Thursday 17 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،33

اسلام اور خانقاہی نظام

سائیں راشد کی اولاد....پیر آف جھنڈو شاہراہ توحید پر.... پیر آف پگاڑو شاہراہ شرک پر: سائیں راشد کی اولاد سے-سندھ کا سب بڑا مذہبی اور سیاسی پیر اگر پیر آف پگاڑو ہے-تو سائیں راشد ہی کی اولاد سے سندھ کا سب سے بڑا عالم محدث‘اور خطیب سید بدیع الدین شاہ راشدی پیر آف جھنڈو ہے-سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کہ جنہوں نے سندھی زبان میں توحید خالص اور دیگر بہت سی کتب لکھیں-انہوں نے سندھی میں قرآن کی تفسیر بھی لکھی کہ جس کی چند جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں-انہوں نے کتاب و سنت کے نور کو سندھ کی خانقاہی/درباری تاریکی میں پھیلانے کے لئے دن رات ایک کئے رکھا-شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی آف کراچی اس راہ میں ان کے ساتھی بنے اور سندھ میں توحید وسنت کا کام جاری ہوا-حضرت شاہ صاحب سعیدآباد میں پورے سندھ کی سطح پر ہر سال بہت بڑی کانفرنس منعقدکرتے-پنجاب سے علماء کی ایک تعداد ہر سال اس کانفرنس میں شرکت کرتی- چار پانچ سال راقم متواتر شاہ صاحب کی شفقت سے اس کانفرنس میں شرکت کرتا رہا- ایک بار اس کانفرنس کے موقع پر اکٹھے بیٹھے تھے‘ تو میں نے شاہ صاحب سے سوال کر دیا کہ ”آپ نے کبھی پیرپگاڑو کو بھی دعوت دی ہے؟شاہ صاحب نے کہا-پورے سندھ میں دعوت جاری ہے تو پیر پگاڑو کیسے محروم رہ سکتا ہے....؟ کئی دفعہ اسے سمجھایا ہے“اور پھر کہنے لگے کہ” ایک بار انتخابی جلسہ تھا-یہ جلسہ بہت بڑا تھا-پیر پگاڑو نے مجھے بھی بلا بھیجا-ان کے اصرار پر میں چلا گیا-اور پھر تقریر کا وقت دیا گیا تو میں نے اللہ کا دین بیان کیا‘توحید کھل کر بیان کی‘شرک اور بدعات کا رد کیا اور پیروں کی بھی خوب خبر لی-“شاہ صاحب کہنے لگے ”اس کے حر مرید بڑے سٹپٹا ئے‘ مگر وہ کیا کر سکتے تھے؟“ پیر پگاڑو صاحب مسکراتے رہے- مگر اس کے بعد انہوں نے مجھے کبھی کسی جلسے میں بلانے کی دوبارہ ہمت نہیں کی-“ تو یہ ہیں پیر راشد کے دو نمایاں بیٹے ‘ کہ جن میں ایک دعوت دیتا ہے اپنی خانقاہ اور گدی کی جانب ‘ کہ جس میں ایک انسان مر کر دفن ہے-- اور دوسرا وہ عظیم انسان ہے کہ جو !قرآن و حدیث کے مطابق اپنے رب کی طرف دعوت دیتا ہے- لوگو!.... اب یہ دو دعوتیں ہیں- ایک دنیا اور آخرت کے استحصال کی دعو ت ا ور دوسری وہ دعوت کہ جو سینکڑوں زندہ اور مردہ مصنوعی خداوں کی ناپاک غلامی سے چھڑا کر ایک اللہ کا بندہ بناتی ہے-انسان کو خوددار اور موحد بناتی ہے اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی جنتوں کی ابدی بہاروں کا مہمان بناتی ہے-اب دونوں میں سے جو آپ کو اچھی لگے اسے اختیار کر لیجئے- مگر یاد رکھئے ! اچھی دعوت بہر حال وہی ہو گی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ثابت ہوگی-اور یقینی بات یہی ہے اچھی دعوت وہی ہے جو کہ اللہ کی طرف بلاتی ہے-تو حید کا درس دیتی ہے نہ کہ خانقاہوں پہ سر خم کرنے کا-سائیں راشد کے ایک فرزند کی زندگی کس کام کے لئے وقف تھی اور وہ کیا کرتے تھے یہ تو آپ نے مختصر سے تذکرہ میں ابھی ابھی پڑھا کہ وہ تو حید کی دعوت دیتے تھے ‘ قرآن کی تفاسیر لکھتے تھے ‘ احادیث پڑھتے پڑھاتے اور ان کو دنیا میں شائع کرکے پھیلاتے تھے لیکن سائیں راشد کے دوسرے بیٹے پیر آف پگاڑا کا کیا کردار ہے ؟ ان کی کیا مصروفیات اور سرگرمیاں ہیں ؟ اس کا ہم یہاں مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں ‘ پیر پگاڑا سے جہاز میں ایک ملاقات : لیجئے ! قارئین کرام ! میرے دماع او ر ذہن کے پردہ سکرین پر وہ منظر تیزی سے حرکت کر رہا جب ایک دفعہ لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے مجھے پیر پگاڑا صاحب سے گفتگو کرنے کا موقع ملا- یہ حسن اتفاق تھا کہ پورے جہاز میں ایک ہی سیٹ خالی تھی اور مجھے بھی اسلام آباد کے لئے جانا ضروری تھا‘ اور وہ خالی سیٹ بھی پیر پگاڑا کے ساتھ متصل تھی-میں جب سیٹ پر بیٹھا تو پیر پگاڑا کو اپنے پاس پاکر ان سے سلام دعا کے بعد گفتگو کی-پیر صاحب نے بھی کہا کہ” اسلام آباد تک گفتگو کیجئے “ دوران گفتگو میں نے ان سے کہا کہ ”پیر صاحب آپ کو پتہ ہے کہ انڈیا آج کل بہت بڑی مصیبت میں پھنسا ہوا ہے - مجاہدین ....کشمیر میں جہاد کرکے انڈیا کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں اور اب اس جہاد نے انڈیا کو معاشی ‘ سیاسی اور دفاعی لحاظ سے اس قدر کمزور کردیا ہے کہ بیرونی دنیا کے پریس کے علاوہ ہندوستان کا میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اگر کچھ دیر اور یہی حالات رہے تو انڈیا ٹکڑ ے ٹکڑے ہو جا ئے گا-“ تو.... آپ کا کشمیر کے جہاد کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ .... پیر صاحب نے جواب دیا : ” سب جہادی تنظیمیں اور خاص طور پر جماعت اسلامی سب کھانے پینے ا ور دولت و فنڈز کے حصول کے لئے لگے ہوئے ہیں اور یہ سب کھانے پینے کا چکر ہے اور کچھ نہیں-“ اور پھر پیر صاحب نے وہ جملہ کہا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا - کہنے لگے ’ ’ انڈیا کو چھوڑیں پاکستان کی فکر کریں کہ وہ بچتا ہے کہ نہیں “ قارئین کرام ! یہ تو تھا پیر صاحب کی جاگیردارانہ ‘ غلامانہ ‘ اور صوفیانہ سوچ پر مبنی جواب ........ اب میرے ذہن میں ایک اور منظر بھی کچھ اس طرح گھوم رہا ہے کہ .... یہ لاہور میں ریس کورس کلب کا میدان ہے - گھوڑوں کی ریس شروع ہونے والی ہے ‘ شرطیں لگ رہی ہیں .... اور ہم ادھر آئے پیر پگاڑا سے ملنے لیکن ان کی جگہ ان کا بیٹا علی گوہر ان کے نائب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتا نظر آیا - ان سے بھی گفتگو ہوئی-اسی طرح کے ایک استفسار پر انہوں نے جواب دیا اس سے اندازہ لگائیں کہ ان پیران باصفا کی پاکستان کے ساتھ کسقدر ہمدردیاں ہیں-پیر پگاڑا کا بیٹا علی گوہر ہمیں جواب دیتے ہوئے کہنے لگا :”ہمیں کیا پرواہ ‘جب پاکستان نہ تھا تو ہماری درگاہ قائم تھی اور ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا !! اگر پاکستان قائم نہ بھی رہے تو ہماری درگاہ تو پھر بھی قائم ہی رہے گی-“ قارئین کرام! یہ ہے ان پیران پاک باز کی سوچ کی پرواز-آپ ان سے کشمیر کے جہاد کے متعلق یا کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں صرف بیان کی حد تک ہمدردی کی توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ تو اپنی گدی کے ہوتے ہوئے پاکستان کے وجود کے برقرار رہنے یا نہ رہنے کی بھی پرواہ نہیں کر رہے- شاید اس لئے کہ جس طرح انہوں نے 1857ءاور اس کے بعد قیام پاکستان تک انگریزوں سے مل کر سندھ کی بھولی عوام کا استحصال(ناجائز فائدہ اٹهانا) کیا - مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے ‘ حکومت کوئی بھی آئے پاکستان پر قابض کوئی بھی ہو ان کو اس سے کیا.انکو تو اپنے بنک بیلنس دنیا کی عیش و شہرت  سے غرض ہے چاہے وہ کسی بهی طریقے سے ہو .جاری ہے.....تالیف:عمران شہزاد تارڑ
ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...