Thursday 27 October 2016

منهج سلف صالحين اور اس سے انحراف

*منهج سلف صالحين اور اس سے انحراف*

(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ)

عصر حاضر میں جس میں اصلاح کے نام سے موسوم کئی جماعتیں مختلف بہروپ دھار کر معرض وجود میں آ رہی ہیں جبکہ اسلام نے ہر قسم کی تفرقہ بازی، اختلافات اور گروہ بندیوں سے منع فرمایا اور اجتماعیت اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے کی دعوت دی ہے۔ جیسا کہ قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَكُونُوا۟ كَٱلَّذِينَ تَفَرَّقُوا۟ وَٱخْتَلَفُوا۟ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ ۚ وَأُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٠٥﴾ آل عمرانترجمہ: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہوگئے اور واضح احکام آنے کے بعد ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو (قیامت کے دن) بڑا عذاب ہوگا۔اوریہ کہ: وَإِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱتَّقُونِ ﴿٥٢﴾ فَتَقَطَّعُوٓا۟ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿٥٣﴾ المؤمنونترجمہ: اور یہ تمہاری جماعت (حقیقت میں) ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو مجھ سے ڈرو تو پھر آپس میں اپنے کام کو متفرق کرکے جدا جدا کردیا۔ جو چیزیں جس فرقے کے پاس ہے وہ اس سے خوش ہو رہا ہے۔منہج سلف کی مخالفت میں سرگرم عمل گروہ بندی اور انکی مذمت کو دلائل سے ثابت کرکے ان پر حجت قائم کی جائے ناکہ صرف استھزاء اورمذاق، جیسا کہ اہل تحریش کا وطیرہ ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف برانگیختہ کرتے ہیں۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان گرامی ہے: " یقیناً تم سے پہلے لوگ کثرت سوال اور انبیاء سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوئے۔ "اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے اور مہاجرین و انصار صحابہ اور انکے پیروکاروں کے منہج سلیم پر گامزن ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔
مسلمانوں کی موجودہ حالت زار کسی باشعور انسان سے مخفی نہیں جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں مسلمانوں کی حالت ابتر ہے ہر قسم کا فسق وفجور اور بے راہ روی اپنے عروج پر ہے لیکن اس پر مستزاد یہ کہ ہر روز نت نئی جماعتوں کا ظہور ہورہاہے ۔ کسی اسلامی خوبصورت ناموں سے مزین ہوکر معرض وجود میں آرہی ہیں۔ باوجود اس کے دین میں تفرقہ بازی، گروہ بندی کی قطعاً اجازت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : ​مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (٣٢)وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ (٣٣)(سورۃ الروم)‘‘ان مشرکوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہوگئے ہر گروہ اس چیز پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے ۔’’یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی بھی نافرمانی کررہے ہیں ۔ ​وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (١٥٣) (سورۃ الانعام)‘‘ اور یہ کہ دین میرا سیدھا راستہ ہے جو مستقیم ہے ، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔’’ایک صحیح حدیث میں اس کا مکل نقشہ کھینچا گیا ہے ۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا ، ثُمَّ قَالَ: «هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ» ، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ: " هَذِهِ سُبُلٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ "، ثُمَّ قَرَأَ: ( وَإِنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ، فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ) (مسند أحمد : 4142) سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے زیمن پر ایک سیدھی خط کھینچی اور اس پر دست مبارک رکھ کر فرمایا ‘‘یہ اللہ کی راہ ہے ’’ پھر آپ ﷺ نے اس سیدھی خط کے اردگرد مزید خطوط کھینچے اور فرمایا ‘‘یہ وہ مختلف راہیں ہیں جن میں سے ہر ایک کے سر پر ایک شیطان بیٹھا لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے ’’ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ اس سے معلوم ہوا کہ صراط مستقیم صرف ایک ہی راہ ہے ، جس پر سلف صالحین کاربند تھے لیکن یہ نومولود جماعتیں منہج سلف سے روگردانی کرتے ہوئے فتنہ وفساد برپا کرتی رہتی ہیں۔ جس کا مشاہدہ ہر صاحب بصیرت کررہا ہے لیکن ہر دور میں اللہ تعالیٰ ایسے جلیل القدر علماء پیدا فرمائے جو ان فتنہ پرور جماعتوں کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے ۔ پردے میں ڈھکے چھپے ان کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ،
