Thursday 17 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،27

اسلام اور خانقاہی نظام

سندھ کا درباری سفر کہ جو ہم نے کراچی سے شروع کیا تھا ” اب ہم حیدرآباد “ پہنچ پائے تھے ....حیدر آباد سے ہماری منزل ” سہون “ کا شہر تھا‘ جو ” شہباز قلندر “ کے نام سے معروف ہے ‘ اور حیدر آباد سے تقریباً دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے -* اڑھائی کیوں؟ پورے تین قلندر کیوں نہیں: درباری لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ دنیا میں اڑھائی قلندر ہوئے ہیں - ایک ہندوستان کے شہر ”پانی پت “ میں بو علی قلندر- دوسرا پاکستان کے صوبہ سندھ کاشاہباز قلندر -- اور تیسری قلندرہ - رابعہ بصری ہے‘ جو عراق کے شہر بصرے کی رہنے والی تھی - چونکہ و ہ عورت تھی ‘ اس لئے وہ آدھا قلندر ہے - اب رہا یہ سوال کہ اس روایت کا سرچشمہ کیا ہے؟ یہ کہاں سے آئی ہے؟ کہ اس پر اعتماد کیا جائے یا نہیں -تصوف یعنی دین خانقاہی کی دنیا میں اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ یہ طریقت کے راز ہیں ‘ یہ ولایت کی باتیں ہیں ‘ ان میں دلائل نہیں پوچھے جاتے - دلائل پوچھنا گستاخی کے زمرے میں آتا ہے -یہاں تو سینہ بسینہ باتیں چلتی ہیں - اگلی بات یہ ہے کہ قطب ‘ غوث ‘ ابدال اور قیوم - جو کہ اولیائے کرام کی اقسام ہیں- ان کے بارے میں تصوف کی دنیا میں سنتے ہیں‘ کہ قطب وہ ہوتا ہے کہ جس کے بل بوتے پر اس دنیا کا چکر جاری و ساری ہے -کیونکہ پرانے وقتوں کی آٹا پیسنے والی چکی کے دوپاٹوں کے درمیان جو ” کِلّی“ ہوتی ہے اس کو قطب کہا جاتا ہے - اب یہ پاٹ اسی کے بل بوتے پر گھومتے ہیں-لہٰذا قطب بھی اس دنیا کی کِلّی ہے - اسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی غوث ہی نہیں بلکہ ” غوث الاعظم “ یعنی بڑے ” فریاد رس “ ہیں -اور جو ابدال ہے تو یہ بھی ہر صدی میں ایک ضرور ہوتا ہے - مشرق و مغرب کی بعض اقلیمیں اس کے سپرد ہوتی ہیں - اور” قیوم  ” مجدد الف ثانی “ کہ جنہیں ” قیوم اول“ کہا جاتا ہے - ان کی اولاد نے جو اس کی فضیلتیں بیان کی ہیں‘ ان کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کا وزیراعظم لگتا ہے- جو مزید حقیقت حال جاننا چاہے‘ وہ راقم کی کتاب ” آسمانی جنت اور دربای جہنم “ کا مطالعہ کرے...《البتہ آگے جا کر ہم مختصر تعارف کروایئں گے》 قارئین کرام ! تو ولیوں کی یہ جو اقسام ہیں‘ ان کے بارے میں تصوف کی کتابوں میں لکھا ہوا ملتا ہے کہ یہ کس”شان بلند “ کی حامل ہستیاں ہیں-اب رہا یہ مسئلہ کہ ان کی بلند شانیں بیان کرنے میں اللہ کی کیا کیا گستاخیاں ہوتی ہیں‘تو اس کی کسی کو پرواہ نہیں-قرآن و سنہ کا انکار ہوتا ہے تو ہو....-بے شک قرآن ان درباریوں کو آوازیں دے دے کر یوں پکارتا ہے : ﴾ وَمَالَکُم لاَ تَرجُونَ لِلّٰہِ وَقَارًا٭ وَقَد خَلَقَکُم اَطوَارًا ﴿ ترجمہ:اور ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے وقار کا کوئی خیال نہیں کرتے- حالانکہ اس نے تمہیں ایک کے بعد دوسری حالت میں لا کر پیدا کیا ہے-( نوح : ۳۱ ‘ ۴۱)
