Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین، تقابلی مطالعہ

*اسلام اور تصوف' تقابلی مطالعہ*
(قسط نمبر 2 )
تصوف کا تعارف:
تصوف یا صوفی ازم بالعموم اس فن اور طرز زندگی کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق روحانیت سے ہو۔  تصوف سے وابستہ حضرات "صوفی" کہلاتے ہیں۔
اس  پروگرام کو ہم نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے تصوف کے مقاصد کیا ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے  کیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے؟ اہل تصوف کے عقائد و نظریات کیا ہیں؟  صوفی حضرات کن امور اور مشاغل میں مصروف رہتے ہیں اور ان کو کس طریقے سے منظم کیا جاتا ہے؟  اس کے بعد دوسرے حصے میں ہم یہ دیکھیں گے کہ تصوف سے متعلق کیا کیا نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں اور ان کے دلائل کیا ہیں؟  اس کا دین اسلام سے کیا تعلق ہے؟ لیکن ایک بات یاد رہے ہم اہل تصوف اور ناقدین  کے نقطہ نظر کو ویسے ہی بیان کریں گے جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں-
تصوف کیا ہے؟
تصوف کی تعریف:
تصوف کی ایک جامع و مانع تعریف ممکن نہیں ہے۔ شام کے ایک بڑے صوفی عالم شیخ عبدالقادر بن عیسی (1919-1991) نے اپنی عربی کتاب "حقائق عن التصوف" میں  اس لفظ کے متعدد ماخذ بیان کرتے ہوئے متعدد تعریفیں بیان کی ہیں جو کہ یہ ہیں:
تصوف اور صوفی، "صفت" سے نکلے ہیں کیونکہ تصوف وہ علم ہے جس میں اچھی صفات پیدا کرنے اور بری صفات دور کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
امام ابو القاسم القشیری (376-465/986-1072) لکهتے ہیں۔
تصوف کا لفظ "صفوت" سے نکلا ہے جس کا معنی ہے بہترین لوگ۔
مسلم و غیرمسلم محققین نے اسلام میں تصوف کے آغاز کی وجوہات و اسباب پر متعدد نظریات پیش کئے ہیں جن میں خاصی حد تک مشترکہ باتیں پائی جاتی ہیں۔مناسب ہو گا کہ اس پر بهی روشنی ڈال دی جائے-
فرانسیسی لوئی ماسینیؤن (Louis Massignon) عہد بمطابق (1883ء تا 1962ء) نے تصوف کو داخلیتِ اسلام قرار دیا ہے ، یعنی اسلام کو اپنے آپ میں داخل کرلینا- اس کے مطابق قرآن کی مسلسل تلاوت (تکرار)، مراقبہ، اور تجربے سے تصوف پیدا ہوا یا ہوئی اور بڑھی-
تصوف کا قرآن میں لغوی طور پیوست ہونے کا یہ نظریہ ، باطنیتِ کلام ، سے بہت مختلف بھی نہیں کہا جاسکتا؛ صوفیاء بھی اسی ظاہریت اور باطنیت کی تقسیمِ اسلام کے قائل ہیں، یعنی قرآن کے الفاظ کا مسلسل ورد اور ان میں وہ معنی (باطنی) تلاش کرنا کہ جو ظاہر میں نظر نہیں آتے یا پوشیدہ ہیں، صوفیاء کے نزدیک تصوف کی بنیاد ہیں-
مشہور پروفیسر نکلسن کا کہنا ہے کہ تصوف یونانی فلسفہ کے زیر اثر پیدا ہوا۔ نکلسن نے اپنی رائے کو بڑے وثوق کے ساتھ اپنی تصانیف میں پیش کیا ہے اور صوفیاء و حکماۓ یونان کے خیالات پیش کر کے ان میں باہم تطبیق کی کوشش کی ہے۔ ڈوزی اور فان کریمر کی رائے ہے کہ تصؤف ویدانیت سے ماخوذ ہے۔ کچھ لوگ اسے بدھ مذہب سے اخذ کردہ بتاتے ہیں۔
