Wednesday 26 October 2016

*اہل حدیث کا منہج*

          

               *اہل حدیث کا منہج* 

          (انتخاب:عمران شہزاد تارڑ)

(1 ) اہل سنت والجماعت(اہلحدیث)کے نزدیک عقیدہ کے مآخذ تین ہیں،کتاب اللہ، سنت صحیحہ،اور سلف صالحین کا اجماع۔
(2 ) جو حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے اُسے ماننا فرض ہے خواہ وہ خبر واحد ہی کیوں نہ ہو۔
(3 ) قرآن وحدیث کے معنی سمجھنے کے سلسلے میں واضح نصوص،سلف صالحین کے فہم کو ہی مرجع قرادیا جائے گا۔اس کے بعد لغت عرب کا درجہ آتا ہے، بہر حال محض لغوی احتمالات کے باعث ان سے ثابت شدہ مفہوم کی مخالفت نہ کی جائے گی۔ 
( 4) دین کے تمام بنیادی اصول نبی ﷺ نے اپنی زندگی میں نہایت واضح طور پر بیان فرما دیئے تھے لہٰذا اب کسی کے لیے اس میں نئی چیز نکالنے کی گنجائش نہیں ہے۔ 
(5 ) اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم کو ظاہری وباطنی طور پر برضا ورغبت اس طرح تسلیم کرنا کہ شخصی قیاس، ذاتی میلان، کشف والہام اور کسی بزرگ اور امام یا فقیہ کا قول کتاب اللہ اور صحیح سنت کے تسلیم کرنے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ 
(6 ) عقل سلیم اور نقل صحیح(قرآن وحدیث) ایک دوسرے کے موافق ہوتے ہیں نہ کہ متعارض(مخالف)۔تضاد کا شائبہ نظر آئے تو نقل کو عقل پر مقدم (برتر) سمجھا جائے۔ 
(7 ) عقیدے سے متعلقہ شرعی اصطلاحات کی پابندی کرنا اور نئی نئی اصطلاحات وضع کرنے سے پرہیزکرنا،ایسے مجمل اور ذو معنی الفاظ جن کا مفہوم درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، ان کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔پھر جو مفہوم درست نکلے اسے شرعی الفاظ کے ساتھ بحال رکھا جائے گا۔ اور جو مفہوم غلط نکلے وہ خود بھی رد ہوگا اور اس کے لیے استعمال ہونے والے غیر شرعی الفاظ بھی۔ 
(8 ) رسول اللہﷺ معصوم عن الخطا ہیں، اسی طرح آپ کی امت بھی مجموعی طور پر گمراہی پر اتفاق کرلینے سے معصوم(محفوظ) ہے،جہاں تک اشخاص کا تعلق ہے تو رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی معصوم نہیں،جس بات میں ائمہ کرام میں اختلاف ہو اس میں سے جو کتاب اللہ سنت مطہرہ کے زیادہ قریب ہو،اسے قبول کیا جائے اور جس امام کا اجتہاد غلط ہو ،اسے اجتہادی غلطی سمجھا جائے۔ 
( 9) امت میں ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جن کو اللہ کی جانب سے(خواب کی صورت میں) القاء اور الہام ہو جاتا ہو،اچھا خواب بر حق اور نبوت کے درجہ میں سے ایک درجہ ہے۔صحیح کرامت اور فراستِ صادقہ(صحیح دور اندیشی) بھی برحق ہے۔ اگر یہ کرامت اور الہامات شریعت کے مطابق ہوں تو خوشخبری ہوتے ہیں، لیکن کسی صورت میں شریعت کے مآخذ نہیں ہوسکتے(اور نہ حجت ہی ہوسکتے ہیں)۔
(10 ) دینی امور میں نزاع(جھگڑا) پیدا کرنا قابل مذت ہے البتہ تحقیق اور جستجو کی غرض سے افہام وتفہیم(سمجھنا اور سمجھانا) قابل ستائش ہے۔جس بات کی گہرائی میں جانے سے شریعت نے منع کیا ہے وہاں بلاچوں و چرا اطاعت فرض ہے ،جن امور سے مسلمانوں کو آگاہ نہیں کیا گیا ان میں غور وخوض سے پرہیز کرنا چاہیے اور ان کی حقیقت کا علم اللہ تعالی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ 
(11 ) کسی چیز کے مسترد کرنے کا بھی وہی قاعدہ ہے جو کسی چیز کے قبول کرنے کا ہے، یعنی وحی کی بنا پر،چنانچہ کسی بدعت کو رد کرنے کے لیے ایک اور بدعت کا سہارا نہیں لیا جائے گا، اور نہ افراط(دین میں زیادتی) کاجواب تفریط(دین میں کمی)سے دیا جائے گا، نہ تفریط کا افراط سے۔
