Monday 14 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،24

اسلام اور خانقاہی نظام

بے نظیر کی والدہ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ چونکہ ایران کے شہر اصفہان کی رہنے والی ہیں اور ایران دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا ہے-وہ اصفہان کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح مسلم میں ہے کہ”اصفہان کے ستر ہزار یہودی دجال کے پیروکار بن جائیں گے اور ان سب پر سیاہ چادریں ہوں گی-( صحیح مسلم :کتاب الفتن باب فی بقیة میں احادیث الدجال )
امام ضامن اور مرتضٰے بھٹو: بہرحال اس اصفہان سے آگے میں نے تہران کے قریب خمینی کی قبر بھی دیکھی‘قم میں معصومہ قم کا مزار اور مشہد میں شیعہ حضرات کے آٹھویں امام حضرت علی رضا کا دربار بھی دیکھا-شیعہ حضرات ان قبروں کو”حرم“کہتے ہیں-ان حرموں میں امام علی رضا کا حرم سب سے بڑا اور مقدس مانا جاتا ہے-ان کے نام کا شیعہ حضرات بازو پر”امام ضامن“بھی باندھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کا ضامن (محافظ)امام ہوگیا ہے-مرتضی بھٹو جب شام کے کمیونسٹ اور نصیری شیعہ حافظ الاسد کے طویل عرصہ تک مہمان رہنے کے بعد کراچی ائیر پورٹ پر اترے.... تو بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کے ہاتھ میں امام ضامن تھا جسے انہوں نے بیٹے کے بازو پر باندھ دیا-حضرت علی رضا رحمہ اللہ کہ جنہیں شیعہ روایات کے مطابق زہر دے کر قتل کردیا گیا.... دوسر ے لفظوں میں وہ خود اپنے ضامن بھی نہ بن سکے‘تو اب ان کے نام کا جو امام ضامن ہے‘اس کو باندهنے کے باوجود مرتضی بھٹو بہن کے عہد وزارت میں جیل میں چلے گئے‘ جبکہ پانچ جنوری کو بھٹو کے دربار پر قبضہ کے جھگڑا میں ماں نصرت بھٹو کے کئی آدمی وزیر اعظم بیٹی کے دور میں پولیس فائرنگ سے ہلاک ہوگئے-جبکہ نصرت بھٹو آنسو گیس کے شیل لگنے سے کھانسی کا شکار ہوگئیں-اور بالآخر بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ہی مرتضی بھٹو بھی قتل کر دئیے گئے اور بے نظیر کے خاوند آصف زرداری پر قتل کا مقدمہ قائم کر دیا گیا-اور جب بے نظیر بهٹو کو راولپنڈی میں ایک جلسہ کے اختتام پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا اس وقت بهی یہ 'امام ضامن' محترمہ کے بازو پر بندها ہوا تها لیکن بچا نہ سکا. قارئین کرام ! ہم نے یہ ساری صورتحال اس لئے قدرے تفصیل سے لکھی ہے کہ جس ملک کی حکمران ایسی ضعیف العتقادی عورتیں ہوں کہ جو آپس میں دربار کے قبضے کیلئے کبهی اقتدار کے لئے لڑیں...... تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بار بار کیوں نہ زبان پر آئے- لَن یُّفلِحَ قَومُ وَلَّوا اَمَرَھُم اِمرَاةً ایسی قوم ہرگز فلاح یاب ( کامیاب) نہیں ہوسکتی جس نے اپنے امور کی سربراہی ایک عورت کے حوالے کردی(البخاری : کتاب المغازی باب کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی کسری و قیصر رقم الحدیث 4425) قارئین کرام ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کیا ہم سے اس طرح مخاطب نہیں ہو رہی.... کہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جو تم نے ایرانی مذہب اور مغربی تہذیب کی علمبردار ....ضعیف العقیدہ اور توہم پرست عورتوں کو اپنا حکمران بنا لیا ہے‘اپنے ملکی معاملات کے حل کیلئے ان کو مستقل سیاسی لیڈر بنا لیا ہے- کہ جن کے جھگڑے کا محور ایک قبر ہے کہ کون اس قبر کا مالک بنے-کون بابا بھٹو کے دربار کا گدی نشین بنے؟....بہرحال اس کے بعد جو سوال میں نے غلام نبی سے کیا وہ یہ تھا کہ”ماں بیٹی یہاں آکر کس طرح سلام کرتی ہیں؟“تو وہ کہنے لگا-”بے نظیر سلام کرتی ہے؟ نصرت بھٹو تو اپنا ماتھا دربار پہ رکھ کرسلام کرتی ہے-اور بابا بھٹو کی قبر پر قرآن کے نسخے بھی بہت سارے رکھے ہوئے تھے-میں نے کہا !قبر پر یہ جو قرآن رکھے ہوئے ہیں تو محض تبرک کے طور پر یا انہیں پڑھا بھی جاتا ہے ؟ تو وہ بتلانے لگا-محمد ملوک یہاں کے مولوی صاحب ہیں-یہ بھٹو خاندان کے مولوی ہیں اور یہ سائیں بھٹو کے دربار پر قرآن خوانی کرتا رہتاہے-بابا بھٹو کی قبر پر یہ جو چند ایک مناظر میں نے دیکھے تو یہ کوئی انہونے مناظر نہیں بلکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے بے شمار درباروں پر اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ضعیف الاعتقادی پر مبنی انتہائی خرافاتی مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں-جن کی تفصیل مزید آگے آئے گی مگر ذولفقار علی بھٹو کی قبر پر یہ مناظر اس وجہ سے باعث تعجب ہیں کہ ذولفقار علی بھٹو تو سیکولرزم کے علمبردار تھے‘سوشلزم کے حامی تھے.اور پھر ان کی بیٹی بے نظیر وہی خاتون ہیں کہ جن کی تعلیم و تربیت مغرب کی یونیورسٹیوں میں ہوئی ہے-اور یہ اسی تعلیم کی برکت تھی کہ اس نے اپنی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں واضح طور پر اسلامی حدود کو وحشیانہ قرار دیا .... !! اب تعجب تو اس بات پر تھا کہ ایک طرف روشن خیال بننے کے لئے قرآن کی سزاوں کو وحشیانہ قرار دیا جارہا تها اور دوسری طرف اسی قرآن کو بھٹو کی قبر کی زینت بنایا جا رہا ہے.جاری ہے...
سیکولرزم اور صوفیت کے جال اگلی قسط میں پڑهیں. ..
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...