تصوف سے شغف رکھنے والے علماء اکرام ، لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ، اصحاب صفہ سے منسلک کرتے ہیں۔ صفۃ اصل میں عربی کا لفظ ہے جس میں ص پر زیر اور ف پر زبر (صِفَة) کے ساتھ صفت یا اہلیت کے اور ص پر پیش اور ف پر تشدید (صُفَّة)کے ساتھ چبوترے کے معنی آتے ہیں۔ یہ بعدالذکر معنی ہی اختیار کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ صوفی اسی صفہ سے اخذ ہے کہ مسجد نبوی کے شمال میں واقع صفہ (چبوترے یا سائبان) میں جو اصحاب رہا کرتے تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور اصحاب صفہ چونکہ ، فقراء ، تارکِ دنیا اور بالکل صوفیوں کے حال میں ہوتے تھے اس لئے یہی لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ہے۔ امام ابن تیمیہ کے مطابق اصحاب صفہ اسلام کے مہمان تهے،
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے گهر میں جو کچھ میسر ہوتا انہیں بهیج دیا جاتا-رہا لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا تو اس بارے میں ان کا طریقہ کار وہی تها جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کی تربیت کی تهی-بلکہ ایسی اپنی وضع بنانا یا ایسی زندگی اختیار کرنا کہ جسے دیکھ کر لوگ خواہ مخواہ دیں-یہ طریقہ بهی سوال میں داخل ہے-اصحاب کو سوال کرنے سے بالکل منع کردیا گیا تھا یعنی اصحاب صفہ ، عام فقراء کی مانند دست سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ نا ہی ان میں کوئی صوفیانہ کیفیات (حال ، وجد وغیرہ) پائی جاتی تھیں اور نا ہی اصحاب صفہ نے خود کو تارک الدنیا کیا تھا بلکہ وہ دیگر اصحاب کی طرح جہاد میں بھی شریک ہوا کرتے تھے-
مزید یہ کہ علم لسانیات کے مطابق ، لفظ صفہ سے صوفی مشتق کرنا قواعد کے لحاظ سے غلط ہے کہ اوپر بیان کردہ اعراب کی رو سے لفظ صفہ سے صُفّی (suffi) مشتق ہوگا نا کہ صوفی (soofi یا sufi) مشتق کر لیا جائے-
بعض صوفیاء کے خیال میں یہ لفظ صوفی اصل میں صف اول کی صف سے ماخوذ ہے کہ صوفی تمام دیگر انسانوں کی نسبت اپنا دل خدا کی جانب کرنے اور اس سے رغبت رکھنے میں پہلی صف میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی دیگر متعدد ماخذ کی طرح لسانی قواعد کی پیچیدگی پیش آتی ہے کیونکہ اگر صوفی ، صف سے اخذ کیا گیا ہوتا تو پھر اس لفظ کو صَفّی (saffi) ہونا چاہئے تھا نا کہ صوفی (sufi) جو مروج ہے۔
ابو محمد عبدالغنی بن سعید الحافظ نے فرمایا ‫:جب ولید بن قاسم سے لفظ ’صوفی‘ کی نسبت کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے جواب دیا کہ ‫:زمانہ جاہلیت میں ایک شخص تھا جس کا نام غوث بن مرّ اور لقب ’صوفا‘ تھا ۔ اس کا کام ایامِ حج میں لوگوں کو حج کرانا اور ان کو عرفات سے منٰی اور منٰی سے مکہ جانے کی اجازت دنیا تھا ۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری اس کی اولاد میں منتقل ہوگئی ۔ ان سے عدوان نے لے لی اور کافی عرصہ عدوان کی اولاد میں یہ ذمہ داری باقی رہی ۔ پھر ان سے یہ منصب قریش نے حاصل کر لیا۔ غوث بن مرّ پہلا فرد ہے جیسے اس کی ماں نے بیت اللہ کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا ۔ ابن سائب الکلبی کا بیان ہے کہ اس کی ماں کا کوئی لڑکا نہیں جیتا تھا ۔ اس نے نذر مانی کہ اگر اس کا فرزند زندہ رہا تو اس کے سرپر ’صوف‘ باندھ کر اس کو کعبہ کی خدمت کے لئے وقف کردے گی ۔ چنانچہ اس نے نذر پوری کی ۔ بعد میں اس لڑکے کا نام ’صوفہ‘ پڑ گیا اور اس کی اولاد بھی ’صوفہ‘ کہلائی ۔ اس کے بعد سے جو لوگ بھی اللہ کے واسطے دنیا چھوڑ کر کعبہ کی خدمت سے منسلک ہوگئے انہیں بھی لوگ اسی مناسبت سے ’صوفیہ‘ کہنے لگے ۔ بحوالہ : تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ ، باب 10 ، صوفیوں پر تلبیس ابلیس کا بیان 2۔