(12 ) اسلام میں نئی چیز شامل کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے،اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔
( 13 ) اللہ تعالی کے اسماء حسنی: یعنی اچھے نام اور صفات کے تسلیم کرنے میں یہ اصول ہے کہ جو کچھ اللہ تعالی نے اپنے متعلق بذات خود فرمایا ہے یا رسول اللہﷺ نے جس بات کا اثبات کیا ہے اُسے بلا تشبیہ وتمثیل مانا جائے اور اپنی جانب سے اس کی کیفیت بیان نہ کی جائے اور جس صفت کی خود اللہ تعالی نے اپنے لیے نفی کی ہو یا رسول اللہﷺ نے نفی کی ہو، اس کی بلا تاویل نفی کی جائے۔ نہ اس کی تحریف کی جائے اور نہ تعطیل،جیسا کہ اللہ تعالی فرماتاہے﴿ لیس کمثلہ شئ وہو السمیع البصیر﴾ کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے اور وہی ہر بات کو سننے والا اور دیکھنے والا۔ نیز ایسی نصوص کے الفاظ اور ان کے معانی پر دلالت پر ایمان بھی رکھا جائے۔
(14 ) اللہ تعالی کی صفات کو بے مثال ماننا،یعنی اللہ تعالی کی صفات کو مخلوق کی صفات کی طرح نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس مشابہت( کے اندیشے) کے پیش نظر ان صفات کا انکار ہی کیا جائے۔یہ دونوں صورتیں یعنی اللہ کے اسماء وصفات کو مخلوق کی طرح سمجھنا یا سرے سے ان صفات سے اللہ تعالی کے متصف ہونے کا انکار کرنا کفر ہے۔ اسماء وصفات میں جس تحریف کو اہل بدعت تاویل کہتے ہیں ان میں سے بعض کفر کے درجے کی ہیں۔ جیسے باطنیہ فرقے کی تاویلات اور بعض شدید گمراہی ہیں، جیسے بعض صفات کی نفی مغالطے کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔
(15 ) وحدت الوجود اور اللہ تعالی کا کسی مخلوق میں حلول کرنا یا مخلوق اور خالق کے ایک جان ہونے کا عقیدہ رکھنا دین سے خارج کردینے والا کفر ہے۔
(16 ) فرشتوں کے وجود پر اجمالاً ایمان لانا:جہاں تک تفصیلات کا تعلق ہے جیسے فرشتوں کے نام ،ان کی صفات اور ان کو سونپے گئے کام تو ان میں سے جو صحیح دلیل سے ثابت ہیں صرف ان پر ایمان لانا۔
(17 ) تمام آسمانی کتب پر ایمان لانا:اور یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن مجید ان سب کتب سے افضل اور ان سب کا ناسخ(منسوخ کرنے والا) ہے۔ نیز پہلی کتب میں تحریف واقع ہوئی ہے لہٰذا صرف قرآن کی اتباع فرض ہے ،باقی آسمانی کتب کی نہیں۔
(18 ) تمام انبیاء اور رسولوں پر ایمان رکھنا:یہ عقیدہ رکھنا کہ انبیاء علیہم السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں۔جو اس کے برعکس عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔ان میں سے جس نبی کے بارے میں خالص دلیل آ جائے اسے نبی برحق سمجھنا اور دیگر انبیاء پر اجمالاً ایمان رکھنا۔اور یہ عقیدہ رکھنا کہ محمدﷺ ان سب میں افضل اور سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کو تاقیامت روئے زمین کے تمام باسیوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔
(19 ) عقیدہ ختم نبوت:محمد ﷺ کے بعد سلسلہ وحی ختم ہونے پر ایمان رکھا جائے اور یہ کہ وہ خاتم النبیین والمرسلین ہیں۔جو اس کے برعکس عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔
(20 )یوم آخرت پر ایمان لانا:اس سلسلہ میں آخرت میں ہونے والے واقعات اور قبل از قیامت جن نشانیوں کا تذکرہ صحیح روایات میں ملتاہے ان کی تصدیق کرنا۔ جیسے کہ(اس بات کی مکمل تصدیق کرنا کہ قیامت آ کر رہے گی،اسی ایمان لانے میں موت پر،موت کے بعد قبر کی آزمائش پر اور قبر کے عذاب یا اس کی آسائش پر، صور پھونکے جانے پر،لوگوں کے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے پر،صحیفوں کے پھیلائے جانے پر،میزان نصب کیے جانے پر،پل صراط پر،حوض کوثر پر،شفاعت پر اور پھر لوگوں کے جنت یا جہنم میں داخل کیے جانے پر ایمان لانا بھی شامل ہے)-
