Monday 24 October 2016

تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ


* تصوف اور ناقدین'تقابلی مطالعہ *
(قسط نمبر 14)
ناقدین تصوف کے دلائل
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ وحدت الوجود ایسا نظریہ ہے جو توحید سے بالکل متضاد ہے۔ قرآن مجید میں توحٰید کا بیان اتنا واضح ہے کہ اسے دین اسلام کے بنیادی عقیدے کی حیثیت حاصؒل ہے۔ اگر وحدت الوجود کو مان لیا جائے تو پھر اسلام کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے۔ قرآن مجید اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالی کی مخلوق ہے اور وہ اس کا خالق ہے۔
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (62) لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ هُمْ الْخَاسِرُونَ (63) قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونَنِي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (64)
اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر وکیل ہے۔ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں [کنٹرول] اسی کے پاس ہے۔ جو لوگ اللہ کی آیات سے کفر کرتے ہیں، وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ اے جاہلو! کیا تم مجھے تلقین کرتے ہو کہ میں غیر اللہ کی عبادت کروں؟ (الزمر)
ذَلِكُمْ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ فَأَنَّا تُؤْفَكُونَ.
یہ ہے اللہ، تمہارا رب، ہر چیز کا خالق۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو؟  (المومن 40:62)
ایسی ہی بے شمار آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ایک الگ وجود ہے اور اس کی مخلوق اس کی ذات پاک سے الگ وجود ہیں۔ ہر وہ شخص جو یہ دعوی کرتا ہے کہ خدا اس میں حلول کر گیا ہے، محض ایک بکواس او رخرافات سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور بات کے کفر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آُپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پوری سیرت اور تاریخ کا مطالعہ کرتے چلے جائیے تو کہیں ایسا نظر نہیں آتا کہ انہوں نے روحانی مشقیں وغیرہ کر کے اللہ تعالی کے انوار و تجلیات  کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی ہو اور اس کے ذریعے عالم ناسوت، لاہوت، جبروت ، ہاہوت اور  نجانے کون کون سے عالم ان پر منکشف ہوئے ہوں۔ نہ ان پر کبھی سکر کی کیفیت طاری ہوئی جس میں انہوں نے اناپ شناپ دعوے کیے ہوں اور نہ انہوں نے کبھی یہ دعوی کیا کہ ان کی زبان سے اللہ تعالی بول رہا ہے۔ اگر ان روحانی مشقوں میں کوئی خیر ہوتی اور اس کے ذریعے اللہ تعالی کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ ممکن ہوتا، تو ہمیں نظر آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مشقیں صحابہ کو سکھا رہے ہیں اور وہ ان کے مطابق یہ مشقیں کر رہے ہوتے۔ ایسی کسی بات کا ذکر کسی حدیث میں نہیں ملتا ہے۔
اس کے برعکس اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ یہ واضح طور پر بیان فرماتے تھے کہ اللہ تعالی نے یہ کلام میری جانب وحی کیا ہے جو میں اس کی جانب سے پیش کر رہا ہوں۔  آپ کے بعد آپ کے صحابہ میں سے کسی نے بھی ایسا دعوی نہیں کیا۔ کیا منصور حلاج  اور دیگر صوفیاء کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے بھی بلند تھا جو ان کی زبان کو آلہ خداوندی بنایا گیا؟ اللہ تعالی نے اپنے جلیل القدر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے تو عبدیت کا اقرار پہلے کروایا اور پھر رسالت کا: اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ۔