گو عربی قواعد کی رو سے لفظ ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی ‘‘ نہیں بلکہ ’’صوفانی‘‘ بنتا ہے لیکن بعض ماہرین اس اشتقاق کو درست مانتے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر ’’کوفہ‘‘ سے’’کوفانی‘‘ کے بجائے ’’کوفی‘‘ بن سکتا ہے تو ’’صوفہ‘‘ سے’’صوفی‘‘ کا اشتقاق بھی ممکن ہے۔ اس دلیل کے باوجود اس اصل الکلمہ کے خلاف متعدد دیگر وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں-قوم صوفہ ایک غیر معروف قوم تھی جس کی جانب صوفیاء کی توجہ مرکوز ہونا یا اسکے نام سے تشبیہ کا امکان قوی نہیں۔اگر بالفرض یہ اصل الکلمہ درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر صوفی کا لفظ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ اکرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے موجود ہونا چاہئے تھا نا کہ دوسری صدی (ابو ہاشم 140)ہجری میں- اور ویسے بهی یہ نسب زمانہ جہالت کی طرف ہوتی ہے جس کی بنا پر تصوف کو ان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا-
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صوفی ’صوفانہ‘ سے لیا گیا جو ایک خوشنما اور خود رو جنگلی ساگ ہے جو چھوٹے چھوٹے پتوں کی شکل کا ہوتا ہے ۔ اہل تصوف بھی جنگل کے ساگ پات پر گزارہ کر لیتے ہیں اس لئے انہیں صوفی کہا جاتا ہے ۔ مگر یہ بھی غلطی ہے ، کیونکہ اگر اس طرف نسبت ہوتی تو ’صوفانی‘ کہا جاتا ۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ صوفی منسوب ہے ’صوفۃ القضا‘ کی طرف یعنی وہ چند بال جو گدی کے آخر میں جمتے ہیں گویا صوفی حق کی طرف متوجہ اور خلق کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہے ۔ (تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی ، باب 10 ، فصل :2)
ابوریحان البیرونی کا خیال ہے کہ ’صوفی‘ کا مادۂ اشتقاق ایک یونانی لفظ ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے :سوفی بمعنی فلاسفر ہے کیونکہ یونانی لفظ ’سوف‘ بمعنی فلسفہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی زبان میں ’فیلسوف‘ کو ’فلاسفا‘ کہا جاتا ہے ، یعنی فلسفہ کا دلدادہ ۔ چونکہ اہل اسلام میں ایک جماعت ایسی تھی جو ان کے مسلک سے قریب تھی اس بناء پر ان کا نام بھی ’صوفی‘ پڑ گیا ۔(بحوالہ : کتاب الہند ، ابوریحان البیرونی ، صفحہ 16)
فقہی امام، احمد بن حنبل کے استاد بشر ابن الحارث (767ء تا840ء) جنہیں بشر الحافی بھی کہا جاتا ہے کہ مطابق؛ صوفی وہ ہے کہ جس کا دل اللہ کی جانب مخلص (صاف) ہو۔ اگر لفظ الصفاء کو اخلاص ، پاکیزگی اور صفائی کے معنوں میں لے کر اسی کو صوفی کی بنیاد یا اصل الکلمہ تسلیم کیا جائے تو پھر قواعدی طور پر لفظ صوفی کے بجائے صفوی یا صفاوی اخذ ہونا چاہیے تھا۔
