Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ


* تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ *
(قسط نمبر 11)
*تصوف پر تنقید*
پچھلے تین اسباق میں ہم نے تفصیل سے تصوف اور اس کے معاملات کا مطالعہ کر لیا ہے۔ اب ہم تصوف کی اساسات(بنیاد) کو سمجھ چکے ہیں۔
اب ہم تفصیل سے اس تنقید کا جائزہ لیں گے جو ناقدین تصوف، صوفیانہ امور پر کرتے ہیں اور یہ دیکھیں گے کہ اہل تصوف اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔  اس تنقید کو ہم بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: صوفیانہ عقائد  اور تصورات پر تنقید اور عملی تصوف پر تنقید۔
اہل تصوف کے تقریباً تمام عقائد و نظریات پر ہی ناقدین تنقید کرتے ہیں لیکن ہم خاص خاص عقائد و نظریات کا ذکر کریں گے-جو مندرجہ ذیل ہیں-
*وحدت الوجود اور عقیدہ حلول*
*اللہ تعالی سے براہ راست تعلق کا دعوی*
*امور آخرت کا استخفاف*وغیرہ. ...
عملی تصوف پر تنقید ان پہلوؤں سے کی جاتی ہے:
*نفسیاتی غلامی*
*رہبانیت اور ترک دنیا*
*تزکیہ نفس کے طریقے*
*مخالفت شریعت*
ان کے علاوہ اور بھی ضمنی اعتراضات ہیں جن کا مطالعہ ہم الگ الگ اقساط میں کریں گے۔
*عقیدہ وحدت الوجود*
صوفیاء کے عقائد میں جو عقیدہ سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنا ہے، وہ وحدت الوجود کا عقیدہ ہے۔ اسی سے متعلق حلول کا عقیدہ ہے جو بعض صوفیاء کے ہاں پایا جاتا ہے۔
وحدت الوجود (Pantheism) اورعقیدہ حلول
جیسا کہ ہم پچھلے اسباق میں بیان کر چکے ہیں کہ وحدت الوجود کا عقیدہ صوفیاء کے اندر تقریباً متفق علیہ نظریہ ہے تاہم اس کی تفصیل کے بارے میں ان کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عقیدہ حلول بھی بعض صوفیاء کے اندر پایا جاتا ہے  جبکہ بعض اس سے انکار کرتے ہیں۔
وحدت الوجود کے فلسفے کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ  صرف اور صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ ہے اللہ تعالی۔ اس کی ذات کے علاوہ کوئی اور وجود نہیں پایا جاتا ہے۔  اگر اس بات کو مان لیا جائے تو پھر خالق و مخلوق میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا بلکہ انسان، حیوانات،نباتات، بے جان اشیاء، حتی کہ غلاظت اور شیطان بھی نعوذ باللہ، اللہ تعالی ہی کے وجود کا حصہ قرار پاتے ہیں۔  اس کے بعد اسلام اور کفر اور حلال و حرام میں بھی فرق کرنے  کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کیونکہ حلال و حرام معاذ اللہ سبھی خدا ہی ہیں۔
حلول کے عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی انسان کے اندر حلول کر جاتا ہے۔ اس عقیدے کو اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو پھر خدا ہر چیز کے اندر حلول کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے ہاں بہت سے جانوروں جیسے گائے، سانپ ، ہاتهی اور بندر وغیرہ کا بڑا احترام کیا جاتا ہے کیونکہ  ان کے نقطہ نظر کے مطابق بھگوان ان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے ہاں یہ تصور بھی موجود ہے کہ بھگوان اپنے خاص بندوں  کے اندر حلول کر جاتا ہے جو کہ "اوتار" کہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو پیروں فقیروں، جوگیوں اور سادھوؤں کی انتہائی تعظیم کرتے ہیں اور ان کی عقیدت کا یہ معاملہ ان کے اپنے بزرگوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ وہ دیگر مذاہب کے صوفیاء کی بھی ویسی ہی تعظیم کرتے ہیں۔
پابند شریعت صوفیاء حلول کے عقیدے سے انکار کرتے ہیں اور وحدت الوجود کے عقیدے کی مختلف تشریح کرتے ہیں۔  اس ضمن میں صوفی اکابرین کی جن عبارتوں  پر اعتراض کیا جاتا ہے، وہ یا تو ان کی تاویل کرتے ہیں اور یا پھر انہیں الحاقی قرار دیتے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ مختلف فریقوں کے نقطہ ہائے نظر بیان کرنے سے پہلے وحدت الوجود اور حلول سے متعلق اکابر صوفیاء کی عبارتیں پیش کر دی جائیں تاکہ اس نظریے کی وضاحت ہو جائے۔ ہم یہاں ترجمے کے ساتھ ساتھ اصل عربی عبارات  تاکہ عربی دان حضرات یا دینی مدارس کے طلبہ و طالب خود ان کا مطالعہ فرما لیں۔
شیخ عبداللہ الہروی (d. 481/1088)  کی کتاب منازل السائرین میں یہ بات لکھی ہوئی ہے:
والتوحيد على ثلاثة وجوه:
الوجه الأول توحيد العامة الذي يصح بالشواهد والوجه الثاني توحيد الخاصة وهو الذي يثبت بالحقائق والوجه الثالث توحيد قائم بالقدم وهو توحيد خاصة الخاصة
فأما التوحيد الأول فهو شهادة أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحدَ. هذا هو التوحيد الظاهر الجلي الذي نفى الشرك الأعظم وعليه نصبت القبلة وبه وجبتالذمة وبه حقنت الدماء والأموال وانفصلت دار الإسلام من دار الكفر ...
