Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ


*تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ*
(قسط نمبر 7)
شغل
شغل سے مراد کچھ روحانی نوعیت کی مشقیں ہیں جن کی مدد سے ذہن کو ایک نکتے پر مرکوز کرنے کی مشقیں کی جاتی ہیں تاکہ انسان کو اپنے ذہن پر کنٹرول حاصل ہو اور اس کی توجہ ادھر ادھر نہ بھٹکے۔ یہ مشقیں بڑی حد تک یوگا سے مشابہت رکھتی ہیں۔ اس کی بعض مثالیں بیان کرتے ہوئے سید شبیر احمد لکھتے ہیں:
شغل کی حقیقت اتنی ہے کہ اگر ذکر میں وساوس تنگ کریں اور کسی طرح دور نہ ہوں تو دل کو کسی تدبیر سے جب کسی ایسی چیز کی طرف مائل کیا جائے کہ اس سے یکسوئی حاصل ہو اور وساوس دور ہوں شغل کہلاتا ہے ۔ یاد رکھیئے کہ یہ مقصود نہیں لیکن معاون فی المقصود ہوسکتا ہے ۔اس کی اصل نماز میں نظر کا محبوس کرنا ۔بکاء کی کیفیت کو ضبط کرنا اور سترہ وغیرہ ہے۔حبس کی دم بھی اس کی ایک قسم ہے ۔یہ گو کہ جوگیوں سے لیا گیا ہے لیکن یہ ان کا کوئی مذہبی شعار نہیں تھا اس لئے ایک تدبیر کے طور پر اس کا لینا جائز تھا جیسا کہ جنگ خندق میں خندق کا کھودنا۔
شغل اسم ذات
کاغذ کے ایک ٹکڑے پر دل کی تصویر بنا کر اس پر لفظ ’’اللہ ‘‘ خوبصورت لکھا جائے اور پھر اس کو بغور مسلسل دیکھا جائے حتی ٰ کہ اس کا نقش دل پر جم جائے ۔یا دل پر ایک خیالی قلم سے لفظ اللہ لکھنے کی کوشش کی جائے ۔عموماً اس میں پہلا طریقہ آسان اور دوسرا مشکل ہوتا ہے۔
سلطان الاذکار
اس کے کئی طریقے ہیں ۔ایک طریقہ یہ ہے کہ چھوٹے سے حجرہ میں جہاں شور و غل نہ ہو داخل ہو کر درود شریف اور استغفار اور اعوذ باﷲ پڑھ کر "اللهم اَعْطِیْ نُوْراً وَّ اجْعَل لِّي نُوْراً وَّ اَعْظِمْ لِي نُوْراً وَّ اجْعَلْنِي نُوْراً" تین بار حضور قلب وتصور کے ساتھ کہے پھر خواہ لیٹ کر یا بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر بدن کو ہلکا کرے اور مردہ تصور کرے اور پورا متوجہ اور باہمت ہو جاوے اس کے بعد سانس لیتے وقت اللہ کا اور سانس باہر نکالتے وقت ہو کا تصور کرے اور خیال کرے کہ سانس لیتے وقت اور باہر نکالتے وقت ہر بال بال سے ہو نکل رہا ہے ۔یہاں تک مشغول ہو کے کہ اپنا خیال تک بھی جاتا رہے اور "هو الْحَي الْقَيّومْ" کا ہر وقت تصور قائم ہو جاوے انشاء اللہ تعالیٰ اس طرح سے کچھ عرصہ بعد جسم کا ہر رواں رواں ہر ہر بال ذاکر ہو جائے گا ۔اور انوار تجلی سے منور ہو جائے گا ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حواس خمسہ کو روئی سے یا انگلیوں سے اس طرح بند کرے کہ دونوں انگوٹھے دونوں کانوں کے سوراخوں میں دے اور دونوں انگلیاں شہادتین کی دونوں آنکھوں کے پپوٹے پر رکھے اور دونوں انگلیاں بیچ کی دونوں نتھنوں پر رکھے اور دونوں انگلی چھنگلی کے پاس کی اوپر کے ہونٹ پر اور چھنگلی نیچے کے ہونٹ پر رکھے اوراکڑوں بیٹھ کر یا جس طرح بیٹھنے کی سہولت ہے بیٹھ کر زبان کو تالوے سے لگائے اور آہستہ آہستہ سانس لے کر حبسِ دم کرے یعنی سانس کو روکے اور لفظ اللہ خیال سے بلا حرکت لسان ناف سے کھینچ کر ام الدماغ یعنی بیچ سر میں روکے ۔