Monday 14 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،25

اسلام اور خانقاہی نظام

سیکولرزم اور صوفیت کے جال: اس سے تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ یہ سیکولر اورمغرب زدہ لوگ جو اس ملک کے حکمران بنے ہوئے ہیں‘حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں‘اور مستقبل میں بھی ان کا یہ پروگرام ہے کہ وہ ہی حکمرانی کرتے رہیں-یہ ایک جانب تو دنیاوی زندگی اپنی مرضی سے بے لگام ہو کر گزارنا چاہتے ہیں-مغربی تہذیب کی آزادیوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں- مگر اس کے ساتھ ساتھ چونکہ یہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں- مسلمان معاشروں سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں حکمرانی بھی مسلمانوں پر کرنا ہے-لہٰذا یہ اپنے اسلام(عقیدہ) کو ظاہر کرنے کے لئے‘اپنی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے‘اس دین اور مذہب کو اپناتے ہیں کہ جس مذہب کے نام پر روایات اور اعمال کا تعلق اس دین کے ساتھ سرے سے ہے ہی نہیں‘ کہ جسے اللہ نے نازل کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لوگوں تک پہنچایا اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس پر عمل کرکے دکھایا ... اور دوسری طرف بڑے بڑے سیاستدان پارٹی رہنما اکثر ان مزاروں پر حاضری دے کر یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہمارا اور خانقاہوں سے عقیدت رکهنے والوں کا عقیدہ یکساں ہے.لہٰذا یہ صوفی سیکولر لوگ سب ایک ہیں-ہمیں ان درباروں پر حاضری دے کر قبر والے کیلئے دعا کرنے پر اعتراض نہیں.ہمیں عتراض ان خرافات سے ہے جو خانقاہوں پر سر انجام دی جاتی ہیں.بعض پہلے صوفی ہوتے ہیں-بعد میں سیکولر بنتے ہیں. جیسے سائیں راشد کی گدی کے مالک پیرپگاڑو ‘ہالہ میں سائیں مخدوم نوح کی گدی کے وارث ‘مخدوم خلیق الزمان اور شاہ جیونہ کی گدی کے تاجدار فیصل صالح حیات ہیں اور اب بڑے بڑے سیاستدان صوفیت کی طرف آ رہے ہیں-پورے ملک میں گدی نشین حضرات کی لڑائیوں کے کئی قصے اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں-اسی گدی کیلئے بھٹو کی سالگرہ پر پانچ جنوری کولاڑکانہ میں ماں اور بیٹی کے درمیان جنگ ہوئی تھی-جس میں کئی لوگ گولی لگنے سے ہلاک اور زخمی ہوئے-نصرت بھٹو کا کہنا تھا کہ میری بیٹی نے میرے شوہر کے مزار پر قبضہ کرلیا- بہرحال یہ لڑائی ابھی بند نہیں ہوئی تهی اور غنویٰ بھٹو بھی اس منافع بخش درباری صنعت کے جھگڑے میں ایک فریق کی حیثیت سے کود پڑی ہے....
بے نظیر .... اور شہباز قلندر : کہتے ہیں دنیا میں اڑھائی قلندر ہوئے ہیں‘ایک پانی پت کے بو علی قلندر‘ایک شہباز قلندر اور رابعہ بصری آدھا قلندر تھیں-تو شاید آنے والے وقت میں باقی نصف کا پاٹ بی بی بے نظیر پر کر دیں.... اور یوں اڑھائی کے بجائے تین قلندر پورے ہو جائیں-ویسے قلندر اور بھٹو سائیں کے درمیان قلندرانہ تعلق پیدا ہو چکا ہے اور یہ شاید اسی تعلق کا سبب ہے کہ بابا بھٹو سائیں کے دربار کی مجاورہ مالکہ اور گدی نشینہ بی بی بے نظیر بابا بھٹو کے مزار پر حاضری دینے کے بعد عموماً شہباز قلندر کے دربار پر جا پہنچتی ہیں-اور 13جنوری 1994کے اخبارات کے مطابق انہوں نے کہاکہ میں نے قلندر کے دربار پرحاضری دی اور پورے ملک میں بارش برس گئی-ہم محترمہ کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ ذرا فرمان مصطفی بھی پڑھ کر دیکھیں:
 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی موقع پر فرمایا تھا:صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں حضرت خالد بن زید سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر ہمیں صبح کی نماز ایسی رات کو پڑھائی جس میں بارش ہوئی-چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا :کیا تمہیں پتہ ہے کہ اللہ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی کہ: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: آج صبح میرے بہت سے بندے مومن ہو گئے اور بہت سے کافر ہوگئے-لہٰذا جس نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل وکرم اور اس کی رحمت سے ہوئی ہے- وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں سے اس نے کفر کیا-اور جس نے یہ کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی‘اس نے مجھ سے کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا-( صحیح البخاری :کتا ب الاذان باب یستقبل الامام الناس اذا سلم رقم الحدیث 846و صحیح مسلم: کتاب الایمان باب بیان کفر من قال مطرنا بالنوئ) قارئین محترم ....اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ یہ بارش محض اللہ کا فضل وکرم ہے اور یہ فضل وکر م اس نے ازخود کیا ہے یا کسی کی دعا اور فریاد پر کیا ہے-یہ وہی جانتا ہے‘باقی درباروں اور قبروں پہ جا کر مردہ لوگوں کو اللہ کے حضور واسطہ وسیلہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بزرگ بڑی پہنچ والے ہیں- ہماری فریادوں کو آگے پہنچاتے ہیں اور ہماری فریادوں سے واقف ہیں یعنی وہ غیب جانتے ہیں -یہ وہ غیر سائنٹیفک ‘غیر عقلی باطل عقیدہ ہے جسے قرآن وحدیث نے فضول اور شرک قرار دیا ہے-بہرحال ! سابق وزیراعظم بی بی بے نظیر کے بابا بھٹو سائیں کے دربار پر جب ہم آگے بڑھے تو بے شمار چادریں تھیں جو ترنگی بھی تھیں اور ایک رنگی یعنی سبز بھی تھیں-ایک چادر پہ لکھا ہو اتھا :ہم آپ کی ساتویں برسی پر آپ کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں-منجانب: یعقوب مسیح نائب صدر یونٹ 48ٹاون شپ زون نمبر 3لاہور. قارئین کرام !اب چادریں چڑهانے کا سلسلہ شروع ہو چکا بعید نہیں کہ دوسرے مزاروں کی طرح دیگر خرافات کا یہاں چرچا نہ ہو بلکہ بعض خرافات کی ابتدا ہو چکی ہے.....
کاش بی بی سمیت تمام لوگوں کو ان بزرگوں کے فوت ہونے کا بھی یقین ہو جائے تو ان کو مشکل کشا‘ حاجت روا ‘ کرنی والا ‘ دستگیر ، غریب نواز 'داتا غوث اعظم گنج بخش وغیرہ نہ مانیں جو خود کو زندہ نہ رکھ
سکے وہ دوسروں کو کیا زندگیاں دیں گے.یہ تمام قبروں والے دنیا کی میں بهی اللہ کے محتاج تهے اور مرنے کے بعد بهی اللہ کے محتاج ہیں.لہذا صرف اور صرف ایک اللہ کے ہو جائیں اور اللہ تعالی ہی کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجهیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ حسنہ بنائیں-جاری ہے.......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...