مزید صوفی حضرات "واحدۃ الوجود "کو ثابت کرنے کے لیے یہ آیت پیش کرتے ہیں: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرہ :١٨٦)
(میرے رسول !ﷺ)جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں (تو انہیں آگاہ کر دو)کہ میں قریب ہوں ،ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا (قبول کرتا)ہوں۔لہذاان کوچاہئےکہ وہ میری بات مانیں اور میرے ساتھ ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
صوفی حضرات اس آیت میں "قریب 'کے لفظ سے اپنا عقیدہ ثابت کرتے ہیں۔جب وہ ایسا کرتے ہیں تو  وہ دراصل واحدۃ الوجود ہی کی ایک قسم ''حلول''کوثابت کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔
حلول بھی صوفیوں کی اصطلاح ہے،جس کا مطلب ہے اللہ کا کسی بندے میں حلول کر جانا۔قریب کا تو مطلب یہی ہے کہ ایک وجود دوسرے کے قریب ہوا ۔پھر کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ مشرکین قریش نے جو مورتیاں بنائی ہوئی تھیں وہ ان کے بزرگوں کی تھیں ،اور وہ ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا کرتے تھے: هَؤُلاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ (یونس: ١٨)
یہ(بزرگ )اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
اب چونکہ عقیدے کا یہ چلن عام تھا کہ اللہ ان بزرگوں کے واسطے ہی سے ہماری فریادیں سنتا ہےلیکن جب اللہ کے رسول ﷺنے انہیں یہ بتلایا کہ واسطوں ،وسیلوں اور سفارشوں کی کوئی ضرورت نہیں تو لوگوں کو ذرا تعجب ہوا اور انہوں نے اللہ کے رسول ﷺسے پوچھا :کیا واقعی اللہ براہ راست ہماری فریادیں سن لیتا ہے؟تو اللہ نے یہ آیات نازل فرما کر لوگوں کا عقیدہ درست کیا ۔مگر اہل تصوف نے اس توحیدی آیت سے وجودی اور حلولی عقیدے کو ثابت کرنے کی جدوجہد کر کے شرک پھیلانے کی کوشش کی ہے۔یہ لفظ قرآن مجید میں بیسیوں مقام پر آیا ہے،مگر وہ معنی کہیں بھی نہیں نکلتا جو صوفیاء نکالنا چاہتے ہیں۔
اس سے ملتی جلتی ایک اور آیت اہل تصوف حضرات پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے بھی ''واحدۃ الوجود ''کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (سورۃ ق:١٦)
ترجمہ:بلاشبہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیال آتے ہیں ،ان تک کو جانتے ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
قرآنی آیات خود ایک دوسرے کی تفسیر بیان کرتی ہیں اور اگر قرآن ایسی کوئی تفسیر کردے تو پھر اللہ کی بیان کی ہوئی تفسیر پر کسی دوسری تشریح اور تفسیر کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے؟اب اللہ نے خود "سورۃ طہ"میں فرمادیا کہ میں عرش پر مستوی ہوں اور جب رحمان عرش پر جلوہ افروز ہے توظاہر ہے یہاں جو معنی لیا جائے گا وہ یہی کہ وہ رحمان اپنے علم کے اعتبار سے اپنے بندوں کے قریب ہے  اور "رگ"جو گوشت میں لپٹی ہوتی ہے ،اللہ اس گوشت سے بھی زیادہ اپنے بندے کے قریب ہے
یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا
ہے،وہ سب ہم جانتے ہیں،وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا ،لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے ۔اسی لئے حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا۔جب کہ وہ زبان سے اظہار یا ان پر عمل نہ کرے(البخاری کتاب الایمان)'ورید' شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔اس قرب سے مراد قرب علمی ہے یعنی علم کے لحاظ سے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔امام شوکانی نے اس کا مطلب بیان کیا ہے کہ ہم انسان کے تمام احوال جانتے ہیں،بغیر اس کے کہ ہم ان فرشتوں کے محتاج ہوں۔جن کو ہم نے انسان کے اعمال واقوال لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے۔
