Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ


* تصوف اور ناقدین ' تقابلی مطالعہ *
(قسط نمبر 13)
وحدت الوجود (Pantheism) اورعقیدہ حلول سے متعلق دلائل
*مخالف شریعت صوفیاء کے دلائل*
مخالف شریعت صوفیاء چونکہ شریعت کو محض چھلکا قرار دے کر اپنے صوفیانہ اشغال کو مغز کا درجہ دیتے ہیں، اس وجہ سے وہ قرآن و سنت سے دلائل پیش نہیں کرتے۔ ان کی دلیل زیادہ سے زیادہ کچھ آیات کے باطنی مطالب ہوتے ہیں جو کہ انہوں نے اپنے کشف اور الہام کی بنیاد پر اخذ کیے ہوتے ہیں یا پھر وہ اکابر صوفیاء کے کچھ اقوال کا سہارا لیتے ہیں۔  چونکہ ان صوفیاء کا کشف و الہام،  باطنی مطالب  اور سابق صوفیاء کے اقوال ناقدین تصوف کے لیے حجت نہیں ہیں، اس وجہ سے انہیں بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
*بعض صوفیاء کے دلائل*
بعض صوفیاء جو شریعت کی پابندی کی اہمیت دیتے ہیں، کچھ آیات اور احادیث سے استدلال کرتے ہیں جو کہ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
*کلمہ طیبہ*
بعض صوفیاء کلمہ طیبہ ہی کو وحدت الوجود کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں:
لا إِلَهَ إِلاَّ الله.
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
یہاں صوفیاء لفظ "الہ" سے مراد "موجود" لیتے ہیں۔ اس طرح ترجمہ یہ بنتا ہے کہ "اس کے سوا کوئی موجود نہیں۔" اسے صوفیاء اخص الخواص کی توحید قرار دیتے ہیں۔
اس کے جواب میں ناقدین تصوف یہ کہتے ہیں کہ عربی زبان میں کسی چیز کا وہی معنی مراد لیا جا سکتا ہے جو کہ اہل عرب کے ہاں نزول قرآن کے وقت رائج ہو۔  دور جاہلیت کے پورے لٹریچر کا مطالعہ کرتے چلے جائیے تو ان کے ہاں "الہ" کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوتا تھا  جسے ہم اردو میں معبود، خدا،  لائق پرستش وغیرہ سے ادا کرتے ہیں۔ کبھی بھی عربی زبان میں اس لفظ کو "موجود" کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اگر اس طرح سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو پھر کسی بھی لفظ کا کوئی بھی مطلب بیان کیا جا سکتا ہے۔ فرقہ باطنیہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔
*وجہ اللہ*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں:
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ.
تم جہاں بھی رخ کرو، تو اللہ کے وجہ کو اسی جانب پاؤ گے۔  (البقرۃ 2:115)
وہ کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں بھی رخ کیا جائے، وہی اللہ ہے۔ گویا کہ کائنات کی ایک ایک چیز میں اللہ موجود ہے۔  ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ آیت کریمہ کے سیاق و سباق کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بات ہی بالکل مختلف ہے۔ یہاں اہل کتاب کے باہمی اختلافات زیر بحث ہیں اور ان پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر اختلافات کو کس طرح ہوا دیتے ہیں۔  کبھی ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو تباہ کرتے ہیں، کبھی بیت المقدس کے مشرقی اور مغربی حصے کو قبلہ ٹھہرا کر اس پر مباحثہ کرتے ہیں اور کبھی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کا بیٹا مان لیتے ہیں۔ آیت کا پورا سیاق یہ ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُوْلَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلاَّ خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (114) وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (115) وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَداً سُبْحَانَهُ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (116).
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اس کا نام لینے سے روکتا ہے اور انہیں برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے لیے تو صرف یہی مناسب تھا کہ وہ ان میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ مشرق و مغرب اللہ ہی کے لیے ہے، تم جس جانب بھی رخ کرو، اللہ ہی کو پاؤ گے، یقیناً اللہ وسعت اور علم والا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ وہ اس سے پاک ہے، بلکہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، اسی کا ہے اور یہ سب اس کے فرمانبردار ہیں۔ (البقرۃ )
*اول و آخر*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں:
هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ.
