Saturday 29 October 2016

دعویٰ حق اور فقہی مذاہب

*دعویٰ حق اور فقہی مذاہب*

(تالیف:عمران شہزاد تارڑ)

یہ وہ حق ہے جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چاروں مذہب حق پر ہیں۔اور ایک وقت میں ایک مذہب کی تقلید کرنا لازم ہے،اس حق کے سوا جو ہے  وہ سب باطل ہے،ذرا سوچیں !اگر سارا حق ایک مذہب  میں ہے تو ظاہر ہے کہ باقی تینوں مذہب حق نہ رہے،اگر چاروں میں سے ہر ایک میں حق ہے تو زیادہ سے زیادہ ہر مذہب میں حق کا چوتھائی حصہ ہے نہ کہ پورا حق،ایک چوتھائی حق ہے تو یہ بھی مسلم ہے کہ ہر مسلک میں تین چوتھائی باطل ہے۔آپ ایک روپیہ کے چار حصے کریں چار دھریاں ریت کی کریں اور اس ایک روپے کو ان چاروں دهریوں میں رکھیں تو ظاہر ہے کہ آپ ہر ایک دھری میں ایک چوانی (یعنی چوتھائی حصہ)رکھ سکتے ہیں۔جس جس دھڑے پر جو جو جماعت قبضہ کر کے بیٹھے گی وہ بہت کچھ محنت کر کے رول رول کر اس ڈھیر میں چوانی(یعنی چوتھائی حصہ) ہی نکال سکتی ہے نہ کہ پورا روپیہ۔پس اگر حق ان چاروں میں ہے  تو زیادہ سے زیادہ ہر مسلک میں ایک چوتھائی حق ہے ۔اور تین چوتھائی باطل ہے۔
دوسری طرف  وہ جماعتیں جو کسی خاص مسلک کی تقلید نہیں کرتیں آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک وسیع مکان ہے جس کے چار حصے کردیے گئے اور ہر حصے کو دیواریں بنا کر دوسرے حصے سے بالکل الگ کر دیا گیا ۔ان چاروں حصوں میں مختلف لوگوں نے رہائش شروع کر دی، ظاہر ہے کہ ہر قبیلے والوں کے لیے وہی وسعت رہی جو اس اصلی مکان کی چوتھائی ہے،پورے مکان  کی وسعت ان چاروں قبیلوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی ۔لیکن جو قبیلہ اس وسیع مکان کے چار حصے نہ کرے اسے اس کی اصلی وسعت اور کشادگی پر رہنے دے ،ظاہر ہےکہ اس کے لیے بہت وسیع میدان ہے،یہ اللہ کی وسیع فضا میں کھلی ہوا میں اور صاف روشنی میں اپنا گزارا کر سکتا ہے اور کر رہا ہے ۔کامل دین ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا اور ہے  جو  چوتھائی حصے سے الگ ہیں اور اس بٹوارے سے ناراض ہیں ۔چاہے وہ دنیا میں کسی بھی نام سے منسوب ہوں۔لیکن یہاں پر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دین و عمل کون سا قابل قبول ہو گا آخر وہ کون سا طریقہ ہو جس سے ایک متلاشی حق کو یہ پتہ چلے کہ فلاں آدمی کا قرآن و سنت سے استدلال صحیح ہے اور فلاں آدمی کا غلط؟ اسلام جو کہ ایک کامل، عالمگیر و ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے اس نے کوئی طریقہ تو بتلایا ہی ہو گا جو قرآن کریم کی ایک ہی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی حدیث سے دو بالکل متضاد عقائد و اعمال ثابت کرنے والے دو اشخاص میں سے کسی ایک کے حق اور دوسرے کے باطل ہونے کا یقینی پتا دے سکے۔ جی ہاں ! بالکل اسلام نے ایسا طریقہ ضرور بتایا ہے، لیکن افسوس کہ آج مسلمان اس سے مسلسل دور ہو رہے ہیں اور یقیناً روز بروز بڑھتے ” اسلامی فرقوں“ کے پیچھے یہی دوری کار فرما ہے۔ اگر حق کو پرکھنے کے لیے اس کسوٹی کو استعمال کیا جاتا تو بالیقین ایسی صورت حال سے مسلمانوں کو پالا نہ پڑتا۔ یہ طریقہ خود قرآن و حدیث نے بیان کیا ہے۔ وہ طریقہ سلف صالحین کا فہم ہے۔ اگر ہم تمام اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کا وہی مفہوم لینا شروع کر دیں جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین لیتے تھے۔ ان کے بارے میں خیر و بھلائی کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ یقیناً یہ لوگ اہل حق تھے صراط مستقیم پر تھے، لہٰذا اگر ہم قرآن و سنت کو ان کی طرح سمجھنے لگیں گے تو باہمی اختلافات خود بخود ختم ہو جائیں گے اور صحیح اسلام ہمیں مل جائے گا، یوں ہم بھی صراط مستقیم پر چلنے لگیں گے۔فہم سلف کی حجیت میں محدثین کرام اور ائمہ دین میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ وہ سب فہم سلف کو حجت سمجھتے تھے۔لیکن موجودہ دور میں کچھ لوگ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہم فقط اصلاح کی خاطر ان لوگوں کے اشکالات کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔جس کی مکمل تفصیلات آپ میرے سلسلہ*مختصر تعارف فقہ اسلامی* میں پڑھ سکتے ہیں- اللہ تعالیٰ حق سمجھنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے ! تمام متلاشیان حق سے اپیل ہے کہ اللہ کے لیے وہ ہر قسم کے نظریاتی تعصب سے بالاتر ہو کر اس سلسلہ  کو پڑھیں، ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔
WhatsApp:0096176390670
http://www.dawatetohid.blogspot.com/

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...