Wednesday 23 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،41

اسلام اور خانقاہی نظام

کچھ دیگر گدیاں:پاکستان کے بڑے اور قدیم یہ دو دربار تھے‘ جو قلعے پر واقع ہیں-یہ ہم نے دیکھ لئے تھے-اب ایک تیسرے دربار کا مزید اضافہ ہوگیا ہے-یہ حامد علی خان کا دربار ہے-ان کے بیٹے محمد میاں گدی نشین ہیں-یہ نوجوان گدی نشین(ایم - اے اکنامکس ) ہے- ہماری ان سے ملاقات بھی ہوئی-دینی تعلیم سے ناآشنا ہیں- البتہ روحانیت کے نام سے ان کی” دنیاوی انکم“کا بندوبست دربار کی شکل میں خوب ہو جاتا ہے- اور اب ہم قلعے سے نیچے اترے-شاہ شمس تبریز سبز واری:امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل کو امام ماننے والے اسماعیلی کہلاتے ہیں اور چھوٹے لڑکے موسیٰ کاظم کو امام ماننے والے اثنا عشری امامی کہلاتے ہیں-مصر میں رہنے والے اسماعیلی( آغا خانی )حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد ہونے کے دعویدار ہیں- اسی نسبت سے وہ فاطمی کہلاتے ہیں-حمدان عرف قرمط کے پیرو کار قرامطی کہلاتے ہیں-یہ سات آئمہ کے قائل ہیں- ان کا ظہور کوفہ میں بمقام نہرین ہوا-چوتھا فرقہ باطنی کہلاتا ہے جس کا سرغنہ حسن بن صباح تھا‘ جس نے حشیش کی جنت بنا کر فدائیوں کی جماعت تیار کی تھی اور ان کے ذریعے دنیائے اسلام کے بڑے بڑے قائدین کو قتل کرادیا تھا-یاد رہے ! شیعہ قرامطیوں کے جو مبلغ ہیں وہ داعی کہلاتے ہیں-شاہ شمس سبزواری بھی داعی بن کر ملتان آئے تھے-
شاہ شمس کا بہاوالدین زکریا سے مقابلہ:کتا ب نور مبین مطبوعہ اسماعیلیہ ایسویسی ایشن برائے ہند بمبئی میں شاہ شمس کی ملتان آمد کا ذکر اس طرح ہے کہ”حضرت پیر شمس( ۷۵۷ء) کی شہرت بڑھنے سے
بہاوالدین زکریا نامی ایک درویش کو اپنی عزت کی نسبت ڈر پیدا ہوا-گلزار شمس کی روایت کے بموجب شیخ زکریا ملتانی نے اپنے خاص مرید خان محمد حاکم شہید کو حکم دیا کہ پیر شمس ملتان آئیں گے تو ہمیں بھی ان کی اطاعت کرنی پڑے گی-اس لئے تمام کشتیوں کو قبضہ میں لے لو تاکہ وہ شہر میں داخل نہ ہو سکیں-مرید نے اس حکم پر عمل کیا اور جب پیر شمس نے دریا کے کنارے پر آ کر دیکھا تو ایک بھی کشتی نظر نہ آئی-بے حد غصہ آیا-ایک کاغذ کی کشتی بنائی‘اس میں خود بیٹھ گئے اور کشتی کے ساتھیوں کو اپنی انگلی پکڑنے کے لئے کہا-سب نے اس پر عمل کیا-کشتی اس وقت ندی میں بہنے لگی مگر چکر کھانے لگی-پیر شمس نے دریافت کیا کہ کسی کے پاس دنیاوی مال و متاع ہے-؟ شہزادہ محمد کو ان کی والدہ نے زاد راہ کے لئے چند زیورات دئیے تھے ‘ اس کو انہوں نے پیر شمس کے سامنے رکھ دیا-آپ نے ان جواہرات کو(جو پہلے زیوارت تھے) دریا میں پھینکوادیا-(پانیوں کے بادشاہ حضرت خضر علیہ السلام کی خدمت میں بطور نذرانہ تاکہ کشتی خیریت سے پار لگ جائے) تو کشتی چل پڑی- جب کشتی دریا کے بیچ میں پہنچی تو بہاوالدین ذکریا کی نظر اس پر پڑی تو اس نے بد دعا دی-اس لئے کاغذ کی کشتی وہیں رک گئی-پیر شمس بہت حیران ہوئے-آخر ان کی نظر
 بہاوالدین ذکریا پر پڑی جو کھڑکی میں سر نکالے بیٹھے تھے-انہیں معلوم ہو گیا کہ میری کشتی انہوں نے روکی ہے-پیر شمس نے ان کی طرف جونہی دیکھا تو بہاوالدین زکریا کے سر پر دو سینگ نمودار ہوئے اور سر کھڑکی میں اٹک گیا-بہاوالدین اس مصیبت سے گھبرا گئے اور اپنے بیٹوں کو معافی کے لئے پیر شمس کے پاس بھیجا-ان لڑکوں نے والد کی طرف سے معافی مانگی-پیر شمس نے اس کے حق میں دعا فرمائی-اس طرح بہاوالدین کو اس مصیبت سے نجات ملی-آج تک ان دونوں سینگوں کی نشانی ان کے ذکور بیٹوں میں باقی ہے -
 *ملتان از منہ قدیم سے سورج دیوتا کی پرستش کا مرکز-:
 قارئین کرام ! شاہ شمس کی کرامت سے سورج کا نیچے اتر آنا تاکہ شاہ شمس اپنی بوٹی کو بھون(پکا) سکیں-اور علاقے کا نام اس وجہ سے ”سورج کنڈ “ مشہور ہو جانا‘اور شاہ شمس کا سورج کو یہ کہنا کہ”میں زمانہ قدیم سے تیرا عاشق ہوں “ کیا محض چلی چلائی ایک اتفاقی بات ہے یا یہ کسی سوچی سمجھی سازش کی کڑی ہے-آئندہ سطور میں ہم ملتان کی تاریخ کے حوالے سے ثابت کریں گے کہ کس طرح ملتان ازمنہ قدیم سے ہندوں کے سورج دیوتا کی پرستش کا مرکز رہا ہے-اور بعض ولیوں کے حوالے سے ملتان کے اس ہندوانہ تشخص کو مسلمانوں میں مسلسل زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے-شاید آگے سازشیوں کا ارادہ ہو کہ بالاخر وہ ایسی من گھڑت روایات کے ذریعے ملتان کو دوبارہ سورج دیوتا کی پرستش کامرکز بنادیں گے لیکن وہ پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے-اگرچہ غیر محسوس طور پر یہ شرکیہ سفر اب بھی جاری ہے-تو اب ملتان کے مختلف قدیم ناموں کے حوالے سے نظر ڈالئے کہ کس طرح ملتان پہلے سورج دیوتا کا مرکز تھا-ملتان کا قدیم نام اگرچہ تواریخ میں ” میسان “ ملتا ہے تاہم اس کے دیگر نام بھی ملتے ہیں....مثلاً ......جاری ہے.......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
نوٹ:آپ اس سلسلہ کی تمام اقساط نیچے دیئے گئے لنک پر بهی پڑھ سکتے ہیں
www.deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...