Thursday 17 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،30

اسلام اور خانقاہی نظام

برہمنیت اور مخدومیت درباری گدی نشینوں کے لئے ”مخدوم“ ایک ایسی اصطلاح ہے جو اب بہت عام ہوچکی ہے-پنجاب اور سندھ کے اکثر گدی نشین اپنے آپ کو مخدوم کہلواتے ہیں-جیسے مخدوم طالب المولی.... اور مخدوم امین فہیم - پیر پگاڑو کا ایک رشتہ دار مخدوم حسن محمود .... ملتان کے مخدوم سجاد حسین قریشی وغیرہ وغیرہ - برہمن اور مخدوم: یاد رہے ! خدمت ‘ خادم ‘ مخدوم -ایک ہی مصدر و مادے کی مختلف شکلیں ہیں-مطلب یہ ہے کہ یہ جو گدی نشین ہیں‘یہ خاندانی طور پر نسل در نسل مخدوم ہیں-یعنی ایسی مخلوق کہ جس کی خدمت ہمیشہ سے کی گئی اور آئندہ بھی کی جائے گی-اب جو ان کی خدمت کریں گے وہ خادم ٹھہرے-یعنی یہ جو ہاری ‘مزارع اور مرید وغیرہ ہیں‘ یہ سب خادم ہیں .... اور ان کا کام خدمت کرنا ہے-اب یہ خدمت کیا ہے ؟ خدمت یہ ہے کہ جب ان بزرگوں کا عرس ہو تو اس عرس میں شرکت کی جائے‘وہاں نذریں دی جائیں‘خزانوں کو نوٹوں سے بھرا جائے‘مریدنیاں اپنے زیورات نچھاور کریں .... اور پھر یہ سارا مال مخدوم صاحب کی خدمت کے لئے حاضر کر دیا جائے-مزید برآں ہر جمعرات اور اس کے علاوہ بھی گاہے بگاہے حاضری جاری رہنی چاہئے-پھر جب الیکشن کا وقت آئے تو ان خادموں کو انتخابی صندوکڑے میں مخدوم صاحب کو ووٹ پیش کرنے چاہئیں‘تاکہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ کر ان خادموں کی جو دولت ٹیکسوں چونگیوں کی صورت میں حکومتی خزانے میں جمع ہو رہی ہے‘وہ اسے بھی اپنی خدمت میں لاسکیں .... ملوں‘کاروں کے پرمٹ حاصل کریں .... پلاٹ لیں....- کروڑوں کے قرضے لے کر معاف کروائیں .... اور وزارتوں کے مزے اڑائیں .... قارئین کرام ! خادم لوگ .... ایسی خدمت....بجا لا رہے ہیں اور مخدوم لطف اندوز ہو رہے ہیں .... اپنے باپ دادا کی قبروں کی گدیوں پر بھی-اور حکومت کے ایوانوں میں بھی-علامہ اقبال نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے: ”مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن“برہمن اور مخدوم ایک ہی تصویر کے دو رخ:اب برہمنیت کیا ہے ؟وہ بھی تو یہی ہے کہ جس میں برہمن کے پاس مندر کی تقدیس کا بلند مقام یعنی”پنڈت“ہوتا ہے-اور اس کی وجہ سے سیاست پر بھی وہی چھایا ہو تا ہے-جیسے پنڈت نہرو کا خاندان ‘کہ وہ بھی برہمن تھا‘اور برہمن کا مطلب مخدوم ہے یعنی ایسی قوم کہ جو حکومت کرے گی-مذہبی اور دنیاوی سیاست اس کے پاس ہوگی-اس کے بعد کھشتری‘ ویش اور شودر ہیں‘اور ان سب کا کام”برہمن“کی خدمت ہے-تو علامہ اقبال نے بڑا خوبصورت اور حقائق کے عین مطابق نقشہ کھینچا ہے کہ .... یہ جو لوگ ہیں‘ جو مریدوں کے دئیے ہوئے نذرانے پہ پلتے ہیں یہ دراصل کعبے کے برہمن ہیں‘جو بتوں کی طرح اپنے آپ کو پجوا رہے ہیں- اور یہ جو نذرانے لے رہے ہیں ‘ علامہ اقبال ان نذرانوں پہ بھی چوٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں”نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا“اے قارئین کرام! یہ برصغیر میں آریائی ہندوں کی وہ برہمنیت ہے کہ جس کی شکل مسلمانوں میں اب”مخدومیت“ کے نام سے فروغ پذیر ہے- حقیقی استحصال کیا ہے ؟