Sunday 23 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ


*تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ*
(قسط نمبر 5)
تصوف سے متعلق نقطہ ہائے نظر
تصوف سے متعلق بنیادی طور پر دو نقطہ ہائے نظر کا ہم مطالعہ کریں گے۔ ایک اہل تصوف اور دوسرے ان کے ناقدین۔ اہل تصوف کو بھی ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک وہ صوفی حضرات جو شریعت کو مانتے ہیں اور اس کے بغیر کسی تصوف کے قائل نہیں ہیں۔ دوسرا گروہ ان صوفیاء کا ہے جو شریعت کو نہیں مانتے اور شرعی احکام کو بسا اوقات نظر حقارت سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ ان دونوں گروہوں کا تصوف ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے، اس وجہ سے ہم ان دونوں گروہوں کے نظریات اور اعمال کا تقابلی مطالعہ بھی کریں گے اور اس کا ان حضرات کے نقطہ نظر سے موازنہ کریں گے جو تصوف پر تنقید کرتے ہیں۔ اس طرح سے ہمارا مطالعہ اس سلسلہ میں تین گروہوں کے عقائد و افکار پر محیط ہو گا:
مخالف شریعت صوفی
پابند شریعت صوفی
ناقدین تصوف
اب ہم ان گروہوں کا کچھ تفصیل سے تعارف کرواتےہیں۔
مخالف شریعت صوفی
اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو تصوف کا دعوی تو کرتے ہیں اور خود کو اللہ تعالی کا نمائندہ قرار دیتے ہیں مگر شریعت کی پابندی نہیں کرتے ہیں۔ ان میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک وہ غیر مخلص ہوتے ہیں اور تصوف کو محض دنیا داری کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ چونکہ صوفی اور پیر فقیر عام لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں  اور لوگ ان کے پاس دعا کروانے اور مرید ہونے کے لیے آتے ہیں، اس وجہ سے یہ حضرات تصوف کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور مریدوں کی آمدنی پر عیش کرتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی صوفیت میں مخلص تو ہوتے ہیں مگر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اصل دین باطنی اعمال ، چلے اور مراقبے ہیں جن سے "سیر فی اللہ" میں مدد ملتی ہے اور شرعی احکام محض عام لوگوں کے لیے ہیں۔ یہ حضرات شریعت کے احکام کو "ظاہر" کا نام دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ظاہری احکام عام لوگوں کے لیے ہیں اور جو شخص تصوف کی منازل طے کرلے، اسے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے اس نقطہ نظر کے حق میں یہ اکابر صوفیاء کی کچھ عبارتوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جن میں سے بعض عبارات صراحتاً قرآن و سنت کے خلاف ہوتی ہیں۔
چونکہ نیت کا حال اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہےاور ہم کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، اس وجہ سے اس تحریر میں ہم مخلص اور غیر مخلص کی بحث میں پڑے بغیر سبھی گروہوں کے نقطہ ہائے نظر اور دلائل کا مطالعہ و موازنہ کریں گے ۔
پابند شریعت صوفی
یہ وہ صوفیاء ہوتے ہیں جو شریعت کی پابندی کرتے ہیں۔ ان میں بھی مخلص اور غیر مخلص دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ غیر مخلص لوگوں کا مقصد تو محض دنیا کمانا ہوتا ہے۔ جہاں وہ اس کے لیے اور طرح کے ڈھونگ رچاتے ہیں، وہاں کچھ ظاہری شرعی احکام کی پیروی بھی کر لیتے ہیں۔ مخلص افراد شریعت کی  نہ صرف پیروی کرتے ہیں  بلکہ اسی کو مدار تصوف قرار دیتے ہیں۔ یہ حضرات مخالف شریعت صوفیاء پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور انہیں گمراہ قرار دیتے ہیں۔  ایک جانب یہ قرآن و سنت اور اکابر صوفیاء کی کتب کی بنیاد پر مخالف شریعت صوفیوں پر تنقید کرتے ہیں اور دوسری جانب یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر ناقدین تصوف کے دلائل کا جواب دیتے ہیں۔
امت کی تاریخ کے بہت سے دینی علماء  کا شمار اسی گروہ میں ہوتا ہے۔ مشہور صوفی علماء میں امام غزالی (450-505/1058-1111)، شیخ احمد سرہندی (971-1034/1564-1624) اور شاہ ولی اللہ (1703-1762) وغیرہ شمار ہوتا ہے۔  برصغیر جنوبی ایشیا میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر دونوں اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیوبندی حضرات، بریلویوں سے کچھ امور پر اختلاف رائے رکھتے ہیں اور ان کے بعض معمولات کو بدعت قرار دے  کر ان سے اجتناب کرتے ہیں۔ بریلوی حضرات ان امور کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہیں۔
