Thursday 27 October 2016

سلفیت ایک امن پسند اور دہشت گردی مخالف جماعت ہے۔

سلفیت ایک امن پسند اور دہشت گردی مخالف جماعت ہے۔
دو سے زائد سالوں پر محیط ایک برطانوی ریسرچ کا انکشاف​"
(ترجمہ: ڈاکٹر عبد الرحیم خان)

سلفیت اندرونی طور پر دہشت گردی معاون جماعت ہے جبکہ ظاہری طور پر اسکی مخالف اور ملکی قوانین کی پاسداری کا ڈھنڈھورا پیٹتی رھتی ھے" عوام الناس میں پھیلی اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے ایک برطانوی مصنفہ نے اپنے ڈھائی سال سے بھی زائد عرصے پر مشتمل کڑی ریسرچ کے بعد اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ سلفیت ایک انتہائی امن پسند اور دہشت گردی مخالف جماعت کا نام ہے جس کا بنیادی ہدف امن و امان کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور تشخص کی ترویج و اشاعت ہے۔"سلفیت جسکو اکثر 'وہابیت' کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے' عموما ایک ایسی انتہا پسند اسلامی جماعت تصور کی جاتی ہے جو جہاد کو بڑھاوا دیتی ہے اور عورتوں کو انکی آزادی و حقوق سے دور رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض غلط فہمی کے شکار حضرات سلفیت اور ISIS جیسی اسلام دشمن تنظیم کو ایک دوسرے سے جوڑنے سے بھی باز نہیں آتے ہیں جسکی وجہ سے پوری دنیا بالخصوص مغرب میں ہزاروں سلفی مسلمان مشکوک نظروں سے دیکھے جارہے ہیں۔ برطانوی ریسرچ اسکالر انابل انج نے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں درج بالا غلط فہمی کو خارج کرتے ہوئے حقیقت سے مغربی دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ لندن میں موجود سلفی جماعت کی عورتوں کی ایک بڑی تعداد پر گہری تحقیق کے بعد انکو اس حقیقت کا پتہ چلا ہے۔ "The Making of Salafi Muslim Women: Paths to Conversion" نامی کتاب کی مصنفہ انابل انج کا دعوی ہے کہ "گرچہ سلفیت کا تعلق جہادی تنظیموں سے جوڑا جاتا ہے مگر یورپ میں موجود انکی اکثریت مکمل طور پر دہشت گردی مخالف ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سلفیت تو دہشت گردی کو کسی بھی شکل میں بڑھاوا دینے والی تمام سرگرمیوں اور کوششوں کی مذمت اور مخالفت کرنے والی ایک امن پسند جماعت ہے۔ سلفیت کا ماننا ہے کہ اسلامی شریعت سب سے بہتر نظام حیات ہے اسکے باوجود سلفی جماعت غیر مسلم ممالک میں جبرا اسکے نفاذ کی قطعی حمایت نہیں کرتی ہے۔۔۔۔۔ واضح رہے کہ طویل ریسرچ پر مبنی انابل انج کی مذکورہ کتاب اگلے ماہ نومبر میں منصی شھود پر آرہی ھے۔ ان شاءاللہمصنفہ اپنی کتاب میں مزید لکھتی ہیں کہ 'دہشت گردی کے بجائے سلفیت کا بنیادی کام صحیح اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت ہے، جسمیں مسلم و غیر مسلم ان تمام لوگوں کو صحیح راستے کی راہنمائی کرانا مقصود ہے جو اصل انسانیت کے راستے سے کسی بھی طور بھٹکے ہوئے ہیں۔ کہتی ہیں۔۔۔۔ "ڈھائی سال تک سلفی جماعتوں کے درمیان زمینی سطح پر کام اور ریسرچ کرنے کے بعد بھی مجھے ظاہری یا باطنی طور پر ایک ثبوت بھی ایسا نہ مل سکا جو بتائے کہ یہ جماعت دہشت گردی معاون یا برطانیہ میں شریعت کے نفاذ کے لئے کوشاں ہے۔ اسکے برعکس پورے ریسرچ میں میں نے یہی پایا کہ یہ تنظیم امن پسند اور ملکی قوانین کی پاسدار ہے۔ انابل کہتی ہیں کہ ممکن ہے کہ مجھ جیسے ریسرچرکے سامنے یہ لوگ اپنے موقف کو توڑ مروڑ کر اور کذب بیانی سے پیش کریں، لیکن میرا ماننا ہے کہ ڈھائی سال تک اس طرح کی کذب بیانی اور تصنع ممکن نہیں۔ بالخصوص جب میں نے انکے درمیان ہی رہ کر بڑی باریکی سے کام کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ میرے لئے طویل مدتی ریسرچ زیادہ معنی رکھتا ہے۔