگر ان کے بارے میں پابند شریعت صوفیاء  کا کہنا یہ ہے کہ ان سے نقصان بھی ہو جاتا ہے، اس وجہ سے ان کا استعمال مرشد کے حکم سے ہی کرنا چاہیے۔ ان میں  سماع، عشق مجازی اورتصور شیخ شامل ہیں۔  مناسب ہو گا کہ انہیں تفصیل سے بیان کیا جائے۔
ذکر
عام علماء کے نزدیک نماز، تلاوت قرآن مجید اور وہ اذکار جن کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا ہے، ذکر میں داخل ہیں۔ ناقدین تصوف کے نزدیک یہی اذکار کافی ہیں۔کیونکہ محدثین کا ان اذکار پر ہی عمل اور اجماع رہا ہے اس کے علاوہ کسی نئے اذکار کی ضرورت نہیں ہے-
صوفیاء بھی انہیں "ذکر مسنون" کہتے ہیں مگر ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ تمام اذکار انسان کے لیے غذا کی حیثیت رکھتے ہیں تاہم جو شخص اپنا تزکیہ نفس کرنا چاہے، اسے اضافی اذکار کرنے چاہییں۔ یہ اذکار اس کے لیے دوا کی حیثیت رکھتے ہیں۔  ان اذکار میں ذکر کے ساتھ ساتھ کچھ خاص روحانی نوعیت کی مشقیں کی جاتی ہیں۔  یہاں ہم سید شبیر احمد صاحب کی کتاب فہم تصوف میں سے کچھ اذکار کا طریقہ درج کر رہے ہیں:
ذکر کا مقصد چونکہ بندے کا نفس کی غلامی سے نکل کر نفس کے مالک کا بندہ بننا ہے اس لئے اس میں ترتیب کے ساتھ بندے کو نفس سے نکالنے اور اس کو حق کے پاس لے جانے کا خیال رکھا جاتا ہے جس کے چار مرحلے ہیں ۔ بعض حضرات کے نزدیک اول مرحلہ نفی و اثبات لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲ، دوسرا اثبات اِلاَّ ﷲ،تیسرا ﷲ،اور چوتھا ھو ہے۔ پہلے کو ناسوتی ، دوسرے کو ملکوتی تیسرے کو جبروتی اور چوتھے کو لاہوتی کہتے ہیں۔ جیسا کہ عالم بھی چار ہیں ۔ (1) ناسوت (2)ملکوت (3)جبروت (4)لاہوت
بعض مشائخ کے نزدیک پہلے دو ذکر تو اسی طرح ہیں لیکن تیسرا ذکر اللہُ اللہ (پہلے لفظ ذکر کے آخر میں پیش ہے اور دوسرے کے آخر میں جزم )اور چوتھا صرف اسم ذات بسیط بلاتکرار اللہ(جزم کے ساتھ) ہے ۔ بعض نے ذکر لسانی کو ناسوتی ،ذکر قلبی کو ملکوتی ،ذکر روح کو جبروتی اور ذکر سر کو لاہوتی کہا ہے۔ بعض نے ذکر لسانی کو جسمی، فکر کے ذکر کو نفسی، مراقبہ کو ذکر قلبی ، مشاہدہ کو ذکر روحی اور معائنہ کو ذکر سرّی کہا ہے۔
ذکر ناسوتی لآ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲُ ہے کہ اس میں ناسوتی اُمور ،شہوات و لذات و خواہشات یعنی جو جو عالم دنیا سے متعلق ہیں اور نفس کو خود میں مشغول رکھتے ہیں ،سے نفی ہے ۔اس سے نکل جانا اوراللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہونا ہے یعنی لا الہ کی تلوار سے غیر اللہ کو فنا کرنا اور الااللہ کی ضرب سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا حاصل کرنا ہے۔ ذکر ملکوتی یعنی اِلاَّ ﷲ سے اس حقیقت کا ادراک حاصل کرنا ہے کہ ہم تو صرف اللہ کے لئے ہیں جیسا کہ فرشتے صرف اللہ تعالیٰ کے امر کے مطابق سب کچھ کرتے ہیں اور ان کا کسی اور طرف دھیان ہی نہیں ہوتا تو اس طرح ہمارا بھی دھیان صرف اللہ کی طرف ہو اور غیر اللہ کی طرف التفات کا شائبہ بھی نہ ہو حتی کی اس کی نفی کی طرف بھی خیال نہ ہو۔