جب تک بلا تکلف رک سکے اور وہاں سے دل مُدَوَّر میں لے جا کر اسم ذات ’’اللہ ‘‘خیال سے کہتا رہے ۔جب سانس لینے کا تقاضا ہو تو صرف نتھنوں سے انگلیاں ہٹا کر ناک سے آہستہ سانس چھوڑے تین سانس لے کر پھر حبس دم کرے اور پھر ایک ایک سانس بڑھا کر تحمل کی مقدار کو پہنچا دے ۔
شغل سلطاناً نصیراً
اس کا طریقہ یہ ہے کہ صبح شام رو بقبلہ دونوں زانوں بیٹھے اور اطمینان خاطر سے دونوں آنکھیں یا ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ سے ناک کے نتھنے پر نظر ڈالے اور بغیر پلک جھپکائے جس طرح چراغ یا ستارہ کی روشنی کو دیکھتا ہے غیر معین نور کا تصور کرے اور استغراق ایسا ہو کہ وہ محو ہو جائے ۔ ابتداء میں تو آنکھوں میں ضرور تکلیف ہو گی اور پانی بہے گا لیکن چند دن کے بعد جب عادت ہو جائے گی تو یہ تکلیف جاتی رہے گی اور اس کو اپنی صورت جس طرح آئینہ میں نظر آتی ہے نظر آنے لگے گی اور نور الٰہی سے منور ہو جائے گا ۔خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا ہے کہ اس شغل کے فوائد بہت ہیں خصوصاً خطرات کے انسداد میں عجیب و غریب تاثیر رکھتا ہے ۔
شغل سلاطاناً محموداً
اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس طرح سلطاناً نصیراً کے ذکر میں نتھنوں پر نظر رکھتے ہیں اسی طرح اس شغل میں دونوں بھنوؤں کے بیچ نظر رکھتے ہیں ۔ اس شغل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذاکر کو اپنا سر نظر آنے لگتا ہے اور جب سر نظر آنے لگتا ہے تو عالم بالا کے حالات سے مطلع ہو جاتا ہے ۔
شغل سہ پایہ
شغل سہ پایہ "ﷲُ سَمِیْعٌ " "ﷲُ بَصِیْرٌ" "ﷲُ عَلِیْمٌ" کا ذکر ہے ۔طریقہ اس کا یہ ہے کہ چار زانو بیٹھ جائے اور سلطاناً نصیراً کا تصور کرے اور سانس روک کر ناف سے لے کر ام الدماغ تک پہنچائے جب سانس ام الدماغ میں پہنچے تو "ﷲُ سَمِیْعٌ" کہے اور " بِیْ یَسْمَعُ" کا تصور کرے پھر "ﷲُ بَصِیْرٌ " کہے اور " بِیْ یَبْصُرْ " کا تصور کرے پھر ناف پر "ﷲُ عَلِیْمٌ " کہے اور " بِیْ یَنْطِقُ " کا تصور کرے پھر اس کے بعد اس طرح شروع کرے کہ ام الدماغ میں "ﷲُ عَلِیْمٌ " اور ناف پر "ﷲُ سَمِیْعٌ " عروج و نزول کے طریقہ پر کہے یہاں تک کہ ایک سانس میں ایک سو ایک بار شغل سہ پایہ کرنے لگے ۔
تحقیق: یہ شغل لکھ دئے ہیں جس کی صحت عمدہ ہو ،اعصاب میں ضعف نہ ہو اور سالک چاہے تو کرے لیکن شیخ کی تجویز ہر حالت میں ضروری اور مقدم ہے ،اطلاع اور اتباع اصل ہے ۔ ذکر و شغل یک ضربی ،چہار ضربی ،پنج ضربی شش ضربی اور ہفت ضربی بھی ہے ۔ لیکن اب بس یک ضربی اور دو ضربی پر کفایت ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ حسب بیانِ سابق کافی و وافی ہے ۔
