Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ


* تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ *
(قسط نمبر 12)
*مخالف شریعت صوفیاء کا نقطہ نظر*
مخالف شریعت صوفیاء کے ہاں وحدت الوجود اور حلول کے عقیدے کے  وہی نتائج برآمد ہوتے ہیں جو کہ اس کا منطقی تقاضا ہے۔ جب اس کائنات کی ہر ہر چیز کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ ایک ہی وجود کا حصہ ہے تو پھر ہر ہر خدا ہی ہوئی۔ پھر ہر انسان خدا ہی ٹھہرا۔ اس کے بعد نہ تو کسی حلال کی ضرورت رہتی ہے اور نہ حرام کی اور شریعت کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ یہ  وحدت الوجود کے عقیدے کا منطقی تقاضا ہے۔ مخالف شریعت صوفیاء نے اس عقیدے کو اسی طرح سمجھا ہے۔  بعض صوفیاء کے متعلق ان کی اپنی کتب میں درج ہے کہ وہ پاخانہ تک کھا لیا کرتے تھے اور ماں اور بہن سے ازدواجی تعلق قائم کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے تھے اور خود اپنی ذات کو خدا سمجھا کرتے تھے۔  اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب ہر چیز ہی خدا ٹھہری تو پھر خدا کا ایک حصہ دوسرے حصے سے جو بھی معاملہ کرے، وہ درست مانا جاتا ہے۔ ابن عربی کے شاگرد ابن فارض کے چند اشعار صوفیانہ حلقوں میں بہت مشہور ہیں:
لها صلاتي بالمقام أقيمها وأشهد أنها لي صلت
كلانا مصل عابد ساجد إلى حقيقة الجمع في كل سجدة
وما كان صلى سواي فلم نكن صلاتي لغيري في إذاء كل ركعة
وما زلت إياها وإياي لم تزل ولا فرق بل ذاتي لذاتي أحبت
ففي الصحو بعد المحو لم أك غيرها وذاتي بذاتي إذا تحلت تجلت
جس مقام پر میں فائزہوں، اس پر فائز رہتے ہوئے یہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اس ّ[اللہ] کے لیے نماز پڑھی اور [نعوذ باللہ] اس نے میرے لیے۔ ہم دونوں ہی نماز پڑھنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، اور ہر سجدے میں ایک متحد حقیقت  کو سجدہ کرنے والے ہیں۔اس نے میرے سوا نماز نہ پڑھی تو ہر رکعت کی ادائیگی میں میری نماز میرے علاوہ کسی کے لیے نہ تھی۔ میں وہ رہا، اور وہ میں رہا۔ کوئی فرق نہیں بلکہ میری ذات میری ہی ذات سے محبت کرتی ہے۔ فنا ہونے کے بعد ہوش میں آ کر بھی میں اس سے الگ نہیں اور میری ذات جب میری ہی ذات میں حلول کرتی ہے تو آشکار ہو جاتی ہے۔
حلول کے عقیدے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ مان لیا جائے کہ اس میں خدا حلول کر گیا ہے تو پھر اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جانا چاہیے جو کہ اللہ تعالی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پھر اس کی ویسی ہی تعظیم کی جائے گی، اسے سجدے کیے جائیں گے، اس کے حکم پر بلا چون و چرا عمل کیا جائے گا، اس کے اشارہ ابرو پر جان بھی قربان کی جائے گی، مال و دولت کو اس کی نذر کیا جائے گا اور زندگی کا ہر معاملہ اس کے حکم کے مطابق چلایا جائے گا۔ اہل تشیع میں اسماعیلی حضرات کا یہ نقطہ نظر ہے کہ خدا ان کے امام میں حلول کر جاتا ہے، چنانچہ وہ اپنے ائمہ کے ساتھ یہی معاملہ کرتے تھے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بہت سے صوفیاء کا ہے جن کا بظاہر دعوی ہے کہ وہ حلول کے عقیدے کے قائل نہیں ہیں مگر  وہ یہ سب معاملات اپنے پیرو مرشد کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان واقعات کے لیے کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا مشاہدہ پنجاب یا سندھ کے کسی بھی آستانے کے بزرگ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔
*پابند شریعت صوفیاء کا نقطہ نظر*
وحدت الوجود کے ضمن میں پابند شریعت صوفیاء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس نظریے کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ یہ حضرات وحدت الوجود اور توحید کے متضاد نظریات کو ہم آہنگ (Reconcile) کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔  اس معاملے میں ان کے ہاں دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر وحدت الوجود کی ایسی تشریح کا ہے جو خلاف شریعت نہ ہو اور دوسرا  نقطہ نظر "وحدت الشہود" کے ماننے والوں کا ہے۔ پہلے نقطہ نظر  کے تحت وجود باری تعالی کو حقیقی اور مخلوقات کے وجود کو مجازی مان لیا جاتا ہے۔
اہل تصوف کا دوسرا گروہ "وحدت الشہود" کا قائل ہے۔ اسے وہ "وحدت الوجود" کا حقیقی مطلب قرار دیتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ ایک سالک کو اللہ تعالی کی عظمت کے مشاہدے میں ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پھر اسے کوئی مخلوق نظر ہی نہیں آتی۔ ایسے موقع پر  اس کی زبان سے "لا موجود الا اللہ" قسم کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر شیخ احمد سرہندی (971-1034/1564-1624) نے پیش کیا اور اسے "وحدت الشہود" کا نام دیا۔ اس کے لیے وہ یہ مثال دیتے ہیں کہ جب سورج نکل آئے تو ستارے نظر نہیں آتے۔ بالکل اسی طرح سالک جب مشاہدہ الہی میں غرق ہو جاتا ہے تو پھر اسے مخلوق نظر نہیں آتی۔