اور اس بات کو آیت کا سیاق سباق بھی واضح کر رہا ہے،اللہ تعالیٰ بتلا رہے ہیں کہ انسان کو ہم ہی نے تو بنایا ہے اس لئے ہم تو اس کے دل کے خیال تک کو جانتے ہیں اور یہ کہ ہم تو اس شہ رگ سے بھی قریب ہیں،اور تمام مفسرین نے بھی قرب کے لفظ سے یہی مراد لیا ہے کہ اللہ اپنے علم کی وجہ سے قریب ہے۔
اسی طرح صوفی حضرات قرآن کی ایک دوسری آیت کا ٹکڑا (وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الأرْضِ )
ترجمہ:اور وہی اللہ ہے آسمانوں میں بھی اور زمین مین بھی۔اس سے اہل تصوف یہ دعویٰ کرتے کہ اللہ آسمانوں اور زمین میں حلول کئے ہوئے ہے ،
حالانکہ اسی آیت کا اگلا حصہ صوفی حضرات چھوڑ دیتے ہیں اور وہ یہ ہے: يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ( الانعام:٣)
ترجمہ:وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو جانتا ہے۔
یعنی اس کے علم وخبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔تمہاری پوشیدہ اور کھلی باتوں کا علم رکھتا ہے اور جو تم کرتے پھر رہے ہو اس کا بھی علم رکھتا ہے۔اس آیت کے آخری حصے میں دوبار "یعلم "کا لفظ لا کر اللہ نے یہ بات طے کر دی کہ وہ اپنے علم کی صفت سے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اسے جانتا ہے۔
اٹھائیسویں پارے کی آیت جس سے اہل تصوف"وحدۃ الوجود"ثابت کرتے ہیں:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلاثَةٍ إِلا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلا خَمْسَةٍ إِلا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلا أَكْثَرَ إِلا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (المجادلہ: ٧)
ترجمہ:کیا تم نے دہکھا نہیں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ علم رکھتا ہے ،جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے ۔نہیں ہوتی سرگوشی تین(آدمیوں )میں مگر وہ (اللہ)ان میں چوتھا ہوتا ہے،اور نہ پانچ (میں سرگوشی ہوتی ہے)مگر وہ(اللہ)ان میں چھٹا ہوتا ہے۔غرض وہ اس سے کم ہوں یا زیادہ جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔پھر وہ انہیں قیامت کے دن بتلا دے گا کہ جو جو کام انہوں نے کیے ہیں۔بلاشبہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
اس آیت میں صرف "مع"کا لفظ لے کر اہل تصوف نے "وحدہ الوجود "کو ثابت کرنا چاہا ۔لیکن آیت میں جو بات ہو رہی ہے ،وہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کو قیامت کے دن ان کے اچھے اور برے اعمال بتلا دے گا ،کیوں کہ دنیا میں وہ جتنی بھی چھپ کر بات کر لیں ۔سرگوشیاں کر لیں اللہ سب جانتا ہے ،اور شروع میں "یعلم"کا لفظ لا کر اور آخر میں "علیم"کا لفظ لا کر اللہ نے بات واضح کر دی کہ وہ علم کی صفت کے ذریعے اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔اسی طرح کی بات اللہ کے رسولؐ نے بھی اس وقت کہی تھی جب آپ ﷺ کافروں سے چھپ کر ہجرت کر رہے تھے۔غارثور میں دشمن قریب آ گئے تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ذرا گبھرائے اس پر اللہ کے رسولﷺ انہیں یہ کہہ کر تسلی دی:لا تحزن ان اللہ معنا ،غم نہ کرو ،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔یعنی اللہ کی نصرت اور مدد ہمارے ساتھ ہے۔تو یہاں "مع"کا معنی مدد اورنصرت کے معنوں میں ہے اور اس معنی کو اللہ کے رسولﷺ کا جملہ خود متعین کر رہا ہے۔
انتباہ:مذکورہ تعداد کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے نہیں ہے کہ وہ اس سے کم یا اس سے زیادہ تعدادکے درمیان ہونے والی گفتگو سے اللہ بے خبر رہتا ہے بلکہ یہ تعداد بطور مثال ہے،مقصد یہ بتلانا ہے کہ تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ ۔وہ ہر ایک کے ساتھ ہے اور ظاہر اورپوشیدہ بات کو جانتا ہے۔