: آج یہ جو ایک عرصے سے ہر طرف استحصال استحصال کے نعرے لگ رہے ہیں-تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ نعرے کو ن لگا رہے ہیں اور یہ استحصال ہے کہاں....؟؟ یاد رکھئے! استحصال صرف دو ہی طرح کے ہو سکتے ہیں‘(۱)دنیا کااستحصال (۲)آخرت کا استحصال-قارئین کرام! اب غور کیجئے ! کہ ان دونوں میں کس کا ہاتھ ہے-؟یقین جانئے! ان دونوں میں سب سے زیادہ ہاتھ جاگیردار پیروں 'گدی نشینوں اور خانقاہیوں کا ہے-اس لئے کہ اپنی قبوری گدیوں اور حکومتی ایوانوں میں تو یہ لوگوں کے اموال کا استحصال کرتے ہی رہے ہیں-جبکہ جو اصل استحصال ہے‘وہ ہے لوگوں کے عقیدے کا استحصال-انہوں نے لوگوں کی آخرت کو بھی برباد کر دیا ہے-اور یہ سب سے بڑا استحصال ہے‘اس لئے کہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے‘یہ تو بیت ہی جائے گی-جبکہ آخرت کی زندگی کی کوئی حد نہیں-تو یہ پیر جو لوگوں کو شرک کی بھٹیوں میں جھونک کر جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں-یہ ہے سب سے بڑا استحصال‘یہ ہے سب سے بڑا ظلم جو یہ لوگ اپنے آپ پر بھی کر رہے ہیں اور اپنے ماننے والوں پر بھی-مگر ان کے ماننے والے زیادہ بد نصیب ہیں-اس لئے کہ ان کی اکثریت کی قسمت میں دنیا کی بھی بدنصیبی ہے‘غربت'در در کی ٹهوکریں'اور مفلسی ہے‘اور آخرت کا بھی خسارہ ہے-یہ جو دنیوی اور اخروی استحصال ہے‘یہ سب سے زیادہ سندھ میں ہے‘ اور اس کے بعد پنجاب میں ہے‘ اس کے بعد بلوچستان اور چوتھا نمبر سرحد کا ہے-جبکہ یہ استحصال کشمیر میں بھی جاری ہے-سندھ کا جہاں سب سے زیادہ استحصال ہو رہا ہے اور سندھی پیر اہل سندھ کا خوب خوب استحصال کر رہے ہیں-وہاں پنجاب کے پیر بھی سندھ میں آکر لوگوں کی ضعیف الاعتقادی سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے ہیں-ہم بچپن سے ہی یہ سنا کرتے تھے کہ فلاں پیر صاحب سندھ میں گئے ہیں-وہاں پر ان کے بڑے مرید ہیں-اب سمجھ آئی ہے کہ یہ سندھ میں کیا کر نے جاتے ہیں....؟ یقین جانئے ! یہ پنجابی پیر‘ سندھی پیروں کی مذہب کے نام پر فراڈی گنگا میں ہاتھ دھونے جاتے ہیں‘اور خوب خوب دھوتے ہیں-
جاری ہے......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ
ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان. یہ قسط اس لنک پر بهی پڑھ سکتے ہیں...▼
http://deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com/
--------------------

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...