Thursday 17 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،26

اسلام اور خانقاہی نظام

حضر ت پیر ضیاءالحق“ کا عرس جنرل ضیاء نے افغانستان کے جہاد میں جو کردار ادا کیا - وہ بیان کا محتاج نہیں -اس جہاد کے بعد ان کی نگاہیں جہاد کشمیر پہ بھی تھیں اور یہی وہ نگاہ تھی جو کفر کو گوارا نہ تھی- لہٰذا جنرل صاحب کو راستے سے ہٹا دیا گیا - جب وہ منظر سے ہٹے تو تب کئی لوگوں کی نگاہوں سے پردہ ہٹا - جنرل کی زندگی سے بھی پردہ اٹھا تو وہ لوگوں کے محبوب راہنما بن گئے - ان کی محبوبیت سے ان کے سیاسی جانشینوں اور ان کے بیٹوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور انہیں حق بھی تھا- مگر ایک فائدہ انہوں نے وہ اٹھایا کہ جو ہمیشہ قوموں کی گمراہی کا باعث بنا ہے- اور یہ ہے مرنے کے بعد عظیم لوگوں کی پوجا کا تصور - اس تصور و عمل کی گمراہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان سے ملاحظہ کیجئے :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حبشہ میں عیسائیوں کاگرجا دیکھا جس میں تصاویر بھی آویزاں تھیں تو اس کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا گیا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو یہ لوگ اس کی قبر کے پاس عبادت گاہ تعمیر کر دیتے اور پھر اس شخص کی تصاویر لٹکا دیتے-یہ لوگ اللہ کے ہاں بدترین لوگ ہیں-( رواہ البخاری :کتاب الجنائز باب بناءالمسجد علی القبر رقم الحدیث 1341و مسلم: کتاب المساجد باب النہی عن بناءالمسجد علی القبور)     بلاشبہ جنرل ضیاءالحق شریف النفس نمازی اور پرہیز گار انسان تھے مگر سب سے بڑا پرہیز کہ جسے کرنے کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ‘اس سے وہ پرہیز نہ کر سکے-وہ درباروں پہ بهی جاتے رہے - چادریں بهی  چڑھاتے رہے- اور اس کے ساتھ ساتھ عمرے کرتے رہے یعنی وہ اللہ کی عبادت بھی کرتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ شرکیہ اعمال کا ارتکاب بھی کرتے رہے-اب ان کی غیر معمولی موت کے بعد سب لوگ اپنے اپنے طور پر کہ کوئی جہاد کے حوالے سے ‘کوئی ان کے اسلامی اقدامات کے حوالے سے ‘کوئی ان کے قبروں پہ جانے کی وجہ سے ‘ ان سے محبت کا اظہار کرنے لگے اور اس اظہار کے لئے سب کا رخ ان کے پہلے عرس (برسی) پر ان کی قبر کی طرف ہو گیا-کئی توحید کا نام لینے والے بھی وہاں جا پہنچے- اور دوسرا ظلم یہ ہوا کہ ان کی قبر فیصل مسجد کے پہلو میں بنائی گئی-اس ملک میں یہی رسم ہے -علامہ اقبال کی قبر شاہی مسجد کے پہلو میں بنادی گئی وغیرہ وغیرہ-تو کسی بزرگ کی قبر کے ساتھ مسجد بنا دی گئی- الغرض اس طرح سے قبروں کو نمایاں کرنے کا ایک چلن اور رواج ہمارے یہاں موجود ہے حالانکہ قبر کی جگہ قبرستان ہے نہ کہ پارک اور مسجدوں کے دامن .... بہرحال آئیے ! آپ کو بھی اس عرس کی جھلکیاں دکھائیں: اسٹیج سیکرٹری پکار پکار کر کہہ رہا تھا” شہید ضیاءالحق کے مزار اقدس کا راستہ - امنگوں کا رستہ ہے“ یعنی آئیے ! اور یہاں اپنی امنگیں پوری کرائیے-اب کچھ نوجوانوں کاایک قافلہ آ رہا تھا-انہوں نے سبز چادریں تھامی ہوئی تھیں - ان پر آیت الکرسی لکھی ہوئی تھی-یہ مخصوص لباس میں آگے آگے تھے اور پیر ضیاءالحق کے دربار کا