بریلوی حضرات کے ہاں تصوف کے حوالے سے دو بڑے گروہ پائے جاتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی (1856-1921) کے سلسلہ بیعت سے تعلق رکھنے والے حضرات خود کو "رضوی" کہلاتے ہیں اور دوسرے مکاتب فکر سے متعلق  معاملات میں بہت کٹڑ ہوتے ہیں۔  ان میں بعض حضرات سماع اور قوالی کو حرام سمجھتے ہیں اور اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں جبکہ بعض سماع و قوالی جائز بهی سمجھتے ہیں۔  دوسرا گروہ چشتی سلسلہ سے تعلق رکھنے والے ان صوفی خانوادوں سے وابستہ ہے جن کا مرکز شمالی پنجاب کا علاقہ ہے۔ ان میں گولڑہ، سیال اور بھیرہ کے آستانوں سے وابستہ حضرات پائے جاتے ہیں۔  ان کی مشہور علمی شخصیات میں پیر مہر علی شاہ صاحب(1859-1937)، خواجہ قمر الدین سیالوی (1906-1981) اور پیر محمد کرم شاہ الازہری  (1917-1998)شامل ہیں۔ اس دوسرے گروہ کی بعض شخصیات  نے دوسرے مکاتب فکر کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیے رکھا ہے۔ سماع اور قوالی کو بھی یہ جائز سمجھتے ہیں تاہم شریعت کی پابندی کے معاملے میں ان کا موقف بھی دو ٹوک ہے۔
دوسری جانب دیوبندی مکتب فکر  کی اکثریت بھی برصغیر کی صوفی روایت سے وابستہ ہے۔  دارالعلوم دیوبند کے بانی  مولانا محمد قاسم نانوتوی (1832-1880) صوفی بزرگ تھے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (1817-1899)  کے صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ حاجی صاحب کا احترام بریلوی اور دیوبندی دونوں حلقوں میں کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور کے دیوبندی صوفیوں کی بہت بڑی تعداد مولانا اشرف علی تھانوی (1863-1943) کے حلقہ ارادت سے  وابستہ ہے۔ ان کے صوفی علماء میں مولانا احمد علی لاہوری (1887-1961) ، مفتی محمد حسن(d. 1961)  اور مولانا محمد تقی عثمانی (b. 1943)وغیرہ مشہور شخصیات ہیں۔ دیوبندی حلقوں کے ہاں مولانا تھانوی کو تصوف کا مجدد کہا جاتا ہے۔
ناقدین تصوف
جو لوگ تصوف پر تنقید کرتے ہیں، ان میں  بھی مخلص اور غیر مخلص دونوں طرز کے افراد پائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ان میں مخلص افراد وہ ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف کے کچھ اصول ، نظریات اور اعمال، دین اور شریعت سے متصادم ہیں۔ یہ حضرات ان امور پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی تنقید صرف مخالف شریعت صوفیاء کے اقوال و افعال تک ہی محدود رہتی ہے اور بعض اوقات اس کی زد میں پابند شریعت صوفیاء کے تصورات بھی آ جاتے ہیں۔
ناقدین تصوف زیادہ تر اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماورائے مسلک حضرات کی اکثریت بھی تصوف کی ناقد ہے۔ جن حضرات نے خاص طور پر تصوف کو موضوع بنا کر ان پر تنقید کی ہے، ان میں مولانا عبدالرحمن کیلانی(d. 1995)، علامہ احسان الہی ظہیر(1945-1987)، پیر محمد بدیع الدین راشدی، مولانا ابو الکلام آزاد (1888-1958)ِ، سید ابو الاعلی مودودی(1903-1979) اور مولانا امین احسن اصلاحی (1904-1997)وغیرہ شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خود صوفی حلقوں میں  بعض ناقدین تصوف پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں مولانا ابو الکلام آزاد اور پیر بدیع الدین راشدی صاحبان کو بطور مثال  پیش کیا جا سکتا ہے جو کہ صوفی خانوادوں کے چشم و چراغ تھے۔
امور تصوف
تصوف چونکہ ایک عملی نوعیت کی چیز ہے، اس وجہ سے اس پر کتابیں کم لکھی گئی ہیں اور زیادہ تر
امور کو عملی صورت میں صوفی حلقوں اور خانقاہوں میں جاری کیا گیا ہے۔ اگلی اقساط  میں ہم ان امور کا ذکر کریں گے جو کہ اہل تصوف  کے علم اور عمل کا موضوع ہیں۔ یہ امور بنیادی طور پر متعدد انواع پر مشتمل ہیں جو کہ یہ ہیں:
تصوف کا مقصد
ذرائع: مقصد کے حصول کے لیے جو طریقے اختیار  کیے جاتے ہیں، وہ ذرائع کہلاتے ہیں۔
توابع: اس سے مراد وہ عارضی یا مستقل کیفیات ہیں جو غیر اختیاری طور پر ایک سالک کو لاحق ہو جاتی ہیں۔
موانع: یہ وہ امور ہیں، جو مقصد کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
تصوف کے مقصد پر ہم اوپر بحث کر چکے ہیں۔ بقیہ معاملات کو ہم علیحدہ علیحدہ کر کے ان کی تفصیل بیان کریں گے۔ اس معاملے میں ہماری بنیادی معلومات  کا ماخذ سید شبیر احمد کاکا خیل کی کتاب "فہم التصوف" اور امام قشیری کی "الرسالۃ القشیریہ" وغیرہ ہے
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...