وأما التوحيد الثاني الذي يثبت بالحقائق فهو توحيد الخاصة وهو إسقاط الأسباب الظاهرة والصعود عن منازعات العقول وعن التعلق بالشواهد وهو أن لا تشهد في التوحيد دليلا ولا في التوكل سببا...
وأما التوحيد الثالث فهو توحيد اختصه الحق لنفسه واستحقه بقدره وألاح منه لائحا إلى أسرار طائفة من صفوته وأخرسهم عن نعته وأعجزهم عن بثه والذي يشار به غليه على ألسن المشيرين أنه إسقاط الحدث وإثبات القدم.
توحید کے  تین  درجے ہیں:
پہلا درجہ عام لوگوں کی توحید ہے جس کی  صحت دلائل پر مبنی ہے۔ دوسرا درجہ خاص لوگوں کی توحید ہے جو کہ حقائق [یعنی روحانی تجربات] سے ثابت ہوتی ہے۔ توحید کا تیسرا درجہ خاص الخاص لوگوں کی توحید ہے جو کہ ذات قدیم  [اللہ تعالی ]  ہی کی بنیاد پر قائم ہے۔
جہاں تک پہلی توحید کا تعلق  ہے جو کہ یہ گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا کوئی بھی شریک نہیں، وہ بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ یہ ظاہر روشن توحید ہے جو کہ بڑے شرک کی نفی  پر مبنی ہے۔ اسی کی بنیاد پر قبلہ کو نصب کیا گیا اور [غیر مسلموں] کو ذمی قرار دیا گیا۔ اسی کی وجہ سے  خون اور مال محفوظ ہوتے ہیں اور دار الاسلام، دار الکفر سے الگ ہوتا ہے ۔۔۔۔
دوسری قسم کی توحید وہ ہے جو حقائق پر مبنی ہے۔ یہ خاص لوگوں کی توحید ہے اور اس میں ظاہری اسباب  کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور عقلی دلائل اور شواہد کے ساتھ تعلق سے بلند ہو کر دلیل کے بغیر توحید کو مانا جاتا ہے اور توکل کے لیے کسی سبب کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔۔۔۔
توحید کا تیسرا درجہ وہ ہے جس حق تعالی نے اپنے لیے خاص کر لیا ہے اور بقدر ضرورت  اس کے اسرار کو منتخب افراد پر ظاہر کرتا ہے۔ اس کی صفات بیان کرنےاور [اس کی تفصیلات] پھیلانا ممکن نہیں ہے۔ جس کی طرف اشارہ کرنے والوں نے یہ اشارہ کیا ہے کہ یہ حادث [مخلوق] کی نفی اور قدیم [اللہ تعالی] کا اثبات ہے۔
شیخ ابن عربی  (558-638/1164-1240) کی کتاب "ٖفصوص الحکم" میں درج ہے:
وأن نفيها عين إثباتُها، علم أن الحق المنزة هو الخلق المشبه، وإن كان قد تميز الخلق من الخالق. فالأمر الخالق المخلوق، والأمر المخلوق الخالق. كل ذلك من عين واحدة، لا، بل هو العين الواحد وهو العيون الكثيرة. فانظر ما ذا ترى "قال يا أبت افعل ما تؤمر": والولد عين أبيه. فما رأى يذبح سوى نفسه. "وفداه بذبح عظيم" فظهر بصورة كبش من ظهر بصورة إنسان. وظهر بصورة ولد: لا، بل بحكم ولد من هو عين الوالد. "وخلق منها زوجها": فما نكح سوى نفسه. فمنه الصاحبة والولد والأمر واحد في العدد....