اسی طرح ایک اور آیت جسے اہل تصوف "واحدۃالوجود "کے اثبات کے لئے پیش کرتے ہیں:
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرہ:١١٥)
ترجمہ:مشرق اورمغرب اللہ ہی کے لئے ہیں لہذا تم جس طرف بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی ذات ہے ،بلاشبہ اللہ وسعت جاننے والاہے۔
اہل تصوف اس آیت سے واحدۃ الوجود ثابت کرتے ہیں تو پھر کسی سمت کی جانب بھی منہ کرنے کی ضرورت نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کہہ دیتے کہ میں تو تمہارے اندر ہوں ،لہذا سمت کیسی؟اور پھر آیت کا آخری حصہ جو آیت کے مضمون کا خلاصہ ہوتا ہے ،اس میں اللہ تعالیٰ نے "واسع علیم"اپنی وسعت اورعلم کا تذکرہ کر کے پھر بتلا دیا کہ اللہ ہر جانب ہے،ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ،غیر محدود ہے ،مگر اپنی صفت علم کے ذریعہ ۔ جیسا اس کی شیان شان ہے،
نوٹ:ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا،اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ،بعض کہتے ہیں اس وقت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے ،پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں ،بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو،نماز پڑھ سکتے ہو۔(ملحض از احسن التفاسیر)
اہل تصوف یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں:
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمىٰ (الانفال:١٧)
تم نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تم نے (کنکریاں )نہیں ماریں بلکہ اللہ نے ماریں تھیں۔
ناقدین یہاں اہل تصوف سے سوال کرتے ہیں کہ تمہارے عقیدے کے مطابق قتل کرنے والا بھی خدا ہے اور قتل ہونے والا بھی خدا ہے،جیسا کہ مولانا جلال الدین رومی نے اپنی مثنوی میں ایک حکایت بیان کرتے ہوئے کہا ہے،مختصر یوں ہے کہ ایک صوفی بھی مجاہدوں کے ساتھ چلا گیا ،مجاہد قتال کر کے آگئے مگر یہ خیموں ہی میں بیٹھا رہا،آخر کار مجاہدوں نے اسے ایک کافر قیدی دیا کہ جا اور اسے قتل کر کے آجا ۔مگر کافی دیر بعد صوفی نہ آیا۔اب مجاہدین وہاں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ صوفی نیچے ہے اور کافر اس کے اوپر بیٹھ کر اسے زدوکوب کر رہا ہے،مجاہدین نے صوفی کو چھڑوایا اورسبب پوچھا تو صوفی کہنے لگا :میں نے جب کافر کی طرف دیکھا اس میں مجهے خدا نظر آیا۔
صوفیوں کا یہ عقیدہ کہ بزعم خود یہ خود بھی خدا ہیں اور یہ خداؤں کو کیا قتل کریں گے؟اور اس آیت میں تو قتل ہو رہا ہے۔چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ کافر کا قتل کرنا جو ان کے مذہب "واحدۃ الوجود"کے خلاف ہے۔وہ اس قتل والی آیت سے دلیل کیوں پکڑتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ کا انداز ہے کہ ٹھیک ہے تم لڑائی کر رہے تھے ،جہاد کر رہے تھے قتال کر رہے تھے مگر نشانے درست لگانا کافروں کی موت کا فیصلہ کرنا ،یہ تو میرا ہی کام ہے،چنانچہ اللہ نے اس کی نسبت اپنی طرف کر دی اور مجاہدین کے ساتھ محبت بھی ہے کہ ان کے کام کی نسبت اللہ تعالیٰ اپنی طرف کر رہے ہیں اور مدد کی نوید بھی ہے کہ یہ محض میری نصرت کے ساتھ ایسا ہوا ۔فرشتے اترے اور انہوں نے بدر میں مشرک اڑا ڈالے ،اب یہ ایک انداز اور اسلوب ہے لیکن اہل تصوف نے "عقیدہ واحدۃ الوجود"ثابت کرنا شروع کر دیا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جو قیامت کے دن ایک منظر کے بارے میں ہے جو یوں بپا ہو گا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں سے کہے گا :اے آدم کے بیٹے !