ان اشغال سے متعلق فاضل مصنف نے چھ لطائف کا ذکر بھی کیا ہے۔ لطیفہ سے مراد یہاں ہنسی مذاق والا لطیفہ نہیں بلکہ جسم انسانی کے وہ مخصوص مقامات ہیں جہاں ذکر و شغل کے دوران ضربیں لگائی جاتی ہیں۔ ان میں ناف کے نیچے، عین دل کا مقام،  دماغ کا درمیانی حصہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان مقامات پر توجہ کرنے اور ضربیں لگانے سے انسانی  ذہن کی پروگرامنگ میں مدد ملتی ہے۔ زیادہ مشقوں کے نتیجے میں ان مقامات کی جلد پر کچھ رنگ بھی ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں۔
مراقبہ
ذکر اور شغل کے علاوہ اہل تصوف مراقبہ بھی کرتے ہیں۔ یہ بھی ذہن کو کسی مخصوص نکتے پر مرکوز کرنے کی مشق ہوتی ہے۔ مراقبے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے مقام پر بیٹھا جائے جہاں سالک کو کوئی چیز ڈسٹرب نہ کر سکے۔ مراقبوں کی بعض مثالوں کو سید شبیر احمد کاکا خیل اس طرح بیان کرتے ہیں:
جب ذکر ضربی یا سری [ذکر جلی یا خفی] کی تکثیر سے سالک منور ہو جاتا ہے اور اس کی رگ رگ ،رونگٹے رونگٹے میں ذکر سرایت کر جاتا ہے اور ایک محویت کی سی حالت پیدا ہو جاتی ہے تب مراقبات کی تعلیم کی نوبت آتی ہے ۔اصل یہی ہے ۔ لیکن اب عوارض کے سبب ذکر کے ساتھ ساتھ ہی مراقبات بھی تعلیم کر دیئے جاتے ہیں۔کسی ایسے مضمون کو سوچنا جواللہ جلّ شانہُ تک پہنچانے والی ہو اس کے خیال رکھنے کو مراقبہ کہتے ہیں ۔لہٰذا مراقبہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مد نظر رکھنے کو کہتے ہیں۔
اور مراقبہ خاص یہ ہے کہ خدا کی ذات میں اس قدر فکر کرے کہ اپنے سے بے فکر و بے خبر ہو جاوے ۔کبھی یاد دل سے نہ اترے خواہ جمال کے لحاظ سے ہو یا جلال کے لحاظ سے ہو ۔انس کے طور پر ہو یا خشیت کے ساتھ ہو ،خوف کے ساتھ ہو یا رحمت کے ساتھ ،محبت کے ساتھ ہو یا اس کے ساتھ ملنے کے شوق کے ساتھ۔
طریقہ اس کا یہ ہے کہ دو زانو نمازی کی طرح سر جھکا کر بیٹھے اور دل کو غیر اللہ سے خالی کر دے اور اللہ جل شانہ کی حضوری میں حاضر کر دے اور اعوذ و بسم اﷲ پڑھ کر تین بار ﷲُ حَاضِریْ ،ﷲُ نَا ظِرِی اور ﷲُ مَعِیْ زبان سے کہہ کر ان کے معنوں کو دل میں ملاحظہ کرے ،تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ حاظر و ناظر ہے اور میرے پاس ہے ،اس جاننے اور تفور کرنے خیال کرنے میں اس قدرر محو ہو کہ غیر حق کا تصور نہ رہے حتیٰ کہ اپنی بھی خبر نہ رہے ۔
مراقبہ کی قسمیں
مراقبہ کے متعدد طریقے ہیں جس طریقے سے جس قسم سے طالب کو نفع ہوا ہو ،منزل مقصود تک پہنچائے ،اس کے ساتھ کوشش کرے ۔چند اہم قسمیں یہ ہیں ۔ مراقبہ رویت، مراقبہ معیت، مراقبہ اقربیت، مراقبہ وحدت، مراقبہ فناء۔
مراقبہ رویت