فالحق خلق بهذا الوجه فاعتبروا ..........وليس خلقا بذاك الوجه فادكروا
من يدر ما قلت لم تخذل بصيرتهَ.......... وليس يدريه إلا من له بصر
جمع وفرق فإن العين واحدة ............وهي الكثيرة لا تبقي ولا تذر
اس کی نفی عین اثبات ہے۔ وہ جان گیا کہ حق منزہ ہی خلق مشبہ ہے اگرچہ وہ خلق کو خالق سے بظاہر علیحدہ سمجھتا ہو۔  تو معاملہ یہ ہے کہ خالق کا معاملہ مخلوق ہے اور مخلوق کا معاملہ خالق ہے۔ یہ سب ایک ہی سرچشمہ سے ہیں۔ نہیں بلکہ یہی ایک سرچشمہ ہےجو ان سب کثیر حقائق میں  موجود ہے۔ دیکھیے آپ کی کیا رائے ہے؟ [اللہ تعالی نے ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا] "وہ [اسماعیل علیہ السلام] بولے: اباجان! جس کام کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، کرگزریے۔" تو بیٹا عین اپنا باپ ہے، تو انہوں نے کیا دیکھا کہ وہ اپنے آپ کو ذبح کر رہے ہیں۔ "پھر ہم نے اس کے فدیہ میں ایک بڑی قربانی کر دی۔" تو دنبہ کی صورت میں وہی ظاہر ہوا  جو کہ انسان کی صورت میں ظاہر ہوا یعنی بیٹے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ نہیں، بلکہ وہ  بیٹے کے حکم میں ظاہر ہوا کہ وہ عین وہی تھا جو کہ والد ہے۔"
اور اس (آدم) میں سے اسی کا جوڑا تخلیق کیا"۔ تو انہوں نے اپنے علاوہ کس سے نکاح کیا۔ انہی میں سے ان کی بیوی، اولاد سبھی نکلے۔ تو ان متعدد انسانوں میں  اصل معاملہ ایک ہی ہے۔۔۔۔
تو جان لو کہ اس اعتبار سے حق [تعالی] مخلوق ہے اور اُس اعتبار سے مخلوق نہیں ہے۔ اس بات کو یاد کر لو۔ جو میں کہہ رہا ہوں، اسے جو جانتا ہے، وہ اپنی بصیرت کو رسوا نہ کرے گا۔ اسے وہی جانتا ہے جس کے پاس "نگاہ" موجود ہے۔ اس نے اسے اکٹھا اور علیحدہ کیا کہ وہ سرچشمہ ایک ہی ہے اور یہ کثرت باقی نہ رہے گی اور نہ ہی چھوڑ دی جائے گی۔
ابن عربی سے تین صدیاں پہلے منصور حلاج  (244-309/858-922) کا واقعہ بہت مشہور ہے اور تمام کتب تصوف میں بیان ہوا ہے کہ انہوں نے خدائی کا دعوی کرتے ہوئے "انا الحق" یعنی "میں حق ہوں" کہا تھا۔ اگر وہ محض ایک آدھ بار غلبہ سکر میں ایسا کر دیتے تو کچھ نہ ہوتا مگر وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ اس دعوے کی باقاعدہ تبلیغ کرتے رہے۔ بادشاہ کے حکم سے انہیں گرفتار کر کے علماء کے سامنے پیش کیا گیا مگر وہ اپنے دعوی پر قائم رہے۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں موت کی سزا دی گئی۔اس وقت سے لے کر آج تک وہ تمام صوفیاء، خواہ وہ مخالف  شریعت ہوں یا پابند شریعت،  کے ہیرو اور شہید سمجھے جاتے ہیں۔ پنجابی کی ایک مشہور قوالی کا شعر ہے   ؎
جیہڑے نشہ عشق وچ رہندے او انا الحق ہی کہندے
ان کے اس طرز عمل کی توجیہ کرتے ہوئے بعض صوفیاء کہتے ہیں کہ منصور نے یہ دعوی خود نہیں کیا تھا بلکہ وہ ذات باری تعالی کے مشاہدے میں اس درجے میں غرق تھے کہ اللہ تعالی نے  ان کی زبان کو آلہ بنا کر خود یہ الفاظ کہے تھے۔  یہ بالکل ایسا ہی تھا کہ جیسے ریڈیو میں سے آواز نکلتی ہے مگر بولنے والا اس کے اندر نہیں بیٹھا ہوتا۔  اسی طرح منصور کی زبان ایک ایسا ریڈیو تھا جس میں سے اللہ تعالی کی آواز آئی تھی۔
علامہ ابن قیم (691-751/1292-1350)نے حلولی صوفیاء سے متعلق لکھا ہے کہ یہ اصؒل میں ایرانی النسل تھےاور انہیں "نساک" کہا جاتا تھا۔ یہ زمانہ قدیم سے ہی حلول کے عقیدے کے قائل تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ گروہ مسلم صوفیاء کے ساتھ مل گیا اور ان کے اندر  حلول و اتحاد کا نظریہ پیدا  کردیا۔  (دیکھیے مدارج السالکین، باب التوحید)
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...