میں بیمار تھا تو نے میری بیمارپرسی نہ کی۔بندہ عرض کرے گا :میں آپ کی بیمار پرسی کیسے کر سکتا تھا؟کہ آپ تو رب العالمین ہیں۔اللہ فرمائے گا :میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت نہ کی۔اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا ۔اے آدم کے بیٹے !میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے نہ کھلایا ۔بندہ عرض کرے گا :میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا کھلا سکتا ؟کہ آپ سارے جہانوں
کو پالنے والے ہیں ۔اللہ فرمائے گا :کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا؟مگر تو نے نہیں کھلایا ۔کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔اے آدم کے بیٹے !میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے نہ پلایا ،بندہ کہے گا :اے میرے رب!میں تجھے کیسے پانی پلاتا کہ آپ رب العالمین ہیں ؟اللہ فرمائے گا:میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے اسے نہ پلایا ۔کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلادیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔
اس حدیث میں بڑا سادہ اور آسان سا تمثیلی انداز اختیار کیا گیا ہے ،جو ہر ایک کی سمجھ میں آتا ہے
مطلب واضح ہے کہ انسان دوستی کے کام کئے جائیں ،مہمان نوازی کی صفت پیدا کی جائے اور اگر یہ صفات پیدا ہو جائیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے !تو اگر عبادت کرتا ہے ،اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ،تو مجھے تو اپنے پاس پاتا ۔مطلب یہ کہ میں تجھے اور زیادہ دیتا ۔میں تیری مدد کرتا ،میں تیرے رزق میں اضافہ کرتا ،مگر افسوس!کس قدر کورچشمی او بدذوقی کی انتہا ہے کہ ان صوفیوں نے اللہ کی اپنے بندے کے ساتھ محبت وشففقت کے ان عظیم شاہکار شہہ پاروں میں سے" وحدۃ الوجود" کا عقیدہ برآمد کرنے کی کوشش کر ڈالی ،جس میں بندے اور خالق کے درمیان امتیاز ہی نہیں بلکہ ہر شے خدا ہے ۔اسی طرح اللہ نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو "نافتہ اللہ "کہا ،تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کہ اللہ تعالیٰ اس اونٹنی پر سوار ہوتے ہیں یا دودھ پیتے ہیں(نعوذباللہ)  یہ  محض حضرت انسان کی عزت وتکریم کا انداز ہے ۔ اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔اب اگر کوئی تلواروں کا سایہ کر کے نیچے جنت ڈھونڈنا شروع کر دے ،زمین کھودنا شروع کر دے ،تو سب لوگ اسے بے وقوف کہیں گے۔مطلب یہی ہے کہ تلواریں چلاؤ ،خون پیش کر کے شہید ہو جاؤ ،اور پھر جنت پا جاؤ ۔(اللہ کا کان بننا آنکھ بننا بخاری کے الفاظ)اوردو ہاتھ بڑھنا یا  دوڑنا ،یہ سب اسی طرح کا تمثیلی انداز ہے جو بندوں کو سمجھانے کے لئے ہے۔
طوالت کے ڈر سے ہم اسی پراکتفا کرتے ہیں ،وگرنہ اہل تصوف جن دیگر آیات  واحادیث سے اپنا عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان پر ان کے دلائل مندرجہ بالا دلائل سے بھی کہیں زیادہ مضحکہ خیز ہیں۔مزید کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے بس اللہ ہی کی بات پر اس موضوع کو ختم کیا جاتا ہے(سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ۔الصفات:١٥٩)ترجمہ:جو کچھ یہ (اللہ کے بارے میں)بیان کر رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ باکل پاک ہے۔
"تصوف اور ناقدین 'تقابلی مطالعہ'،مصنف محمد مبشر نذیر کی کتاب سے حذف و ترمیم کے ساتھ-تالیف عمران شہزاد تارڑ"
www.dawatetohid.blogspot.com
جاری ہے......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...