(21) تقدیر پر ایمان رکھنا:اس طرح سے کہ اچھی اور بری تقدیر سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالی کسی رونما ہونے والے واقعے کا پہلے سے علم رکھتا ہے اور ہر چیز کو اس نے پہلے سے لوح محفوظ میں ثبت کر رکھ اہے،ہر چیز کا خالق ہے،جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔
(22 ) ایمان بالغیب:صحیح دلائل سے ثابت شدہ تمام غیب کی خبروں پر بلا تاویل ایمان رکھنا،مثلاً عرش،کرسی،جنت،دوزخ،قبر کا کسی کے حق میں نعمت اور کسی کے حق میں عذاب ہونا،پل صراط اور ترازو کا نصب ہونا،(غرض) ان سب پر ایمان رکھنا۔
(23 ) شفاعت محشر:قیامت کے روز محمدﷺ کی شفاعت اور باقی انبیاء،ملائکہ اور صالحین کی شفاعت پر صحیح دلائل سے ثابت شدہ تفصیل کے مطابق ایمان رکھا جائے۔
(24 ) بروز قیامت اللہ کا دیدار:قیامت کے دن جنت اور میدان حشر میں اہل ایمان کا اللہ رب العزت کو دیکھنا بر حق ہے۔جو اس کا انکار کرتا
ہے یا تاویل کرتاہے وہ بھٹکا ہوا اور گمراہ ہے۔
(25 )کرامت اولیاء:اولیاء اللہ کی کرامتیں بر حق ہیں مگر ہر خرق عادت(عام قانون سے ہٹا ہوا) کام کرامت نہیں ہوتا، وہ شعبدہ بھی ہوتا ہے،کرامت پابندِ شریعت سے رونما ہوتی ہے اور شعبدہ، فاسق و فاجر سے۔(کرامت، دنیا کے طبیعی قوانین کے خلاف(معجزے کی طرح) واقع ہونے والا وہ عمل ہے جو اللہ کے کسی نیک اور صالح بندے سے صادر ہوتا ہے،جبکہ معجزے کا صدور صرف انبیاء علیہم السلام سے ہوتا ہے۔ معجزے اور کرامت میں دوسرا فرق یہ ہے کہ نبی علمِ وحی کی بنا پر معجزے کا دعویدار ہوتا ہے،جبکہ ولی کسی کرامت کا دعوی نہیں کرسکتا،کیونکہ اسے نہ وحی آتی ہے ،نہ علم غیب ہی ہو سکتا ہے،بلکہ عام لوگوں کی طرح اُسے بھی کرامت کا پتہ اس کے وقوع ہونے کے بعد ہی چلتا ہے۔ معجزے اور کرامت میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اللہ کے افعال ہونے کے ناطے صرف اسی کے اذن(مرضی) سے ہی وقوع پذیر ہو سکتے ہیں، چنانچہ جس طرح نبی معجزے کے ظہور میں اپنا کوئی اختیار نہیں رکھتا،اسی طرح ولی بھی کرامت ظاہر کرنے میں بے اختیار وبے بس ہوتا ہے۔
( 26) ولایت:تمام اہل ایمان اللہ تعالی کے ولی ہیں۔ہر مومن میں یہ ولایت اس کے ایمان(کے درجے) مطابق ہوتی ہے۔
(27)توحید الوہیت:اللہ تعالی اکیلا اور یکتاہے،عبادت میں،کائنات کے انتظام وانصرام میں اور اس کے اسماء حسنی اور صفات میں اس کا شریک نہیں، وہ تمام جہانوں کا تنہا پر وردگارہے اور ہرقسم کی عبادت کا اکیلا مستحق ہے۔
(28 ) دعا کرنا،مصیبت کے وقت پکارنا،مدد مانگنا، نذرانہ پیش کرنا، ذبیحہ دینا،توکل کرنا، ڈرنا، امید رکھنا اور محبت کرنا،اسی طرح کسی قسم کی کوئی عبادت غیر اللہ کے لیے بجا لانا شرک ہے،خواہ مقرب فرشتے انبیاء ورسل اور صالحین وغیرہ ہی کیوں نہ ہوں۔
(29 )عبادت:محبت،خوف اور امید کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے لہٰذا اللہ کی ایسے ہی عبادت کی جائے ،اس سلسلہ میں علماء کرام یہ اصول بیان فرماتے ہیں:جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ کی عبادت صرف اس کی محبت ہے وہ زندیق ہے، جو صرف ڈر اور خوف کے مارے عبادت کرتا ہے وہ حروری(خارجی)ہے،اور جو عبادت کا مطلب صرف خوش امیدی سمجھتاہے وہ مرجئی ہے۔
