Saturday 19 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام ،36

اسلام اور خانقاہی نظام

 ہم نے بھی ایک عدد گائیڈ اپنے ساتھ لے لیا-پہلا دربار جو ہمیں دکھلایا گیا‘یہ حضرت شیرشاہ سید جلال الدین حیدر سرخ پوش کا ہے-اس دربار کے اندر سامنے والی دیوار جو کہ اب خستہ ہو چکی ہے‘اس کے متعلق بتلایا گیا کہ اس دیوار پر”مخدوم جہانیاں جہان گشت“ نے سواری کر کے پوری دنیا میں گشت کیا اور تبلیغ کی-اسی طرح ایک دیوار پر جلال الدین سرخ پوش بیٹھے اور دلی سے اچ (چهوٹا ملتان) آ گئے- 36من وزنی پتھر میں حضرت علی کا نقش قدم:اس دربار کے دائیں جانب ایک چھوٹا سا کمرہ تھا-اس میں جب داخل ہو ئے تو ایک بہت بڑا چٹو نما ملائم پتھر پڑاتھا-بتلایا گیا کہ اس کا وزن ۶۳ من ہے- اس کے اندر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاوں کا نشان تھا ‘اور یہ پاوں پتھر کے اندر دو تین فٹ اندر دهنسا ہوا ہے- یعنی جیسے کسی کا پاوں کیچڑ میں دھنس جائے-میں نے اس حجرے کے مجاور سے پوچھا کہ ”بھئی یہ اس قدر بھاری پتھر یہاں کیسے آگیا؟“ کہنے لگا!” اسے حضرت جلال الدین سرخ پوش اپنی گدڑی میں باندھ کر مکہ سے لائے تھے-پھر ایک جگہ دکھلائی گئی جہاں چار ولیوں نے اکٹھے چلہ کاٹا تھا-یہ ولی بہاؤالدین زکریا ‘ شہبار قلندر‘ فرید الدین گنج شکر اور جلال الدین شیر شاہ تھے-اسی طرح ایک دربارپر گدی نشین کا نام اس طرح لکھا ہواتھا”سگ دربار مخدوم طالب نظر عنایت مرید حسین کلاب“یعنی ولی صاحب کی عنات کا طالب ‘ اس دربار کا کتا جس کا نام مرید حسین ہے اور لقب کلاب یعنی ”کتا(dog)“ہے-سیّد قاتل شاہ کی کرامات ِجلالیہ: غرض بے شمار دربار اور اس طرح کی کہاوتیں سنتے ہم ایک اور بڑے دربار پر پہنچے-یہ صدر الدین راجن قتال کا دربار تھا-یہ اتنا بڑا دربار تھا کہ اس کے اندر کم از کم 80 ولیوں کی قبریں تھیں- کہتے ہیں کہ” یہ بزرگ بڑے جلال والے تھے‘جس کو بھی یہ دین کی دعوت دیتے وہ کلمہ پڑھ لیتا- اگر کوئی نہ پڑھتا تو وہ قتل ہو جاتا‘اندھا ہو جاتا‘ یا مر جاتا‘اس لئے اس بزرگ کو قتال کہا جاتا ہے-میں نے کہا -” تب قتال تو نہ ہوا -قاتل ہوا- خراسان کی شہزادی:اس کے بعد ایک اور بڑا دربار دیکھا- عورتوں کا یہاں ہجوم تھا اور عبادت گزاری کے مناظر تھے-ہم یہاں سے نکلے اور شہر کے کونے پر آگئے-یہاں دو انتہائی بڑے بڑے گنبد نما مزار آدھے گرے ہوئے تھے‘اور جو آدھے بچے ہوئے تھے‘ان میں بھی دراڑیں تھیں-ان کے متعلق مشہور ہے کہ ایک بی بی جو ندی کا مزار ہے-یہ خراسان کی شہزادی تھی-یہ بھی ایک بہت بڑی ولیہ عورت تھی-
بہر حال اُچ کے کنار ے پر کبھی دریا بہتا تھا-وہ دریا اس ولی عورت اور دیگر ولیوں کے درباروں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا-اور جو دو دربار باقی بچے ہیں تو وہ نصف دریا برد ہو کر اور دراڑیں مارے ہو ئے عبرت کا سامان ہیں-اور زبان حال سے لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ جن کو مدد کے لئے تم پکارتے ہو‘ ان کی لاشیں دریا کھا گیا ‘ اور اب ٹوٹی پھوٹی اینٹیں عبرت کا سامان ہیں-مگر لوگ ہیں کہ جو یہاں آتے ہیں‘آہ وفغاں کرتے ہیں‘ اور فریادیں کرنے سے باز نہیں آتے-غرض یہ اُچ شہر ہے کہ جس کے ولیوں کے بارے میں یہ شعر مشہور ہے: تو اُچا تیری ذات اُچی تُسی وچ اُچ دے رہندے او ،اس شہر کے درباروں کا ماحول