ذکر جبروتی ﷲُ ﷲْ سے مراقبہ ذات مع صفات عظمت و احسان و رحمت و شفقت وغیرہ ہو یعنی حق کا ادراک دما دم ایسا ہو کہ ہر دم اس ادراک میں ترقی ہو اور قلب و ذہن اس میں مشغول ہو۔ ذکر لاہوتی ﷲ کا مقصد محض اللہ کی ذات کی طرف ایسی توجہ ہے کہ اس کی صفات کی طرف بھی دھیان نہ ہو ۔ بعض حضرات ذکر جبروتی "اللہ " کے ذکر کو اور ذکر لاہوتی  "ہو " کے ذکر کو قرار دیتے ہیں۔ پہلا طریقہ عموماً اہل چشت کے ہاں ہوتا ہے اس کو بارہ تسبیح بھی کہتے ہیں ۔یہ حضرات پہلے دو سو بار ذکر ناسوتی ،چار سو بار ذکر ملکوتی ،چھ سو بار ذکر جبروتی اور سو بار لاہوتی کراتے ہیں لیکن ذکر لاہوتی میں سالک کی استعداد کے مطابق روز افزوں ترقی کراتے کراتے اس کو بعض اوقات 24 ہزار تک بھی لے جاتے ہیں۔
دوسرا طریقہ عموماً قادریہ حضرات کے نزدیک چلتا ہے ۔ ذکر علاجی میں اجتہاد جاری ہے ۔ ایک انتہائی ضروری امر کی تشریح یہاں پر کرنا ضروری ہے کہ یہ تمام طریقے اجتہادی ہیں ۔جیسے طب میں ہر حکیم مجتہد ہوتا ہے اس طرح طب روحانی یعنی تصوف میں ہر شیخ مجتہد ہوتا ہے یعنی وہ تصوف کے مسلمہ قواعد سے کام لے کر وقت اور سالک کی استعداد کو پیش نظر رکھ کر اس کے لئے جو مفید سمجھتا ہے تعلیم کرتا ہے اس لئے اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں البتہ یہ شیخ کے اپنے فائدے کی بات ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو اچھی طرح پوری کرنے کے لئے اگر دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے تو اس سے فائدہ ممکن ہے ۔اسی مقصد کے پیش نظر کتابیں لکھی جاتی ہیں جس میں یہ کتاب بھی ہے۔
ذکر نفی و اثبات یعنی لاالہ الا ﷲ کا طریقہ:کتابوں میں جو طریقہ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ لآ اِلٰہَ کے لآ کو ناف سے ذرا طاقت سے کھینچ کر لفظ اِلٰہَ کو داہنے بازو تک لے جا کر سر کو پیٹھ کی طرف تھوڑا سا جھکا کر یہ خیال کرے کہ میں نے غیر سے اپنے دل کو پاک کر کے تمام اغیار کو پس پشت ڈال دیا پھر اِلاَّ ﷲْ کی ضرب ذرا زور سے دل پر لگائے یہ دو سو بار کہے اس طرح کہ ہر دس بار یا سانس ٹوٹنے پر محمد الرَّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہے ۔آج کل کے حالات کے پیش نظر ہمارے شیخ مولانا محمد اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس میں یہ ترمیم فرماتے تھے کہ لا کو ناف سے طاقت کے ساتھ کھینچ کر الا اللہ سے دل کو دائیں بائیں یوں ہلائے کہ جس سے نفی کی قلبی کیفیت پیدا ہوجائے یعنی اس کے ساتھ ہی یہ سوچے کہ میرے دل سے غیر اللہ کی محبت نکل گئی اور الا اللہ سے دل پرسینے کی اندرون سے ایسی ضرب لگائی جائے کہ اس سے یہ کیفیت پیداہوجائے کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگئی۔حضرت فرماتے تھے کہ آج کل لوگ خارجی ضرب کے متحمل نہیں۔
وضاحت
لآ اِلٰہَ کہتے وقت مبتدی [آغاز کرنے والا] لا معبود سوچے، متوسط [درمیانے درجے کا سالک] لا مقصود یا لا مطلوب سوچے اور منتہی کامل [جو اپنے روحانی سفر کی آخری اسٹیج پر ہو] لا موجود کا تصور کرے اور تھوڑی دیر مراقب ہو کر خیال کرے کہ فیوضات الٰہیہ قلب میں مسلسل حاصل ہو رہے ہیں اور تصور کرے کہ فیضان الٰہی عرش سے میرے سینہ میں آ رہاہے خواہ چوکڑی بھر کر بیٹھے یا دو زانو جس میں سہولت ہو،ذوق کے مطابق کرے ۔