(30 ) تسلیم ورضا اور مطلق اطاعت فقط اللہ تبارک وتعالی اور اس کے رسولﷺ کے لیے روا ہے،اللہ تعالی کو رب،(الہ) ماننے میں اس کا حاکمِ اعلی ہونا بھی شامل ہے،اس کے اتارے ہوئے قوانین اور فیصلوں میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ایسے قوانین بنانا جن کے بنانے کا اس نے حکم نہیں دیا ہے،طاغوت سے فیصلے کروانا، شریعت محمدیہ کے علاوہ کسی اور قانون کو قابل اتباع سمجھنا اور شریعت میں کمی وبیشی جیسے کام کرنا،یہ سب کچھ کفر ہے،اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ کوئی ہستی شریعت کے قانون سے آزاد ہے، وہ کافر ہے۔
(31 ) اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون کے علاوہ کسی قانون کے ذریعے فیصلہ کرنا کفر اکبر(ایسا کفر جو اسلام سے خارج کردے) ہے،البتہ بعض اوقات کفر اصغر(ایسا کفر، جو کفر اکبر کے لیے ذریعہ بنے) بھی ہوتا ہے، کفر اکبر یہ ہے کہ اللہ تعالی کی شریعت کے علاوہ کسی اور شریعت کے تحت فیصلے کیے جائیں یا غیر اللہ کا قانون روا رکھا جائے۔ کفر اصغر میں شریعت، اسلامی ملک میں جاری وساری ہوتی ہے وہی قانون کا ماخذ بھی ہوتی ہے۔لیکن کسی(خاص) واقعہ میں فیصلہ کرنے والا خواہش نفسانی کی وجہ سے خلاف شریعت فیصلہ صادر کرتاہے(تاہم فیصلہ کرنے والا اس میں بنیاد شریعت ہی کو بناتا ہے، اگرچہ بنیاد مرجوح دلائل اور ضعیف روایت واقوال پر ہوتی ہے۔)
( 32) دین کو شریعت اور طریقت میں اس طرح تقسیم کرنا کہ اول الذکر عوام کے لیے اور ثانی الذکر خواص کے لیے ہو،نیز سیاست ومعیشت یا کسی شعبہ زندگی کو دین سے جدا سمجھنا باطل اور حرام ہے بلکہ وہ ہر چیز جو شریعت کے خلاف ہو حسب مرتبہ کفر یا گمراہی میں سے کوئی ایک ضرور ہوگی۔
(33 ) عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس کے برعکس عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ البتہ اللہ تعالی اپنے رسولوں کو جس قدر چاہتا ہے امور غیب میں سے مطلع فرماتا ہے۔(یعنی اللہ نے کسی نبی میں غیب کی باتیں جاننے کی کوئی صفت نہیں رکھی،البتہ جب چاہا،انھیں وحی کے ذریعے ضروری غیب کی باتیں بتائیں، اور جب چاہا غیب کی بہت سی باتوں کو ان سے پوشیدہ رکھا۔
(34 ) نجومیوں اور کاہنوں کی تصدیق کرنا کفر ہے اور ان سے راہ و رسم رکھنا کبیرہ گناہ ہے۔
(35 ) جس وسیلہ کا قرآن میں ذکر ہے اس سے مراد اطاعت و فرماں برداری کے ذریعے قرب الٰہی کا حصول ہے،وسیلے کی تین اقسام ہیں:(الف)جائز:اللہ تعالی کی طرف اس کے اسماء وصفات کو وسیلہ بنانا یا اپنے کسی نیک عمل یا کسی بقید حیات بزرگ کی دعا کو وسیلہ بنانا مباح ہے۔(ب) بدعت:ایسی چیز کو وسیلہ بنانا جو شرعی دلیل سے ثبت نہ ہو بدعت ہے مثلاً انبیاء وصالحین کی ذات یا ان کی بزرگی کو وسیلہ بنانا۔(ج) شرک:کسی فوت شدہ بزرگ کی وساطت سے عبادت کرنا یا اس سے دعا کرنا،اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا۔
(36 ) برکت:برکت صرف اللہ تعالی کی جانب سے ہوتی ہے، اللہ تعالی اپنی جس مخلوق میں چاہتاہے برکت فرما دیتا ہے، برکت سے مراد خیر کی کثرت اور زیادتی اور اس کی ہمیشگی ہے، کسی چیز کے باعث برکت ہونے کے لیے شرعی دلیل ضروری ہے،اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے جو باعث برکت ہیں ان میں شب قدر کو وقت کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہے، مقامات میں تین مساجد بیت اللہ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی فضیلت والی ہیں، اشیاء میں آب زمزم باعث بر کت ہے،اعمال میں ہر نیک عمل مبارک ہے،اور اشخاص میں بابرکت انبیاء ہوتے ہیں۔کسی شخص کی ذات یا اس کی جسمانی یا استعمال شدہ چیزوں سے تبرک حاصل کرنا ناجائز ہے ماسوائے نبی ﷺ کی ذات کے،کیونکہ نبی ﷺ کے علاوہ یہ خصوصیت کسی اور شخص کے لیے ثابت نہیں ہے ،اور آپﷺ کی وفات اور ماثورات کے بعد اس کا سلسلہ منقطع ہو گیاہے۔