وارث ان کا سابق بینکار اور وزیر بیٹا‘ اعجاز الحق پیچھے پیچھے آ رہا تھا-نعرہ رسالت اور نعر ہ حیدری زوروں پر تھا- ضیاءالحق کی ایک بڑی تصویر کا پورٹریٹ ایک شخص نے سر پر اٹھا رکھا تھا-وہ جلسہ گاہ میں اسے اٹھائے گھوم رہا تھا-ایسا ہی ایک پورٹریٹ جلسہ کی اسٹیج کے سامنے گاڑا گیا تھا-اس پر سبز گنبد کاغذوں کا بنایا گیا تھا-کچھ لوگ نان اور حلوہ ایک گاڑی میں رکھ کر لے آئے .... یہ لنگر وہ لوگوں میں تقسیم کر رہے تھے- جنرل صاحب کا طیارہ جس وقت کریش ہوا تھا اسی وقت دعا مانگی گئی -- یہ ایک انوکھا کام ہے جو حضرت پیر ضیاءالحق کے عرس پر شروع ہو گیا ہے جس طرح درباروں پہ چادریں چڑھتی ہیں اور اس کے گرد ڈھول بجتا ہے ‘ اسی طرح ایک چادر آئی -ڈھول اور چمٹے بج رہے تھے - جھنجنے چھنک رہے تھے اور ایک دیوانہ ملنگ ناچ رہا تھا - اس کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ناچ رہے تھے اور بینر پر لکھا تھا : ”عرس مبارک حضرت پیر ضیاءالحق شہید“ جنرل ضیاءالحق کی قبر پر وہ جو برسی شروع ہوئی وہ آہستہ آہستہ میلہ اور اب عرس بن گیا ہے-اس عرس میں اب وہی درباری اور خانقاہی رنگ غالب آتا جا رہا ہے - لوگوں کا جھمگھٹا بھی چھٹ گیا ہے اور اس بار تو
انتہائی کم لوگ تھے - دوتین ہزار سے زیادہ نہ ہوں گے - جناب اعجاز الحق نے ابتدائی برسیوں کو دیکھ کرضیاءالحق فنڈیشن بنائی - اسی فانڈیشن کے تحت آج اس عرس میں نواز شریف صاحب بھی موجود تھے اور حکمت یار بھی تھا -اس برسی کے بعد لگتا ہے کہ اعجاز صاحب کے ہاتھ میں اب وہ اعجاز نہیں رہا کہ جسے نواز شریف صاحب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے - جنرل ضیاءالحق کو ایک دوبار مجھے بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا -بہرحال تاحال باقاعدگی سے یہ عرس منا رہے ہیں - وزارت عظمی کے طویل خوابوں کے بعد اب لگتا ہے کہ وہ مجاوری کی طرف کافی سفر کر آئے ہیں اور یہ سفر انہوں نے جاری رکھا تو مستقبل میں ایک روز یہ صاحب یا ان کا کوئی بیٹا مخدوم بن جائے گا کہ جس طرح مخدوم خلیق الزمان مخدوم فیصل صالح حیات اور دوسرے ایسے کئی مخدوم اور گدی نشین ہیں جو کہ گدیوں کے بل بوتے پر وزیر بنتے ہیں -  جناب اعجاز الحق آگے بڑھئے!.... ....: ایک بات اگرچہ اعجاز الحق صاحب کو کڑوی لگے مگر ہم بتائے دیتے ہیں کہ جنرل ضیاءالحق کی سیاسی وراثت میاں نواز شریف صاحب لے اڑے - اب آپ کے پاس فقط گدی نشینی کی وراثت ہے -اگر آپ کا مخدوم بننے کا پروگرام ہے تو .... اگر نہیں ہے تو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ برسی کو چھوڑئیے - یہ عرس کے جھنجھٹ سے نکلئے - آپ کے والد محترم سیاسی مجبوریوں سے یا نہ جانے کس بنا پر قبروں پہ پھیرے لگانے سے پرہیز نہ کرسکے - آپ اس چلن سے پرہیز کیجئے - توحید کا عقیدہ اپنائیے ! آگے بڑھئے ! اور جہاد کا کام کیجئے کہ جس طر ح جنرل ضیاءالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان نے کیا تھا - اور جناب نواز شریف اور شہباز شریف صاحب سے بھی عرض کریں گے کہ اب درباروں کی بجائے فقط کعبے کے ہو جائیے. اللہ توحید وجہاد کی خالص نعمت سے نوازے( آمین )جاری ہے....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...