ذکر الاّ ﷲ کا طریقہ : کتابوں میں اِلاَّ ﷲ کے ذکر کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی بار لآ اَلٰہَ کہتے وقت ناف سے کھینچ کر سر کو دائیں شانہ کی طرف لے جا کر اِلاَّ ﷲ کی ضرب دل پر لگائے ۔اور پھر دل پر ہی بائیں جانب ضرب لگاتا رہے ۔ یہ ذکر چار سو بار کرے پھر نفی و اثبات کی طرح مراقبہ کرے ۔آج کل کے حالات کے پیش نظر یہ مناسب ہے کہ الااللہ کہتے ہوئے ضرب دائیں شانے کی جانب سے لیکن سینے میں دل کے قریب سے دل پر ضرب لگائی جائے ۔اس میں مراقبہ ملکوتی ہی مناسب ہے کہ ہم تو اللہ ہی کے بندے ہیں ۔اس طریقے سے نہایت آسانی کے ساتھ مطلوبہ کیفیت حاصل ہوجاتی ہے ۔اس لئے بہت زور دار ضرب لگانے کی آج کل ضرورت نہیں بلکہ اس میں نقصان کا اندیشہ ہے۔
ذکر اسم ذات دو ضربی
ﷲُ ﷲْ اول "ہ" پیش کے ساتھ اور دوسری "ہ" جزم کے ساتھ۔اس کا کتابوں میں لکھا ہوا طریقہ یہ ہے کہ دونوں آنکھیں بند کر کے سر داہنے کندھے کی طرف لے جا کر ﷲُ پیش کے ساتھ دل پر ضرب لگایا جائے اور دوسرے لفظ ﷲْ (جزم کے ساتھ) سے بھی دل پر ضرب لگایاجائے ۔ یہ چھ سو بار ہے ۔پھر اس طرح مراقبہ کرے کہ ہر دس یا زائد کے بعد  ﷲُ نَاظِرِي ﷲُ حَاضِرِي ﷲُ مَعِي کہتا رہے تاکہ کیفیت و لذت اس کی حاصل ہو ۔اس میں بھی آج کل بہتر یہی ہے سر کو ہلائے بغیر جہاں سے الا اللہ کے ضرب کا بتایا گیا وہیں سے یعنی سینے میں دائیں شانے کی جانب سے مگر قریب سے دل پر ضرب لگائی جائے ۔
ذکر اسم ذات یک ضربی
اس کا طریقہ کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ لفظ اﷲْ جزم کے ساتھ سر کو بائیں جانب لے کر دل پر ضرب کرے ۔یہ سو بار ہے ۔پھر مراقب ہو کر اس طرح کہے ، ﷲُ نَاظِرِي [اللہ مجھ کو دیکھ رہا ہے ]، ﷲُ حَاضِرِي [اللہ میرے پاس ہے ]، ﷲُ مَعِي [اللہ میرے ساتھ ہے ]۔اور معنی کا خیال کرے ۔ آج کل اس کے لئے بھی مناسب یہ ہے کہ یہ مراقبہ کرے میرا اللہ میرے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور میرا دل بھی اس کی طرف متوجہ ہے اور میری زبان کے ساتھ مل کر اللہ اللہ شوق میں کررہا ہے ۔ اس میں اوپر کے مراقبے بھی آگئے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ قلبی بھی حاصل ہوگئی۔جو تصور ذات بخت کا پیش خیمہ بنے گا انشاء اللہ۔
ایک اور تشریح
بعض مشائخ نے اس کی تشریح یوں بھی کی ہے کہ سالک ذکر نفی و اثبات لآ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲُ میں اس قدر مشغول ہو کہ سوائے ذکر کے کچھ نہ رہے ۔کوئی سانس بغیر ذکر نہ نکلے ۔جب اس حالت کو سالک پہنچ گیا تو عالم مادیت ،عالم اجسام سے تجاوز کر کے مرتبہ لطیفہ پر پہنچ جائے اور اب بجز اِلاَّ ﷲ کے اثبات کے تمام کی نفی ہو جاتی ہے ۔ اب یہ مرتبہ نفس سے نکل کر لطیفہ قلب کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے ۔چونکہ یہ ذکر اِلاَّ ﷲ دل کا ذکر ہے اس لئے اب اِلاَّ ﷲ کا تصور بحضور قلب چاہئے کہ اپنی ذات و صفات کو اللہ کی ذات و صفات کے ساتھ ربط ہو جاوے ۔جب سالک اس مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے تو مرتبہ دل سے گذر کر مرتبہ روح پر پہنچ جاتا ہے۔اور روح کا ذکر اسم ذات اللہ کا ذکر ہے اس واسطے اس ذکر اسم ذات میں اس طرح انہماک ہو کہ الف لام جو اللہ پر داخل ہے باقی نہ رہے صرف ھو رہ جائے ۔اس مرتبہ پر پہنچنے سے سالک سراپا ذکر ہو جائے گا اور روح سے ترقی کر کے مرتبہ سر پر پہنچ جائے گا اور مقام فناء الفناء پر فائز ہو جائے گا۔