( 37) تبرک کس طرح حاصل ہوگا اس کا تعین ہم نہیں شریعت کرے گی لہٰذا جس چیز کے باعث برکت ہونے کی دلیل نہ ہو،اس سے حصول تبرک ناجائز ہے۔
(38 ) قبروں کی زیارت اور ان کے پاس جو لوگ اعمال کرتے ہیں وہ حسب ذیل تین اقسام کے ہوتے ہیں:(الف) جائز:آخرت کی یاد کے لیے،اہل قبور کو سلام کرنے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے لیے جانا۔(ب) بدعت:جو امور توحید کی روح کے منافی اور شرک کا سبب ہیں جیسے قبر پر عبادت بجالانے کو تقرب الٰہی کا ذریعہ سمجھنا ،ان قبروں سے برکات حاصل کرنا یا ثواب بخشانا یا ان کو پختہ بنانا اور مزار کی شکل دینا،ان کو رنگ و روغن کرنا،ان پر چراغ جلانا یا ان پر چادریں چڑھانا، انھیں عبادت گاہ بنانا اور ان کی طرف رخت سفر باندھنا بدعت کے کام ہیں۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کی بابت نبیﷺسے ممانعت ثابت ہے ، یا پھر ثواب کی خاطر ایسے اعمال کرنے کا ثبوت شریعت میں نہیں ہے۔(ج) شرک:زیارت کا یہ طریقہ توحید کے منافی ہے، ایسی زیارت میں عبادات کی مختلف شکلیں شامل ہوتی ہیں،مثلاً زائر کا صاحب قبر کو پکارنا، اسے غوث سمجھنا،فریاد کرنا، مدد مانگنا،قبر کے گرد طواف کی طرح چکر لگانا،اس کے نام کا چڑھاوا دینا اور نذر ونیاز ماننا۔
(39 ) اسلامی قانون کے مطابق جو حکم کسی خاص چیز کا ہوتا ہے وہی اس کے ذرائع اور طریقہ کار کے اختیار کرنے کا بھی ہوتا ہے(یعنی جو چیز خود حرام ہو، اس تک پہنچانے والے تمام ذرائع اور راستے بھی حرام ہوتے ہیں) لہٰذا اللہ تعالی کی عبادت میں شرک کے ہر ذریعہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو تو ہر بدعت کو رائج نہ ہونے دینا ضروری ہے کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔
(40) ایمان:ایمان قول وعمل کے مجموعے کا نام ہے جس میں اطاعت اور معصیت (نافرمانی) کے اعتبار سے کمی وبیشی واقع ہوتی ہے ۔قول سے دل اور زبان دونوں کا اقرار اور عمل سے مراد،زبان اور اعضاء کا فعل ہے، سچائی اور پختہ یقین دل کا قول ہے اور زبان سے اظہار و اقرار زبان کا قول ہے۔ اسی طرح عمل سے دل،زبان اور بدنی عبادتیں سب کا ہم آہنگ عمل مراد ہے۔دل کے عمل میں رضا و رغبت،اخلاص اور سچی محبت کے ساتھ فرماں برداری پر کار بند رہنا شامل ہے ،اسی طرح نیک اعمال کے لیے ارادہ کرنا بھی دل کا عمل ہے،جسمانی اعضاء کا عمل وہ بدنی عبادات ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے نیز جن امور سے اجتناب (پرہیز) کرنے کا حکم ہے ان سے بچنا بھی اعضاء کا عمل ہے۔
(41 ) جو شخص عمل کو ایمان سے جدا اور الگ سمجھے وہ مرجئی(ایک گمراہ فرقہ مرجیہ سے تعلق رکھنے والا) ہے اور جو ایسی چیزوں کو ایمان میں داخل کرے جو ایمان سے نہیں ہیں وہ بد عت کا کرتاہے۔
(42 ) کلمہ شہادت سے جو شخص اپنے ایمان کا اعلان اور اقرار نہ کرے اس پر دنیا اور آخرت ہر دو جگہ نہ ایمان ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا معاملہ صاحب ایمان کی طرح ہوتا ہے۔
(43) اسلام اور ایمان دو شرعی اصطلاحیں ہیں۔ ان میں عموم(عام ہونا) اور خصوص (خاص ہونا) کا تعلق ہے البتہ تمام اہل قبلہ کو مسلمان کہا جاتا ہے۔(یعنی ہر مومن تو مسلمان ہوتا ہی ہے ،لیکن ہر مسلمان لازمی طور پر مومن نہیں ہوتا)