مگر آج یہاں قرآن کی سنتا کون ہے ؟ تصوف کی دنیا میں تو سنی جاتی ہے قوالوں' گویوں اور گدی نشینوں کی-اور ان کے منہ سے جو نکل جائے وہی درباری دنیا کا مذہب بن جاتا ہے.... اب یہ جو قلندر ہے‘ تو اس کی شان کے کیا ہی کہنے- سبب ظاہر ہے کہ وہ آج تک ہوئے ہی اڑھائی ہیں‘ تو پھر اس کے مرتبہ کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے -اب اس کا مرتبہ کیسے جانا جائے ؟ تو اس مقصد کے لئے گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کے بول ملاحظہ کیجئے :شھباز کرے پرواز سخی شاھباز قلندر علی دا پہلا نمبر تے جانے راز دلاں دے دما دم مست قلندر علی دم دم دے اندر ہو لال میری........ملکہ ترنم کے ان بولوں سے پتہ چلا کہ شاھباز قلندر کی یہ شان ہے- اور اس کی روحانی پرواز کا یہ عالم ہے کہ وہ دلوں کے راز جانتا ہے - اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دلوں کے راز تو سب ہی ولی جانتے ہیں‘ تو پھر قلندر میں کیا خاص بات ہوئی؟ ....  اور ملکہ کے اس شرکیہ گانے کو صوفیاء کا کلام کا نام دیا جاتا ہے. حضرت لعل شہباز قلندر کا کاغذی بتوں کی شکل میں ان کا ایک آئیڈیل بت بنایا گیا ہے ‘ جو پورے ملک میں بکتا ہے اور گھروں میں سجایا جاتا ہے .... وہ اس طرح سے ہے کہ دربار کے صحن میں حضرت لعل شاھباز قلندر سرخ اور بھڑکیلا شاہانہ لباس زیب تن کیئے ہاتھ بلند کیئے کمر تھوڑی سی خم آلود اور پیچ دار بنائے ہوئے ایک پاوں ذرا اوپر اٹھائے ہوئے.... یعنی ناچنے کی حالت میں ہیں - رقص اور دھمال ڈالنے کی کیفیت میں ہیں ....اڑنے والے پروں سے بھی سجایا ہوا ہے- اب ایسے ولی اور قلندر کو دیکھ کر .... کہ جب یہ عقیدہ بھی ہو کہ وہ دلوں کا راز جانتا ہے اور بمطابق فرمان نورجہاں اور عقیدت مندوں کے- وہ بلائیں ٹالتا ہے‘ تو پھر وہاں ہر کوئی ناچے گا ‘ رقص کرے گا ‘ دھمال ڈالے گا‘ تاکہ قلندر کو خوش کیا جائے‘ اور وہ خوش اسی طرح ہوگا کہ جب اس کی اداوں کو اپنایا جائے.یہی وجہ ہے کہ مزاروں پر ڈهول کی تهاپ پر دهمال رقص(ناچ) -کی محفلیں سجائی جاتی ہیں جس میں مردوں عورتوں سمیت بچے بوڑهے سب شریک ہوتے ہیں.یہ تماشا صرف موج مستی کیلئے نہیں کیا جاتا بلکہ دین کا حصہ سمجھ کر کیا جاتا ہے.   چنانچہ اب نور جہاں کو گانا گانے سے کیا شئی مانع ہوگی اور اس کے گانے کو نصیبو لال یا نرگس یاکوئی اور اداکارہ فلموں میں اس پہ رقص کرے گی‘ تو اسے کون سی شئی روکے گی ؟ اور دیکھنے والے بھی یہ منظر دیکھیں گے‘ تو انہیں اس منظر میں فحاشی نہ دکھائی دے گی - بے شرمی کا خیال نہیں آئے گا .... کیوں.. ؟ اس لئے کہ اس بے شرمی پر درباری ولائت کی چادر فضیلت جو پڑی ہے‘ اس بے حیائی پر تصوف کی خلعت خلافت جو موجود ہے اور اس فحاشی پر خانقاہی تقدس کی دستار فضیلت جو سجی ہے- اگر کوئی پوچهے کیا یہ فحاشی دین ہے؟ تو کہا جاتا ہے کہ یہ صوفیانہ کلام یعنی بزرگوں کا کلام ہے.پهر اس صوفیانہ کلام کے نام پر بے شمار گلوکار اور گلوکارہ اپنے اپنے انداز میں موسیقی سازو رنگ کے ساتھ کلام کو پیش کرتے  ہیں.اب تو صوفیانہ کلام کے فروغ  کیلئے باقاعدہ اکیڈمیوں کا آغاز ہو چکا ہے.بات صرف یہی ختم نہیں ہوتی پهر دین خانقاہی سے عقیدت رکهنے والے صوفیانہ کلام کی آڈیو ویڈیو خرید کر صبح کا آغاز تلاوت قرآن مجید کی بجائے گهروں دوکانوں اور گاڑیوں میں صوفیانہ کلام کو باعث برکت اور ثواب سمجھ کر سنتے ہیں..جاری ہے......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...