اب سالک کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ اب وہ مصداق حدیث شریف "بِيْ يَسْمَعُ وَبِي يبْصر" ہو گا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب وہ میرے ساتھ سنتا ہے میرے ہی ساتھ دیکھتا ہے "وَبِیْ يَبْطِشُ" میرے ہی ساتھ پکڑتا ہے "وَبِيْ يَمْشِیْ" میرے ہی ساتھ چلتا ہے یعنی اس کا ہر حرکت و سکون خدا کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے ۔ [دیکھنے میں بشر ہے لیکن بے شر ہے ،سراپا نور ہے ]اب اس کو لا الہ الا اللہ کی خوب معرفت ہو جائے گی، عبدیت کاملہ حاصل ہو جائے گی، عبدیت میں درجہ کمال اور بصرف ہمت عبادت میں مشغول ہو گا، حفظ مراتب اور احکام شریعت کا امراً و نہیا  اُمتثال کرے گا۔
صوفیاء عام طور پر ان اذکار کی انفرادی یا اجتماعی طور پر مشقیں کرتے ہیں۔ ذکر کرتے ہوئے عام طور پر ذہن کو ایک خاص نکتے پر مرکوز کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی سر کو گھما  کر اس کی ضرب دل پر لگانے سے اس نکتے میں غیر معمولی زور پیدا ہو جاتا ہے۔ 
مثال کے طور پر جیسے فاضل مصنف نے بیان کیا کہ ابتدائی درجے کا سالک "لا الہ" کہتے وقت ، "لا معبود" سوچے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے ذہن میں پوری توجہ سے  "کوئی معبود نہیں، کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے" کی تکرار کر رہا ہو گا۔  اس تکرار کے ساتھ ساتھ دل پر ضرب لگانے سے اس نکتے کی پروگرامنگ اس کے ذہن میں ہوتی چلی جائے گی۔ جب وہ طریقت کے سفر میں کچھ آگے بڑھے گا تو  "کوئی مطلوب نہیں سوائے اللہ کے" کی تکرار کرنے لگے گا۔ اعلی لیول پر پہنچ کر وہ "کوئی موجود نہیں سوائے اللہ کے" کی تکرار کرے گا۔ یہ ایک قسم کا ذہن کی پروگرامنگ کا ایک طریقہ ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اعلی سطح پر پہنچ کر  سالک کا ذہن اللہ کے سوا ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اسی کیفیت کو "وحدت الوجود" یا "وحدت الشہود" کا نام دیا جاتا ہے۔
ذکر دو قسم کا ہوتا ہے، ایک کو ذکر خفی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو ذکر جلی یا ذکر بالجہر۔  ذکر جلی بلند آواز میں ہوتا ہے۔ لا الہ کہتے ہوئے سر کو دائیں جانب سے گھما کر بائیں جانب لایا جاتا ہے اور الا اللہ کی ضرب دل پر لگائی جاتی ہے۔ ذکر خفی میں ذہن کو لا الہ الا اللہ پر مرکوز کرتے ہوئے زبان نہیں ہلائی جاتی بلکہ سانس کی آمد و رفت سے وہی کام لیا جاتا ہے اور سانس باہر نکالتے ہوئے دل پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ قادری اور چشتی سلسلوں میں بالعموم ذکر بالجہر رائج ہے اور نقشبندی سلسلے میں ذکر خفی-
(راقم الحروف ان تمام اذکار کی مجالس میں شرکت کر کے یہ ذکر کے تمام مناظر اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر چکا ہے-)
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...