خدا کی رویت کا تصور کرے "اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ ﷲَ يَریٰ" [کیا نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے ۔] اس پر غور کرے اور اس پر مواظبت [یعنی مسلسل ] کرے اور یہاں تک مشغول ہو کہ یہ مراقبہ پکا ہو جائے ۔
مراقبہ معیت
"هو مَعَکُمْ أيْنَمَا کُنْتُمْ" [تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے ]اس کے معنی کے ساتھ تصور اور یقین کرے کہ خلوت اور جلوت ،بیماری تند رستی ہر حالت میں اللہ میرے ساتھ ہے ۔اسی خیال سے مستغرق ہو جاوے ۔
مراقبہ اقربیت
"نَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيه مِنْ حَبْلٍ الْوَرِيد" [ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں] اس آیت پر معنی کے ساتھ غور کرے اور اس خیال میں محو ہو جاوے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قریب ہے ۔
مراقبہ وحدت
"ھُوَ الْاَوَّلُ وَالاٰخِرْ [اس کا وجود ہر جگہ جلوہ فرما ابتداء اور انتہا میں وہی ہے] اس کو زبان سے کہے اور تصور کرے کہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے اسی خیال میں مستغرق ہو جاوے ۔
مراقبہ فناء
"کُلُّ مَنْ عَلَيهَا فانٍ" [دنیا کی تمام چیزیں فانی ہیں اور اللہ بزرگ و برتر باقی رہے گا ۔] اس کے معنی کا تصور کرے کہ تمام چیزیں فناء ہو جائیں گی اور ذات باری ہی ہمیشہ رہے گی اور دل کی آنکھ سے دیکھے اور اس خیال میں محو ہو جائے تاکہ اس کے معنی خوب منکشف ہو جائیں اور اپنے وجود کو فنا اور علم و عقل کو اضمحلال  [کمزوری] ہو ۔
ذکر، شغل اور مراقبہ کے دوران جب سالک اپنے ذہن کو مخصوص  نکات پر مرکوز کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اسے کچھ انوار و تجلیات نظر آتے ہیں۔  یہ انوار اللہ تعالی کی جانب سے بھی ہو سکتے ہیں اور شیطان کی طرف سے بھی۔ ان سے متعلق فاضل مصنف لکھتے ہیں:
جب ذاکر باہتمام تقویٰ خدا کا ذکر کرنے لگتا ہے اور ذکر تمام اعضاء میں سرایت کر جاتا ہے اور غیر خدا سے دل پاک و صاف ہو جاتا ہے اور روحانیت سے تعلق خاص پیدا ہو جاتا ہے تو انوار الٰہی کا ظہور ہونے لگتا ہے اور وہ انوار کبھی خود اپنے میں دکھائی دینے لگتے ہیں اور کبھی اپنے سے باہر ۔اچھے انوار وہی ہیں جن کو سالک دل سینہ و سر یا دونوں طرف اور کبھی تمام بدن میں پائے یا کبھی داہنے بائیں کبھی سامنے سر کے پاس ظاہر ہوں وہ بھی اچھے ہیں لیکن ان کی طرف توجہ نہ کرنا چاہئے کہ کہیں لطف اندوز و متلذذ ہو کر خسارہ اٹھائے ۔
اس کے بعد انہوں نے متعدد علامات ایسی بیان کی ہیں جن سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ انوار اللہ تعالی کی جانب سے ہیں یا شیطان کی طرف سے۔ ان علامات کی بنیاد صوفیاء کے تجربات ہیں۔
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...