بڑا طلسماتی سا ہے-عجیب وغریب من گھڑت کہاوتیں ہیں-اور ان کی بنیاد پر لوگ خوب اپنا استحصال کروانے یہاں آتے ہیں-اب آخر پر جو ہمارا گائیڈ تھا‘ اس کی فیس کا مطالبہ تها-میں نے اسے کہا-”شہر سے ذرا باہر نکل کر دیں گے-“یہ نوجوان میٹرک پاس تھا-انتہائی غریب تھا-میں نے اسے توحید کی دعوت دی-ان ولیوں کی بے بسی کے بارے میں آگاہ کیا اور گدی نشینوں کی کرتوتوں کے بارے میں بتایا‘تو وہ پھٹ پڑا-اور پھر اس نے یہاں ہونے والی خرافات کے بارے میں مجھے بتلایا‘تو ہم حیران رہ گئے-کہ تقدس کے پردے میں یہ دربار کس قدر فحاشی اور بے شرمی کے اڈے ہیں!!....؟اور ان کی اکثریت جاگیردار پیروں کی گدیوں تلے اپنا دربار جاری کئے ہوئے ہے-اس شہر کی بلدیہ کا جو چیئرمین ہے ‘ وہ بھی گدی نشین ہے-اس کی کوٹھی ہم نے دیکھی‘جس میں کاریں کھڑی ہوئی تهی‘ اندازہ لگائیں کہ بلدیات اور ضلع کونسلوں کی چیئرمین شپ سے لیکر وزارتوں اور گورنریوں تک قبضہ ہے‘تو ان جاگیردار پیروں کا...........
بہر حال وہ غریب گائیڈ کہ جس نے دعوت توحید کو قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا-ہم نے اسے توحید کی کتاب د -اپنا ایڈریس بھی دیا....تعاون بھی کیا-وہ بہت خوفزدہ ہو رہا تھا کہ حقائق بتلاتا تھا اور ارد گرد بھی دیکھتا تھا-کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا-تو یہ ہے وہ مخلوق! جو مذہبی ‘ سیاسی اور اقتصادی شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہے اور یہ جکڑ بندیاں ان جاگیردار پیروں کی ہیں‘ کہ جن کی خدائی کے سامنے یہ سادہ لوح عوام بے چارے بے بس ہیں-سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کے یہ لوگ ابھی تک غلام ہیں‘ان کی غلامی کے دن اور ان کے استحصال کی گھڑیاں اسی دن ختم ہوں گی جس دن ان جاگیر دار پیروں کی گدیوں کا خاتمہ ہو گا-ان کی ناجائز زمینیں غریب لوگوں اور مسکین ہاریوں میں تقسیم کی جائیں گی- تب جا کر یہ غلام آزاد ہوں گے-پھر ان کے سامنے وہ دین پیش کیا جائے گا کہ جو دین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے- اور وہ دین کتاب وسنت کی صورت میں محفوظ ومامون ہے-یہ لوگ اس دین کو اپنا کر خود دار بنیں گے -صرف اپنے پیدا کرنے والے کے بندے بنیں گے.... تاہم اس راہ میں ہماری جدو جہد ان شاءاللہ جاری رہے گی- ہم ان کی کرتوتوں سے اور ان کے دنیاوی اور اخروی استحصال سے اللہ کے بندوں کو باخبرکرتے رہیں گے اور یہ نبوی فریضہ سر انجام دیتے رہیں گے-تا وقتیکہ.... لوگ پیروں کے سامنے سجدہ ریز ہو نے کی بجائے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوں-درباروں کی طرف رخ کرنے کی بجائے کعبے کی طرف اپنا رخ کریں اور کشف المحجوب ‘ اخبار الاخیار ‘ ملفوظات اورتذکرہ اولیا ءجیسی بے سرو پا اور غلامانہ ذہن بنانے و الی بندوں کی لکھی کتابوں کی بجائے‘وہ رب کی کتاب قرآن پڑھیں -اس کے نبی کی کتاب بخاری‘ مسلم اور ترمذی کا مطالعہ کریں-اے فرزندانِ توحید! آئیے! اس کام کو سر انجام دیں یہ شیوا پغمبری ہے اور لوگوں کو دہکتے ہوئے انگاروں سے نکال کر توحید کی شاہراہ پہ چلائیں.... جنت کی ابدی بہاروں میں داخل کریں..جاری ہے...تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
 visit us my blog:
www.deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...