صوفیاء کے ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حلول و اتحاد سے متعلق یہ عبارتیں صوفیاء کی کتب میں داخل کی گئی ہیں۔ شامی صوفی شیخ عبدالقادر عیسی (1919-1991) لکھتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں کہ [حلول و اتحاد] کا یہ نظریہ صریح کفر ہے اور امت کے عقائد کے خلاف ہے۔  صوفیاء جو اسلام، ایمان اور احسان کے حصول کے لیے سرگرداں تھے اس گمراہی و کفر میں پڑنے والے نہ تھے۔ کسی انصاف پسند صاحب ایمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ بغیر تحقیق و ثبوت کے  اور ان کی بات کو سمجھے ان پر اس کفر  کا الزام لگائے۔
*ناقدین تصوف کا نقطہ نظر*
ناقدین تصوف وحدت الوجود کے عقیدے پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور اسے توحید کا مخالف قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس نظریے کو کسی بھی طریقے سے توحید سے ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
عقیدہ "وحدت الوجود" کے باطل ہونے پر ناقد علماء و مفسرین کا اتفاق ہے اور متفقہ طور پر یہ عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہے،  چونکہ یہ عقیدہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو حقیقی عقیدہ توحید جو کہ دین اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اسے ختم کر دیتا ہے، اس لئے علما اس عقیدہ کو ختم کرنے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں ­اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم  سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، اللہ عزوجل فرماتا ہے:{ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ} ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]ایک جگہ فرمایا:{ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ }ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159]
ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے حالانکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، وہ کیسے قدیم اور ازلی خالق کو اور نو پید مخلوق کو ایک کہہ سکتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً}ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9]
چنانچہ جو اس حقیقت کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی حتمی اور فیصلہ کن نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔
صوفیاء کا یہ فلسفہ کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کیے ہوئے ہے، ناقابل فہم ہے اگر یہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ ہے اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے، اگر امر واقعہ یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ عابد کون ہے اور معبود کون؟ ساجد کون ہے اور مسجود کون؟مرنے والا کون اور مارنے والا کون؟زندہ ہونے والا کون اور زندہ کرنے والا کون؟ روز جزا حساب لینے والا کون ہے اور دینے والا کون؟اور پھر جزاء یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں اور بھیجنے والا کون؟ اس فلسفہ کو تسلیم کرلینے کے بعد انسان کی تخلیق اور یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟ اگر اللہ تعالی کے ہاں یہ عقیدہ قابل ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ کیوں قابل قبول نہیں؟ مشرکین کا یہ عقیدہ کہ انسان اللہ کا جزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟ وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا) یا اللہ تعالی کو کسی انسان میں مدغم سمجھنا ایسا کھلا شرک ہے جس کا دین اسلام سے دور دور کا بهی واسطہ نہیں ہے-
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "یہ کہنا کہ ہر چیز کا وجود اللہ تعالی کا وجود ہی ہے، یہ لادینیت کی انتہا ہے، مشاہدات، عقل اور شریعت سے اس عقیدے کی خرابی واضح ہے، اس قسم کی لا دینیت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کیا جائے اور اس کی مخلوقات سے مشابہت کی نفی کی جائے، یہی اللہ پر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کا دین اور طریقہ کار ہے ""درء تعارض العقل و النقل "(1/283)
مزید فرمایا:عقیدہ "وحدت الوجود "جس کے مطابق خالق اور مخلوق کا وجود ایک ہی ہے ، ابن عربی ،ابن سبعین ،تلمسانی اور ابن فارض وغیرہ اسی کے قائل ہیں، اس قول کا شرعی اور عقلی لحاظ سے باطل ہونا یقینی طور پر ثابت ہے" "مجموع الفتاوی"(18/222)