وہی اول، آخر، ظاہر اور باطن ہے۔  (الحدید 57:3)
صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالی اول، آخر، ظاہر، باطن سبھی کچھ ہے۔ یہ مخلوقات اللہ تعالی کے وجود ہی کا محض ایک اظہار ہے۔ اس کے جواب میں ناقدین تصوف کہتے ہیں کہ آیت کریمہ  کے پورے سیاق و سباق کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں تو اس سے بالکل مختلف بات بیان ہو رہی ہے اور وہ یہ ہے:
سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (1) لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ يُحْيِ وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (2) هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (3) هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (4) لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الأُمُورُ (5)
ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اللہ کی پاکیزگی بیان کر رہی ہے۔ وہی زبردست اور حکمت والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی حکومت اسی کی ہے، وہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی اول، آخر، ظاہر اور باطن ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دن میں کی، پھر عرش پر استوا فرمایا۔ جو کچھ زمین میں داخل اور اس سے خارج ہوتا  ہے، اور جو کچھ آسمان سے اترتا اور اس کی جانب چڑھتا ہے، وہ اسے جانتا ہے۔  تم جہاں جاؤ، وہ تمہارے ساتھ ہے اور اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ کی جانب ہی تمام امور لوٹائے جاتے ہیں۔ (الحدید)
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ ان آیات کا خالی الذہن ہو کر مطالعہ کیا جائے تو یہ پکار پکار کر اللہ تعالی کی تخلیق، علم اور قدرت کو بیان کر رہی ہیں۔ اگر یہ کائنات اللہ تعالی کے وجود ہی کا ایک حصہ ہے تو پھر اسے تخلیق کرنے کا کیا مطلب؟
*کائنات کا نور*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں:
اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ.
اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔  (النور 24:35)
صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کا نور ہے۔
اس کے جواب میں ناقدین تصوف یہ کہتے ہیں کہ پوری آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک تمثیل بیان ہوئی ہے جس میں اللہ تعالی کی ہدایت کا نور زیر بحث ہے۔  اسی کے نور ہدایت سے آسمان و زمین درست راستے پر چلتے ہیں۔یہاں یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ پوری کائنات معاذ اللہ، اللہ تعالی کے نور کے میٹیریل سے بنی ہوئی ہے۔
اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ.
اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔   اس کے نور کی مثال ایک طاق میں  رکھے ہوئے چراغ کی سی ہے۔ وہ چراغ ایک فانوس میں ہو  اور فانوس ایسا ہو گویا کہ وہ موتی کی مانند چمکتا ہوا ستارہ ہو۔ وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو، جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی اور جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا جاتا ہو اگرچہ آگ اس کو نہ لگے۔ یہ نور پر نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ اللہ لوگوں کے لیے مثالوں کو بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النور 24:35)
*روح*
حلول کے قائل صوفیاء یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی روح انسان میں پھونکی، گویا انسان اللہ کی روح پر مبنی ایک وجود ہوا جو کہ وجود باری تعالی کا ایک حصہ ہے:
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ.
پھر جب میں نے اسے ٹھیک بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر جانا۔  (ص 38:72)
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ روح پھونکنے سے مراد انسان میں زندگی پیدا کرنا ہے، معاذ اللہ اس کے اندر حلول کر جانا نہیں ہے۔  آیت کریمہ سے ہی واضح ہے کہ یہاں اللہ تعالی انسان کو تخلیق کرنے کا ذکر فرما رہا ہے، نہ کہ اس میں حلول ہو جانے کا۔
*اللہ کی بندے سے محبت*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں:
حدثني محمد بن عثمان بن كرامة: حدثنا خالد بن مخلد: حدثنا سليمان بن بلال: حدثني شريك بن عبد الله بن أبي نمر، عن عطاء، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن الله قال: من عادى لي ولياً فقد آذنته بالحرب، وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه، وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه، فإذا أحببته: كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشي بها، وإن سألني لأعطينَّه، ولئن استعاذني لأعيذنَّه، وما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن نفس المؤمن، يكره الموت وأنا أكره مساءته.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی فرماتا ہے: "جس نے میرے ولی سے دشمنی کی، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرے قریب ہوتا ہے، ان میں کوئی عبادت میرے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کی قوت سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی قوت بصارت بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس ضرور عطا کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں جس کام کو کرنا چاہوں ، اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا   جتنا مومن کی جان کے بارے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو ناپسند کرتا ہے جبکہ مجھے بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، حدیث 6137)
ناقدین تصوف اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس حدیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ  معاذ اللہ اللہ بندے کے اندر حلول کر جاتا ہے کیونکہ اسی حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ اللہ سے مانگا جائے اور اسی کی پناہ طلب کی جائے۔ ہاتھ ، پاؤں بننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی محبت کے باعث اس شخص کے کان، آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ معاذ اللہ، اللہ تعالی کی ذات اس شخص کے وجود میں حلول کر جاتی ہے
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
www.dawatetohid.blogspot.com
جاری ہے......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...