(44 )کبیرہ گناہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں اس کا حکم ناقص الایمان مومن کا ہے اور آخرت میں اس کا معاملہ اللہ تعالی کی مشیت کے تحت ہے، چاہے تو بخش دے اپنی رحمت کے ساتھ اور چاہے تو عذاب دے عدل و انصاف کے ساتھ،تمام موحدین بالآخر جنت میں جائیں گے،جنھیں آگ میں جھونکا جائے گا وہ تو عذاب میں مبتلا رہیں گے لیکن کوئی موحد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں نہیں رہے گا۔
(45 ) اہل قبلہ میں سوائے ان اشخاص کے جن کا جنتی یا دوزخی ہونا دلیل سے ثابت ہے کسی کو جنتی یا دوزخی سے موسوم کرنا حرام ہے۔
(46 ) شریعت کی اصطلاح میں کفر کی دو اقسام ہیں کفر اکبر اور کفر اصغر،،کفر اکبر کا مرتکب ملت سے خارج ہو جاتا ہے،کفر اصغر کا مرتکب ملت سے خارج نہیں ہوتا ،اسے کفر عملی بھی کہا جاتا ہے۔
(47 ) تکفیر(کسی کو کافر قرار دینا اس شریعت کے باقاعدہ احکام میں شامل ہے البتہ اس کا انحصار کتاب وسنت پر ہے،کسی مسلمان کو اس کے کسی قول یا فعل کی بنا پر بلا شرعی دلیل کافر کہنا حرام ہے۔ کسی قول یا فعل کا شریعت کی نظر میں کفر ہونا ایک چیز ہے اور اس قول یا فعل سے کسی متعین شخص کا کافر ہونا دوسری چیز ہے ، تاہم اگر تمام شرائط پوری ہو چکی ہوں اور کوئی عذر(سبب) نہ رہا ہو تو پھر کسی کو متعین کر کے کافر کہا جا سکتا ہے،تکفیر شریعت کے خطرناک ترین احکامات میں سے ایک ہے لہٰذا کسی کلمہ گو کی تکفیر کرنے سے پہلے پوری احتیاط سے حقائق معلوم کرنا ضروری ہوتاہے۔
(48)قرآن مجید اور مسئلہ کلام:قرآن مجید اپنے الفاظ ومعنی کے ساتھ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور غیر مخلوق ہے، اللہ تعالی سے اس کی ابتدا ہے اور اسی کی طرف اس کی انتہا ہے۔ یہ رسول ﷺ کی نبوت پر دلالت کرنے والا معجزہ ہے اور قرآن مجید قیامت تک حرف بحرف محفوظ رہے گا۔
(49 ) اللہ تعالی جو چاہے جیسا چاہے اور جب چاہے کلام کرتا ہے ،اس کا کلام حقیقی اور آواز اور حروف کے ساتھ ہوتا ہے البتہ اس کی کیفیت نہ ہمیں معلوم ہے اور نہ ہی اس پر غور خوض جائز ہے۔
(50 ) کلام اللہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ ایک معنوی تعبیر ہے یا قرآن کریم حکایت یا تعبیر و شروح ہے یا وہ مجازی اور غیر حقیقی ہے ،اس قسم کے عقائد رکھنا گمراہی ہے اور ان میں بعض کفر بھی ہوتے ہیں۔
(51 ) جو شخص قرآن کے کسی حصے کا انکار کردے یا اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کی گنجائش سمجھتا ہو وہ کافر ہے۔(قرآن کی تفسیر سلف صالحین کے معلوم ومعروف طریقہ پر ہی کرنا ضروری ہے، محض قیاسات یا ذاتی رائے یا شخصی ذوق کے مطابق تفسیر کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ یہ اللہ تعالی کے متعلق ایسی بات کہنے کے مترادف ہے جو بلا علم ہے اور قرآن کو باطنیوں(ایک گمراہ فرقہ) والی تاویلات اور معانی پہنانا کفر ہے۔
( 52)تقدیر:اچھی اور بری تقدیر کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے پر یقین رکھنا ایمان کا رکن ہے، تقدیر کی تمام نصوص اور مراتب(علم،لوح محفوظ،مشیت الٰہی اور تخلیق) پر ایمان لایا جائے اور اس بات پر ایمان لایا جائے کہ اللہ تعالی کے فیصلے کو نہ کوئی مٹا سکتا ہے اور نہ کوئی ٹال سکتا ہے،کتاب وسنت میں بیان کردہ ارادہ اور امر کی دو اقسام ہیں:(الف)تکوینی وقدری ارادہ بمعنی مشیت وقدری امر(جو اللہ تعالی کی طرف سے طے کردہ ہے اور ہو کر رہنا ہے۔نیز مخلوق پر اس کی کوئی ذمہ داری اور اختیار نہیں)۔
(ب) شرعی ارادہ(جو پسندیدگی کے نتیجہ میں ہوتاہے) شرعی امرہے۔(یعنی وہ جو مخلوق سے مطلوب ومقصود ہے اور اسے اس کا اختیار دیا گیا ہے) مخلوق کے ارادہ اور مشیت(مرضی) دونوں کا وجود ثابت ہے مگر یہ خالق کے ارادے اور مشیت کے تابع ہیں۔