لفظ صوف کے معنی اون کے آتے ہیں اور گمان غالب ہے کہ یہ لفظ کوئی آٹھویں صدی عیسوی سے دیکھنے میں آ رہا ہے جب ابن سیرین (وفات 729ء) سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس لباس کی حضرت عیسی کی جانب نسبت سے پہنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا۔ ابن خلدون کے مطابق صوف (اون) کے کپڑے پہننے کا رجحان دنیا پرستانہ زندگی کی جانب رغبت کے ردعمل کے طور پر ہوا ،جب بزرگ اور نیک انسانوں نے قیمتی اور ریشمی لباسوں کی نسبت سادہ صوف کے لباس کو ترجیح دینا شروع کی-
علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ شروع میں صوفیاء کتاب و سنت پر اعتماد کرتے تھے اور کوئی فعل ایسا کرنا ان کے نزدیک جائز نہ تھا جو قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہو۔ حضرت سری سقطی کا قول ہے کہ جو شخص ظاہر میں احکام شریعت کی پیروی چھوڑ کر باطن کا دعوٰی کرے وہ غلطی پر ہے۔ جنید بغدادی کہتے ہیں کہ ہمارا تصوف کتاب و سنت سے مقید ہے اور ہمارا علم کتاب و سنت سے بندھا ہوا ہے جس شخص کو کتاب اللہ یاد نہیں، حدیث نہیں لکھتا اور فقہ سے نابلد ہے اس کی پیروی نہ کی جائے۔ ابو بکر سقاف کہتے ہیں کہ جو شخص ظاہر میں امرونہی کی حدود ضائع کر دے وہ باطن میں مشاہدہ قلبی سے محروم رہے گا۔ بایزید بسطامی کا قول ہے کہ جو شخص قرآن مجید کی تلاوت، شریعت کی حمایت، جماعت کا التزام، جنازے کے ساتھ چلنا اور مریضون کی عیادت چھوڑ دے اور ثناء شان باطنی کا دعوٰی کرے وہ (بدعتی) ہے۔ (تلبس ابلیس، علامہ ابن جوزی صفحہ ٢٣٢)
تصوف کی تعریف مختلف بزرگان دین سے اس طرح نقل کی گئی ہے کہ التصوف ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس و تصفیۃ الاخلاق و تعمیر الظاھر والباطن لنیل السعادۃ الابدیۃ(شرح شیخ الاسلام ابی یحییٰ زکریا الانصاری)”یعنی تصوف ان کیفیات کا علم ہے جن کے ذریعہ نفس کا تزکیہ اور اخلاق کا تصفیہ اور ظاہر و باطن کی تعمیر ہوتی ہے، تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کرسکے۔“
حضرت ابوالحسن نوری فرماتے ہیں التصوف ترک کل حظ للنفس”تصوف تمام لذات نفسانی کو ترک کردیتے کا نام ہے۔“
حضرت ابو علی قزوینی کا ارشاد گرامی ہےالتصوف ھو الاخلاق المرضیۃ”تصوف پسندیدہ اخلاق (کو اختیار کرنے) کا نام ہے۔“ابومحمد جریری کا فرمان ہےالتصوف الدخول فی کل خلق سنی والخروج من کل خلق دنی”تصوف ہر اخلاق حمیدہ کو اختیار کرنے اور ہر اخلاق (شنیعہ) رذیلہ کو ترک کرنے کا نام ہے۔“
حضرت کتانی فرماتے ہیں کہ التصوف خلق فمن زاد علیک فی الخلق فقد زاد علیک فی الصفا”تصوف اچھے اخلاق کا نام ہے، سو جس کے اخلاق تیرے اخلاق سے زیادہ عمدہ ہیں وہ صفا (تصوف و قلبی صفائی) میں بھی تجھ سے زیادہ ہے۔“   
ہر کسی نے اپنے ذوق کے مطابق جیسے محسوس کیا، تصوف کو الفاظ کے پیرہن میں مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی اور تعبیر اختیار کی،
تاہم تصوف کی آج تک کوئی جامع مانع تعریف سامنے نہ آسکی-