ہر صاحب علم پر واجب ہے کہ وہ علم کو چھپائے نہیں بلکہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهُۥ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُۥ فَنَبَذُوهُ وَرَآءَ ظُهُورِهِمْ وَٱشْتَرَوْا۟ بِهِۦ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴿١٨٧﴾ آل عمرانترجمہ: اور جب خدا نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار کرلیا کہ (جو کچھ اس میں لکھا ہے)اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا۔ اور اس (کی کسی بات)کو نہ چھپانا تو انہں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔ یہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں برا ہے۔مخالفین حق کا رد کرنا دین کےاہم واجبات میں سے ہے اور اس کو ترک کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ اور حق بات کو بیان نہ کرنے والا گونگا شیطان ہے۔ اسی وجہ سے میں نے سلفیوں کے دشمنوں پر رد لکھا ہے جن کاطریقہ سلف صالحین کے منہج کے خلاف ہے اور وہ اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اورلوگوں کو سلفیوں سے ڈراتے ہیں چنانچہ یہ ہر مسلمان پر واجب ہےکہ وہ حکمت و دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی سنّت کا عَلم بلند کرےاور منحرفین و مخالفین کے کذب و افتراء اور ان کے نقص و عیب کا پردہ چاک کردے۔ کیونکہ یہ رسولوں کے مخالف ہیں اور یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی قبیل سے بھی ہے جس کی وجہ سے اس امت کو فضیلت دی گئی ہے۔ان انحرافات کی بنیاد افراط و تفریط پر مبنی ہے اور اس زمانہ میں تو منہج سلیم سے انحراف جس کے مظاہر فتنہ و فساد، غلو اور اعراض وغیرہ ہیں۔ پس یہ ضروری ہے کہ درست کامل شرعۃ کے ساتھ ان میں سے صحیح شرعی مؤقف بیان کیا جائے۔ کیونکہ یہ ہی شریعت محمدیہ کا شعار ہے تاکہ دین اسلام پاک اور صاف نبوی منہج کے مطابق رہے اور ہر مسئلے کی بنیاد دلیل ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:ۗ قُلْ هَاتُوا۟ بُرْهَٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴿١١١﴾ البقرۃترجمہ: (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:أَمِ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ ءَالِهَةً ۖ قُلْ هَاتُوا۟بُرْهَٰنَكُمْ ۖ هَٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِىَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِى ۗبَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ٱلْحَقَّ ۖ فَهُم مُّعْرِضُونَ ﴿٢٤﴾ الانبیاءترجمہ: کیا لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود بنالئے ہیں۔ کہہ دو کہ (س بات پر)اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ (میری اور)میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے اور جو مجھ سے پہلے (پیغمبر)ہوئے ہیں۔ ان کی کتابیں بھی ہیں۔ بلکہ (بات یہ ہے کہ) ان میں سے اکثر حق بات کو نہیں جانتے اور اس لئے اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔اور آپﷺنے تو ان لوگوں کو جنہوں نے رسول اللہﷺ کی عبادت کو کم سمجھا ، ارشاد فرمایا کہ : " اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا اور ڈرنے والا ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور نیند بھی کرتا ہوں اور میں نے شادیاں بھی کی ہیں۔ چنانچہ جو شخص میری سنّت سے منہ پھیرے گا وہ ہم میں سے نہیں ۔" ( صحیح بخاری)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار اس دین حنیف سے غالی قسم کے لوگوں کی تحریف، کذابین کی نسبت کو اور جاہلوں کی تاویل کی نفی کرتے ہیں۔ اسی لئے تو علماء کرام نے ناقلین حدیث کے اوہام کو بھی بیان فرمایا ہے۔ امام احمد ؒ نے فرمایا " جب آپ بھی خاموش ہوجائیں اور میں بھی خاموش ہوجاؤں تو جاہل صحیح کو ضعیف سے کیسے پہچانے گا۔"اور یہ بہت ضروری ہے کہ اہل بدعت اور منہج سلف کے مخالف گروہوں کی غلطیوں اور گمراہیوں کو واضح کیا جائے۔ جیسا کہ ہمارے دور میں اخوان المسلمین اور تبلیغیوں کا دور دورہ ہے۔ چنانچہ یہ اہم ترین واجبات میں سے ہے کیونکہ دلوں کا بگڑ جانا بہت ہی سخت اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے اپنی اس مختصر سی کتاب میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے کہ حق کا دامن ہم سے نہ چھوٹ جائے، ان اہل باطل کا رد کیا ہے جبکہ ہم نے اہل حق علماء کے منہج کو بیان کیا ہے اور اصول دین کے مخالفین کی کج رویوں کی بھی خوب وضاحت کر دی ہے۔ 
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:" ائمہ دین تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے منہج پر ہیں اور صحابہ تو سارے ہی متفق و متحد تھے اگرچہ انہوں نے بعض فروعی مسائل جو کہ طہارت، نماز، حج، طلاق اور فرائض وغیرہ سے متعلق ہیں ،میں اختلاف ہوا ہے لیکن ان کا اجماع قطعی ہے۔ جو شخص کسی ایک کے لئے تعصب کرتا ہے وہ گویا ایسا ہے کہ کوئی صرف کسی ایک صحابی کو مانے اور اس کےلئے تعصب کرے۔ جیسے رافضی ہیں جو تین خلفاء راشدین کے علاوہ صرف علی رضی اللہ عنہ کو مانتے ہیں اور اسی طرح خارجی ہیں جو سیّد عثمان رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پر طعن کرتے ہیں۔ یہ سارے طریقے اہل بدعات کے ہیں جو کہ قابل مذمت ہیں۔ جن کے بارے میں کتاب سنت اور اجماع سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ شریعت سے خارج ہیں اور اس منہج سے انحراف کر چکے ہیں جس کے ساتھ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا ۔چنانچہ جو صرف ایک امام کو مانتا ہے اور اس کے لئے تعصب کرتا ہے وہ ان مذکورہ لوگوں کے مشابہہ ہے۔ خواہ وہ مالک، شافعی، ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل میں سے کسی ایک کی تقلید کرے اور ان کیلئے تعصب کرے۔اورحقیقت یہ ہے کہ جو ان ائمہ میں کسی ایک کی تقلید کو واجب قرار دینے والا بنسبت دوسروں کے علم و دین میں جاہل ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ جاہل اور ظالم ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے علم اور عدل و انصاف کا حکم دیا ہے اور جہالت و ظلم سے منع فرمایا ہے۔إِنَّا عَرَضْنَا ٱلْأَمَانَةَ عَلَى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱلْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا ٱلْإِنسَٰنُ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴿٧٢﴾ الاحزابترجمہ: ہم نے(بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ابو یوسف اور محمد بن حسن کو دیکھئے ، یہ باقی لوگوں کی بنسبت امام ابو حنیفہ کے زیادہ اتباع کرنے والے اور ان کی بات کو خوب سمجھنے والے تھے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے کئی مسائل میں ان سے اختلاف کیا ہے جن کا شمار کرنا مشکل ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ جب ان کے پاس کتاب و سنت سے کوئی چیز ظاہر ہوتی تو وہ صرف نصوص کی اتباع کرتے اس کے باوجود وہ امام صاحب کی تعظیم کرنے والے شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کو تذبذب کا شکار نہیں کہا گیا بلکہ امام ابو حنیفہ اور دوسرے کبھی کوئی بات کہتے پھر ان کے مخالف کوئی دلیل آجاتی تو وہ اس دلیل کو اپنا لیتے تھے ان کو بھی تذبذب کا شکار نہیں کہا گیا۔انسان ہمیشہ ہی علم و ایمان کو حاصل کرتا رہتا ہے۔ جب کوئی مخفی بات اس پر ظاہر ہوجاتی تو وہ اس کی اتباع کرتا ہے تو اس کو متردد نہیں بلکہ ہدایت یافتہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَقُل رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا ﴿١١٤﴾ طہترجمہ: اور دعا کرو کہ میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے۔ہر ایک مومن مسلمان پر واجب ہے کہ مومنین اور نیک علماء کی صحبت اختیار کرے اور حق کی جستجو میں رہے اور جہاں سےبھی حق ملے اسکی اتباع کرے اور اس حقیقت کو جان لے کہ جو اجتہاد کرتا ہے اگر وہ درستگی کو پہنچا تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا مگر غلطی لگ گئی تو اس کو اجتہاد کرنے کی وجہ سے ایک اجر ملے گا اور اس کی غلطی معاف کر دی جائیگی۔ اور یہ کسی کے لئے بھی جائز نہیں کہ کسی ایک عالم کے قول کو ہی اپنا شعار بنائے ، اسکی اتباع کو واجب قرار دے اور باقی سب سے روکے۔" ( مجموعہ فتاوی 22/252)شیخ الاسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:" ہر وہ آدمی سزا کا مستحق ہے جو اہل بدعت کی طرف نسبت کرتا ہے ۔ جس نے ان کا دفاع کیا یا انکی تعریف کی یا ان کی کتب کی تعظیم کی یا جس نے ان کی مدد و معاونت کی یا انکے خلاف بات کو ناپسندیدہ جانا یا ان کی باتوں کے لئے عذر تلاش کرنے لگا کہ یہ بات میں نہیں جانتا کیسی ہے ۔ اس قسم کے عذر تو جاہل یا منافق کے علاوہ اور کوئی نہیں کرتا۔ اس طرح وہ بھی مستحق سزا ہے جس نے ان مبتدعین کے حالات کو جانتے ہوئے ان کے خلاف تعاون نہیں کیا۔ کیونکہ ان کے خلاف کھڑا ہونا عظیم واجبات میں سے ہے۔ کیونکہ ان صوفیوں، علماء، بادشاہوں اور امراء نے ہی لوگوں کی عقل اور دین کو بگاڑا ہے۔ یہ زمین میں فساد مچانے والے ہیں اور اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان لوگوں نے دینی اعتبار سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا بنسبت ان لوگوں کے جنہوں نے مسلمانوں کو دنیاوی نقصان دیا جیسے ڈاکو، راہزن اور تاتاری جنہوں نے مسلمانوں کا مال تو چھین لیا مگر ان کے دین کو باقی رکھا۔" (مجموعہ فتاوی 2/132)ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:" یہ دین حنیف اب کبھی بھی منسوخ نہیں ہوگا لیکن اس میں کچھ لوگ تحریف ، تبدیل اور کذب داخل کردیتے ہیں یا حق چھپاتے ہیں جس کے ذریعے حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ رسولوں کے بعد ایسے لوگوں کو پیدا فرماتے ہیں جن کے ذریعے حجت قائم کرتا ہے چنانچہ یہ لوگ غلو کرنے والوں کی تحریف اور جھوٹوں کے غلط انتساب اور جاہلوں کی تاویل کی نفی کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ حق کو ثابت اور باطل مٹا دیتے ہیں اگرچہ مشرک ناپسند کرتے ہوں۔آسمانوں سے نازل شدہ کتب نبی آخر الزماںﷺ سے وارد آثار کے ذریعے اللہ تعالیٰ حق و باطل میں تمیز فرماتے ہیں اور ان لوگوں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا جس چیز میں وہ اختلاف کرتے تھے۔"(مجموعہ فتاوی 11/435)اور یہ بھی فرمایا کہ:" اہل علم کا اہل بدعات اورمنحرف مناہج پر سکوت اختیار کرنا درحقیقت فریضہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو معطل کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اسی فریضہ کی بدولت امت محمدیہ کو فضیلت حاصل ہوئی ۔ اور مصیبتوں اور بلاؤں کے نزول کا سبب بھی اس کا سقوط ہی ہے جیسا کہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا کہ اللہ کی نازل کردہ کتب توریت، انجیل اور زبور میں ان پر لعنت کی گئی اور ان کو رحمت الٰہی سے دھتکارا گیا۔"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:لُعِنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنۢ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُۥدَ وَعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا۟ وَّكَانُوا۟ يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾ كَانُوا۟ لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟يَفْعَلُونَ ﴿٧٩﴾ المائدۃترجمہ: جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے (اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے بلاشبہ وہ برا کرتے تھے۔امام ذھبیؒ فرماتے ہیں:" حق بات کو کھلم کھلا بیان کرنا بہت عظیم بات ہے۔ اس میں قوت اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ کمزور مخلص آدمی اس کو ادا کرنے سے عاجز ہوتا ہے اور طاقتور بغیر اخلاص کے سر انجام دے نہیں سکتا اور جس نے ان دونوں کے ساتھ اسے ادا کیا وہ صادق ہے۔"( سیر اعلام النبلاء: 21/278)باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق دکھائے اور پھر اس کی اتباع کی توفیق عنایت فرمائے اور باطل بھی دکھائے اور پھر اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ ہی دعاؤں کو سننے والا اور قبول فرمانے والا ہے۔

www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...