(53 ) ہدایت وگمراہی صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے، بعض لوگوں کو وہ اپنی رحمت سے ہدایت عطا فرماتا ہے اور بعض لوگوں پر بہ تقاضائے عدل وانصاف گمراہی مسلط کردیتاہے۔
(54 ) انسان خود بھی مخلوق ہے اس کے اعمال بھی مخلوق ہیں، سوائے اللہ تعالی کے اور کوئی خالق حقیقی نہیں ہے ، لہٰذا بندے جو اعمال کرتے ہیں ان کے وہ خود ذمہ دار ہیں اگرچہ ان اعمال کا خالق حقیقی بھی اللہ ہی ہے۔
(55 ) اللہ تعالی کے ہرکام میں حکمت کے پنہاں ہونے کا اثبات(اقرار) اور اللہ تعالی کی مشیت(مرضی) سے دنیاوی اسباب کے مؤثر ہونے کا اثبات بھی ضروری ہے۔
(56 ) موت کا وقت ،لوگوں کے رزق کی تقسیم اور سعادت وشقاوت(یعنی نیک بختی وبدبختی) سب کچھ ان کی تخلیق سے پہلے لکھا جاچکاہے۔
(57 ) تکالیف اور مصائب کو تقدیر کا لکھا کہا جا سکتا ہے لیکن بد اعمالیوں،گناہوں اور سیاہ کاریوں کے لیے تقدیر کو بہانہ نہیں بنایا جا سکتا،ان گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے اور گناہوں کے مرتکب کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔
(58 ) جس طرح اسباب پر کلی اعتماد کرنا شرک فی التوحید ہے اس طرح اسباب سے اجتناب کرنا بھی شریعت کے خلاف ہے،اسی طرح اسباب و وسائل کے مؤثر ہونے کی نفی کرنا شریعت اور عقل دونوں کے منافی ہے جبکہ توکل اسباب اختیار کرنے کے منافی نہیں۔
(59)جماعت اور خلافت: جماعت سے مراد صحابہ کرام اور تاقیامت آنے والے وہ تمام لوگ جو اچھا طریقہ اپناتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلیں گے اور یہی فرقہ ناجیہ ہے، جو بھی ان کی روش اپناتا ہے وہ جماعت میں سے ہے گو وہ بعض امور میں غلطی بھی کر جائے۔
(60 ) دین میں فرقہ بندی اور مسلمانوں میں فتنہ انگیزی حرام ہے۔جس چیز میں مسلمانوں میں باہمی اختلاف ہو جائے اسے شریعت اور سلف کے اسلوب کے سامنے پیش کرنا واجب ہے(سلف کے اسلوب سے مراد وہ طرزِ عمل یا رویہ جو صحابہ کرام، تابعین ،تبع تابعین یا اہل سنت کے وہ ائمہ جنھیں امت میں قبولیت عام ہے، نے وقتاً فوقتاً آنے والے مختلف مسائل میں مجموعی طور پر اپنایا ہو۔
(61 )جو شخص جماعت سے نکل جائے،اس کو نصیحت کرنا،اس کے لیے دعا کرنا اور اس کے ساتھ افہام وتفہیم اور دلائل پیش کرنا واجب ہے، اور اگر وہ راہ راست پر آ جائے تو بہتر ورنہ سزا کا شرعاً سزاوار ہے ۔
( 62) لوگوں کے سامنے کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت شدہ دین کے بنیادی عقائد واعمال کی دعوت دی جائے ،عوام الناس کو دقیق اور پیچیدہ امور میں نہ الجھایا جائے۔
(63 ) تمام مسلمانوں کے حق میں یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ صحیح عقیدے اور اچھے اعمال کرنے والے ہیں،جب تک اس کے برعکس کسی کا کردار واضح نہ ہو جائے اس کے متعلق خواہ مخواہ تاویلیں تلاش کرنا بھی درست نہیں ہے۔
( 64)اہل قبلہ کے وہ فرقے جو اہل سنت سے خارج ہیں ان کا حکم گناہ گاروں کا سا ہے جن کے لیے کتاب وسنت میں عذاب کی وعید ملتی ہے ، اس سے وہ شخص مستثنیٰ ہے جو درحقیقت کافر ہے، اور جو فرقے کلیتاً اسلام سے خارج ہیں وہ مجمل طور پر کفار شمار ہوں گے اور ان کا حکم وہی ہوگا جو مرتد کا ہوتا ہے۔
(65 )جمعہ اور دوسرے شرعی اجتماعات اسلام کے عظیم ترین ظاہری شعائر میں سے ہیں،مستور الحال(یعنی وہ جن کے عقیدہ اور عمل کی کیفیت پوشیدہ ہو) مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے، کسی کی حقیقت حال سے ناواقفیت کا عذر کرکے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا بدعت ہے۔