پروفیسر خلیق نظامی اپنی کتاب (تاریخ مشائخ چشت) میں لکھتے ہیں جب کوئی انسانی تحریک اپنے مولد سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پھیلتی ہے تو وہاں کی ذہنی آب و ہوا مخصوص اقتصادی اور جغرافیائی حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ ہر تحریک نئے ملک اور نئے ماحول میں پہنچ کر اس جگہ کے ہم آہنگ عناصر کو ساتھ لینے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اس کو تقویت حاصل ہو اور نشو ونما کا صحیح موقع ملے۔ جب تصوف کی تحریک وسطی ایشیاء پہنچی تو ناگزیر تھا کہ بُدھ مذہب کے کچھ اثرات قبول کئے جائیں۔ حضرت علی ہجویری نے اپنی کتاب (کشف المحجوب) میں کچھ صوفی گروہوں کا ذکر کیا ہے۔ غور سے پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ بدھ مذہب کے کتنے اثرات اس طبقے نے قبول کر لئے تھے۔ جب ہندوستان میں یہ تحریک پہنچی تو ناممکن تھا کہ یہاں کے ان قدیم مذہبی اصولوں کو جذب نہ کر لیتی جو اس کے بنیادی اصولوں سے نہ ٹکراتے ہوں۔ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری شطاری نے (بحرالحیات) میں اور شہزادہ داراشکوہ نے (مجمع البحرین) میں اسلامی تصوف اور ہندو فلسفہ کا اسی نظر سے مطالعہ کیا ہے۔(تاریخ مشائخ چشت، پروفیسر خلیق احمد نظامی صفحہ ٢٢، ٢٣)پروفیسر نظامی اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔کوئی انسانی تحریک خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو جب افراط و تفریط اورعمل درعمل کا بازیچہ بنتی ہے تو اس کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ فقہ اسلامی کی تدوین نے مسلمانوں کی دینی اور سماجی زندگی کو سنوارنے میں عظیم الشان کام کیا لیکن جب اس کو حیلہ بازیوں اور مکاریوں کا ذریعہ بنایا گیا تو مسلمانوں کی عملی زندگی بے روح ہو کر رہ گئی۔
متکلمین نے اسلام کو یونانی فلسفہ کے زد سے بچانے میں بڑی خدمت انجام دی لیکن جب علم کلام نے شکوک و شبہات پیدا کرنا مقصد بنا لیا تو مسلمانوں کی ذہنی زندگی میں بڑا انتشار پیدا ہوگیا۔ یہی حال تصوف کا بھی ہوا۔ جب باطنی زندگی کو ظاہری سے الگ کر لیا گیا تو شریعت و طریقت کی تفریق پیدا ہوگئی۔ دنیا پرستی سے گریز کو رہبانیت کی شکل دے دی گئی۔ مجاز پرستی، پیر پرستی، قبر پرستی، نغمہ و سرور کو روحانی ترقی کا لازمی جزء قرار دیا گیا۔ بیشک یہ سب گمراہیاں تصوف سے پیدا ہوئیں۔ ( تاریخ مشائخ چشت، پروفیسر خلیق احمد نظامی صفحہ ١١)،(ماخوذ: اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات، ڈاکٹر ابوعدنان سہیل)
دیوبند کے ایک صوفی عالم  اشرف علی تھانوی صاحب کے خلیفہ کہلائے جانے والے محمد مسیح اللہ خان ، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ ؛ اعمالِ باطنی سے متعلق شریعت کا شعبہ تصوف اور سلوک کہلاتا ہے اور، اعمالِ ظاہری سے متعلق شریعت کا شعبہ فقہ کہلاتا ہے ایک اور دیوبندی عالم قاری محمد طیب کے الفاظ میں؛ مذہبی طور پر علمائے دیوبند مسلم ہیں، تفرقاتی طور پر یہ اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں، بطور مقلد یہ حنفی ہیں، طریقت میں صوفی ہیں، مدرسی طور پر یہ ماتریدی اور سلوک میں چشتی ہیں۔برصغیر میں دیوبندیوں کے ساتھ ساتھ بریلوی بھی تصوف میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور اس فرقے کے بانی احمد رضا خان کو، قادریہ سمیت تصوف کے تیرہ دیگر فرقہ جات کی جانب سے خلافت حاصل تھی۔یہاں ایک دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے تصوف پر عمل پیرا دونوں (بریلوی اور دیوبندی) امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور تصوف میں بلند درجے پر تسلیم کیئے جانے والے ایک صوفی جلال الدین رومی نے خود اس بات کا تذکرہ کیا کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں۔