امام ابن تیمیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔ ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آرہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین ، ص 160)اسی رسالے میں انہوں نے ابن عربی کا ایک شعر نقل کیا ہےالرب حق“ و العبد حق“یا لیتَ شعری مَن المکلف“جس کا ترجمہ ہے کہ رب بھی خدا ہے اور انسان بھی خدا ہے۔ کاش! مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ان میں سے مکلف (یعنی دوسرے کو احکام کی پابندی کا حکم دینے والا) کون ہے۔ اسی جیسے عقائد کی بنا پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ"ابن عربی کو کافر قرار دیتے ہیں
مولانا اقبال کیلانی لکھتے ہیں:بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جز سمجھنے لگتا ہےاس عقیدے کو وحدت الوجود کہاجاتاہے۔عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے،اور وہ دونوں(خدا اور انسان) ایک ہوجاتے ہیں،اس عقیدے کو وحدت الشھود یا فنا فی اللہ کہاجاتاہے،عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہاجاتاہے۔ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے یہ عقیدہ ہرزمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار بدھ مت کے عقیدہ نرواں اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ (یہودی اسی فلسفہ حلول کے تحت عزیر کواور عیسائی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا(جزء)قرار دیا دیکھیں [سورۃ التوبۃ:30) اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے لہ جات ملاحضہ ہوں۔
( مولانا اقبال کیلانی، کتاب التوحید، حدیث پبلیکیشنز،2شیش محل روڈ لاہور، ص: 70-71)
مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں: انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعہ اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے، بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتاہے، اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں،کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔  مولانا عبد الرحمن کیلانی، "۔دین طریقت کے نظریات وعقائد"، شریعت وطریقت، 1، مکتبۃ السلام۔سٹریٹ20 وسن پورہ لاہور، ص: 63-64)
شیخ عبد الرحمن عبد الخالق لکھتے ہیں کہ:- اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے،یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اترآتا ہے، یہ حلاج صوفی کا عقیدہ تھا۔ایک عقیدہ وحدت الوجود کا ہے یعنی خالق مخلوق جدا نہیں، یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا، اور آخر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہوگیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی ، ابن سبعین ، تلمسانی ، عبد الکریم جیلی ، عبد الغنی نابلسی ہیں۔ اور جدید طرق تصوف کے افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔ .. (شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، اہل تصوف کی کارستانیاں، مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان، ص: 27)
ڈاکٹر ابوعدنان سہیل لکھتے ہیں:- عقیدۂ وحدت الوجود کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے بلکہ عقیدۂ تثلیث ہی کی بدلی ہوی شکل ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ،روح القدس اور عیسی علیہ السلام ایک ہیں،اور گمراہ مسلمان کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ ہے۔ کم علم زاہدوں اور عبادت گزاروں نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر عابد اور معبود، خالق اور مخلوق اور حق اور باطل کے مطلب ہی کو سرے سے بدل دیا، ان کے نزدیک جو کچھ دکھائی دیتا ہے،وہ اللہ تعالی ہی کے مختلف مظاہر ہیں اور دنیا میں پائے جانے والے تمام ادیان ومذاہب رب تک پہنچنے کے مختلف بر حق راستے ہیں،۔ ایسے ہی ایک کم علم زاہد کا قول ہے: چونکہ ہر شئے میں اسی کا جلوہ ہے ، ساری کائنات اسی کی جلوہ گاہ ہے، ہر شئی سے وہی ظاہر ہو رہا ہے، اس لیے ہر انسان مظہرِ ذات الہی ہے اور اس کی صفات انسان میں جلوہ گر ہیں ۔ اگر ہندو میں اس کا جلوہ ہے تو مسلمان میں بھی وہی اللہ جلوہ گر ہے، اس لیے صوفی، جملہ انسانی افراد کو مظاہر ذات سمجھ کر سب سے یکساں محبت کرتاہے، اسی لیے مسجد کے علاوہ گرجے، صومعے اور مندر کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔(ڈاکٹر ابو عدنان سہیل، اسلام میں بدعت ع ضلالت کے محرکات)
مزید تفصیلات کے لیے ان کتب کا مطالعہ کریں:تصوف کی حقیقت، مصنف پرویز شائع کردہ طلوع اسلام ٹرسٹ-اللہ موجود نہیں؟ تالیف؛ امیر حمزہ، شائع کردہ دار السلام-شریعت و طریقت،مصنف؛ مولانا عبدالرحمن کیلانی، مکتہ السلام-شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، اہل تصوف کی کارستانیاں- مولانا اقبال کیلانی، کتاب التوحید-شیخ محمد بن صالح عثیمین کتاب "القواعد المثلی فی صفات اللہ و اسمائہ الحسنی- اللہ کہاں ہے؟مؤلّف؛عادل سهيل ظفر،وغیرہ-
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...