(66 ) اگر کسی امام سے بدعات یا فسق وفجور کا ظہور ہو تو دوسرے صالح شخص کے ہوتے ہوئے اس کے پیچھے نماز پڑھنی درست نہیں ہے، البتہ اگر پڑھ لے تو نماز ہو جاتی ہے، گو ایسا کرنے والا گناہ گار ہو گا،سوائے یہ کہ ایک بدعتی یا فاسق کے پیچھے نماز ادا کرنے سے اس کا مقصد کسی زیادہ بڑے شر کو دفع کرنا ہو اگر دوسرا صالح امام دستیاب نہ ہو اور جو دستیاب ہو وہ اس جیسا یا اس سے بھی بد تر ہو تو پچھلے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے، البتہ جماعت کے بغیر نماز پڑھنا ناجائز ہے، تاہم جس شخص کی تکفیر کی جا چکی ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔
(67)امارت کبری:خلیفہ کا انتخاب اجماع امت یا اہل حل وعقد کی بیعت کے ذریعے ہوتا ہے، اگر کوئی شخص اقتدار پر قابض ہوگیا اور امت نے اس کے اقتدار کو تسلیم کرلیا تو بھلائی اور نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت اور خیر خواہی فرض ہو گی اور اس کے خلاف بغاوت حرام ہو گی سوائے اس بات کے کہ حاکم کفر کا مرتکب ہو۔ مسلم حکمرانوں کی معیت میں حج اور جہاد کرنا واجب ہے خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں۔ لالچ یا جاہلانہ تعصب کی بنا پر مسلمانوں میں باہمی جنگ وجدال کرانا حرام اور بہت بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ البتہ بدعتیوں اور باغیوں کے خلاف جنگ کرنا ایسی صورت میں جائز ہے جب بغیر جنگ کے ان پر قابو نہ پایا جا سکتا ہو،حالات کے پیش نظر کبھی ایسی چارہ جوئی فرض بھی ہو جاتی ہے۔ تمام صحابہ کرام قابل اعتماد اور پوری امت میں افضل ہیں،ان کے ایمان اور افضلیت کا عقیدہ رکھنا دین کے ان مور میں سے ہے جن کا جاننا ہر خاص وعام پر واجب ہے،ان سے محبت رکھنا دین وایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ونفاق ہے،ان کے باہمی اختلافات کو زیر بحث نہ لایا جائے اور ایسی تمام باتوں کو چھیڑنے سے اجتناب کیا جائے جو ان کی افضلیت کے شایان شان نہ ہوں، ان میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ان کے بعد حضرت عمر فاروق ان کے بعد حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم آتے ہیں،یہی خلفائے راشدین کی ترتیب ہے اور چاروں خلفاء کی خلافت بر حق ہے، اہل بیت سے محبت اور دوستی رکھنا، امہات المؤمنین کی تعظیم کرنا اور ان کی فضیلت کا عقیدہ رکھنا،اسی طرح ائمہ سلف،علمائے امت اور ان کے پیروکاروں سے محبت رکھنا،اور اہل بدعت سے عداوت رکھنا دین کا حصہ ہے۔ جہاد اسلام کی چوٹی ہے اور وہ قیامت تک جاری رہے گا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کے عظیم ترین شعائر ہیں۔یہ دونوں چیزیں اہل اسلام کی جماعت کے نظم، حفظ اور بقا کی ضامن ہیں،حسب استطاعت اور موقع محل کی مناسبت سے ان پر کاربند رہنا واجب ہے۔تحریک اہل حدیث کی امتیازی خوبیاں:اہل الحدیث اپنی امتیازی خوبیاں مندرجہ ذیل بیان کرتے ہیں:اس مسلک میں اعتدال کا ایک حسن ہے۔یہاں ضابطہ حیات،اسوہ رسول اللہﷺ ہے۔یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے لامحدود محبت بھی ہے اور اہل بیت سے والہانہ عقیدت بھی۔یہاں ائمہ کرام اور اولیائے دین کی بہت زیادہ عزت و تعظیم ہے۔یہاں صحیح حدیث کو ائمہ کے قول پر ترجیح دینے کا ذوق بھی ہے اور فقہائے کرام کی بہترین کاوشوں کا اعتراف بھی۔یہاں احکام شریعت کی پیروی بھی لازم ہے اور نفس کو پاک کرنے کا شغل بھی۔
تحریر ناصربن عبد الکریم-
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...