اہل تشیع کے مطابق تصوف ، عملی معرفت کا نام ہے اور عرفان سے مراد ایسے علوم کی لی جاتی ہے کہ جو حواس اور تجربات سے نہیں بلکہ باطنی کشف سے حاصل ہو۔ فی الحقیقت یہ esoteric اور exoteric والا فلسفہ ہی ہے جس کے لیئے ایرانی علاقوں میں عرفانِ نظری کی اصطلاح بھی مروج ملتی ہے، شیعہ اور سنی تصوف میں مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ان کو مدغم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔
مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے افراد کی جانب سے تصوف کی مختلف تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔ سیدھے سادھے الفاظ میں تو تصوف کی تعریف یوں بیان کرسکتے ہیں کہ تصوف ، اس طریقۂ کار کو کہا جاتا ہے کہ جس پر صوفی عمل پیرا ہوتے ہیں۔جبکہ خود صوفیا، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ تصوف ، اسلام کی ایک ایسی شاخ ہے کہ جس میں روحانی نشوونما پر توجہ دی جاتی ہے۔ صوفیا تصوف کی متعدد جہتوں میں؛ اللہ کی ذات کا شعور حاصل کرنا، روحانی کیفیات اور ذکر (رسماً و جسماً) اور شریعت بیان کرتے ہیں۔
-اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد جن ستونوں پر قائم کی ہے اور جن کے بغیر تصوف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہیں: صدق و صفا ، اخلاص و محبت،احسان، عبادت، خشوع و خضوع، فقر، توکل، صبرو رضا اور شکر وغیرہ اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد کے لیے اقوال رسول کو سر چشمہ ہدایت بنایا ہے اور یہ بھی امر واقع ہے کہ آئمہ تصوف نے اپنے اعمال اور احوال و مقامات کے لیے سنت نبوی سے استناد و دلائل فراہم کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے ----
جبکہ ناقدین حضرات کی تصوف کی تعریف دیکھی جائے تو ان کے مطابق؛ تصوف،سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے اور مروجہ تصوف، قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی سلف صالحین کے ادوار میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔بات یہ نہیں ہے کہ تصوف کی بنیاد یا اہمیت کن کن عناصر پر قائم ہے یا یہ نام قدیم ہے یا جدید،محدثین کے دور میں رائج تها یا نہیں ؟بلکہ حقیقی جوابِ مطلوب یہ ہے کہ دین اسلام کے ہوتے ہوئے ایک علحدہ فلسفے یا نظریے کی ضرورت کیوں درپیش ہے ؟سوال یہ نہیں ہے کہ  دینِ تصوف یا دینِ طریقت کی کون سی اہم بنیادیں ہیں ؟ بلکہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں وہ کیا کمی تھی کہ ایک علحدہ فلسفہ یا نظریہ ایجاد کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ اگر دینِ طریقت ( یا تصوف) پورا کا پورا وہی ہے جو قرآن و حدیث میں درج ہے تو اس کو دینِ اسلام ہی کہا جائے گا ، کوئی دوسرا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔منطقی اعتبار سے یہ معاملہ اس لیے بھی زیرِ بحث آئے گا کہ ۔۔۔ فرقے فرقے بننے والی چیزوں سے قرآن واضح طور پر منع فرماتا ہے ۔اگر احباب کو ناگوار خاطر نہ گزرے تو عرض ہے کہ ایک فرقہ وہ بھی ہے جس کا کلمۂ توحید وہی ہے جو تمام مسلمانوں کا ہے اور اسلام کے پانچ ارکان پر بھی اس کا ایمان ہے ۔۔۔ اس کے باوجود اس کی انفرادیت ختمِ نبوت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے انکار کے سبب واضح ہوئی اور اس کو اسلام سے علحدہ ایک الگ مذہب قرار دیا گیا ۔ یہ فرقہ بھی تو وہی راگ الاپتا ہے کہ ہمارا کلمہ ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ہی کلمہ ہے ۔ پھر بھی یہ اپنی شناخت علحدہ بتانے پر مصر ہے ۔ایک دنیاوی مثال سے یوں بھی سمجھئے کہ بچوں کے دودھ کا پاؤڈر نیڈو بھی بناتا ہے اور اینکر بھی ۔ دونوں اقسام کے پاؤڈر کے اجزائے ترکیبی تقریباََ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ پھر بھی مقابلہ ہوتا ہے کہ ہمارا پراڈکٹ سب میں بہترین ہے ۔ اور دعویٰ کے ثبوت میں اجزائے ترکیبی کوئی بھی بیان نہیں کرتا بلکہ وہ خصوصیات بتائی جاتی ہیں جو دوسرے میں نہیں ہوتیں ۔ یعنی یہ سارا نام کا کھیل ہے ۔ یعنی دنیا میں بس ہم خالص ہیں ۔دینِ اسلام کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ ہر کوئی ایک نیا فلسفہ یا نظریہ لے آتا ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سنت کو بتاتا ہے ۔ لیکن کن باتوں سے اس کی خصوصیات ، قرآن و سنت کی تعلیمات سے الگ ہٹ کر واضح ہوتی ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا ۔ اگر پوچھا جائے کہ نام کیوں الگ ہے تو جواب ملے گا کہ نام سے کیا ہوتا ہے ، کام تو سارا ہی وہی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔بھائی جب آپ قرآن و سنت کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں تو نئے نام گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟مسئلہ اخلاق و سلوک کا نہیں بلکہ ان بناوٹی طور طریقوں کا ہے جو روحانی ریاضتوں سے متعلق خالص عجمی اختراعات جو اسلام میں داخل کر دی گئی ہیں-
اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب شریعتِ اسلامیہ مسلمانوں کے لئے مکمل اور کافی ہے اور کتاب و سنت میں بھی زندگی گزارنے کے لئے مہد سے لحد تک ایک ایک لمحہ کے لئے ہدایات موجود ہیں تو پھر اس میں ’طریقت‘ یا ’تصوف‘ کے نام سے اضافہ کی گنجائش کہاں سے پیدا کر لی گئی ؟؟؟اگر طریقت اخلاص فی العبادت کا نام ہے تو کیا شریعت میں پہلے یہ عنصر موجود نہیں تھا ؟اگر اسلام میں اخلاص فی العبادت کا عنصر مفقود تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طریقت اور اس کے اصطلاحی اوراد اور وظائف کا سہارا لئے بغیر اپنے اعمال میں اخلاص کیسے برتتے تھے ؟؟؟
کیا وہ دین کافی نا تها جس کی تکمیل کی گواہی یوں دی گئی کہ: اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا-
آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا (المائدہ:3)
ہم اس صوفیت کے متعلق بحث نہیں کریں گے جو ماضی کا حصہ تھیں جیسا کہ کہا جاتا ہے-بلکہ ہم موجود رائج تصوف پر تقابلی مطالعہ کریں گے-جب ہم صوفیت سے متعلق گفتگو کریں گے تو اس سے ہمارا مقصد صوفیت کا اصطلاحی معنی ہے، یعنی وہ تصوف جو مخصوص کتب اور مخصوص اصلاحات کا نام ہے اور جس پر آج بهی ایک خاص طبقہ بڑے زور شور سے عامل ہے-
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
جاری ہے......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...