وہ لکھتی ہیں۔۔۔۔ جب میں سلفی عورتوں کے درمیان ایک معروف چہرہ ہو گئی تو نہ میں اب مشکوک رہی اور نہ عورتیں اب میری موجودگی پہ کوئی ردعمل کرتی تھیں۔ بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ بعض عورتیں مجھ سے اس قدر مانوس ہو گئیں کہ انہوں نے "المہاجرون" جیسی جہادی تنظیموں سے اپنی سابقہ ہمدردیوں اور بعض نے وابستگی کا معاملہ تک مجھ سے شیئر کیا۔ اور پھر وجہ بھ بتلائی کہ ان عورتوں نے ایسی اسلام دشمن تنظیموں سے دوری لیکر کس طرح سلفیت کا رخ کیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ دراصل ان کو سلفی لوگوں نے ہی سمجھایا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی سروکار نہیں بلکہ یہ ممنوع و مبغوض عمل ہے۔بالخصوص نوے کی دھائی کے بعد سے برطانیہ میں سلفیوںکو امن پسند اور سب سے خاموش ترین اسلامی جماعت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سلفیوں نے نہ صرف زبانی بلکہ عوامی سطح پر جاکر القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسی تنظیموں کی بارھا مذمت کی ہے جسکا بسا اوقات اس جماعت کو نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ ریسرچ کے دوران انابل انج کو پتہ چلاکہ ایک سلفی داعی نے ایک بار ایک 'اسلامک اسٹیٹ مخالف پمفلٹ' لکھا اور اپنے آن لائن حامیوں سے اسے زیادہ سے زیادہ عوام میں نشر کرنے کی اپیل کی، ساتھ ہی یہ بھی درخواست کی کسی بھی قسم کی دہشت گردی سے متعلق حرکات کی جانکاری ملنے پر حکومت کو باخبر کیا جائے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس دہشت گردی مخالف مہم چلانے والے داعی کو اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے دھمکیاں آنی شروع ہو گئیں۔ اپنی کتاب میں انابل نے اس فکر کی بھی تردید کی ہے کہ سلفی مسلمان پچھڑے ھوئے سماج سے الگ اور غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں جو اپنی ناقص العلمی کے سبب زندگی کے صحیح فیصلے نہیں کرپاتے ہیں۔ بلکہ ایک ریسرچ اسکالر کے طور پر میرا یہ تآثر رہا ہے کہ برطانیہ میں سلفی عورتیں عام ملکی عورتوں ہی کی طرح اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ میرے انٹرویوز میں شامل تمام عورتیں یا تو یونیورسٹی تعلیم پوری کرچکی تھیں یا ابھی شروع کی تھیں۔ مجھے پورے ریسرچ کے دوران صرف ایک عورت ایسی مل سکی جسکا اپنی اعلی تعلیم جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مجھے زیادہ تر سلفی عورتیں ایسی ملیں جو تعلیم کے بعد اسی میدان میں اپنا کیئریئر شروع کرنا چاہ رہی تھیں۔ انابل انج نے اضافہ کیا۔گزشتہ پانچ دہائیوں تک 'جدید مذہبی تحریکات' پر تحقیقات کے بعد بھی آج تک سلفیوں کے تعلق سے برین واشنگ جیسی کوئی چیز سامنے نہ آسکی ہے۔ ہاں یہ ضرور سامنے آیا ہے کہ سلفیت کی طرف مائل ہونے والوں میں اکثریت تعلیم یافتہ اور ذہین لوگوں کی ہے ناکہ برین واشنگ یا پھر کسی سماجی و مادی دباو¿ می آنےوالے افراد کی۔ انابل کہتی ہیں کہ میرے ریسرچ میں شامل ہر عورت کی اپنی کہانی ایک دوسرے سے الگ تھی لیکن ہر کسی کے یہاں سلفیت ایک جدید تقاضوں سے متساوی اور متوسط فکر کا ایسا اسلامی طبقہ تھا جسکا ہر قول و عمل حقائق پر مبنی اور صحیح مستند حوالوں کے بموجب ہوتاہے۔ انابل کا ماننا ہے کہ برطانیہ میں عورتوں کا سلفیت کی طرف مائل ہونے کی سب سے اہم وجہ اس بات کا اطمینان ہے کہ اسکا ہر قدم مستند اور اسلام کی صحیح تعلیمات کے ماطابق ہے۔
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...